ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے

آپ کی یادگار کھو بیٹھے
ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے
اب بہاریں ہوں لاکھ جلوہ کناں
جوہرِ اعتبار کھو بیٹھے
ان کے جلووں کو زندگی کہہ کر
ہم نظر کا وقار کھو بیٹھے
آپ سے مل کے ہم نے کیا پایا
اپنے دل کا قرار کھو بیٹھے
خارزاروں سے اس طرح اُلجھے
ہم خلوصِ بہار کھو بیٹھے
غم کی تشنہ لَبی تو قائم ہے
آپ سا غم گُسار کھو بیٹھے
ان سے ہم اس قدر قریب ہوئے
زندگی کا وقار کھو بیٹھے
ہر حقیقت فریب لگتی ہے
جب کوئی اعتبار کھو بیٹھے
جس پہ نازاں ہیں قُربتیں بھی، شکیبؔ
وہ شبِ انتظار کھو بیٹھے
شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s