میرے دل کی کَلی جو مُرجھائی
ہر گُلِ تر کی آنکھ بھر آئی
پھر ہوئی روشنی خلاؤں میں
پھر کسی بے وفا کی یاد آئی
جُھک گئیں مل کے شرم سے نظریں
اک نئے موڑ پر حیات آئی
ان کی قُربت بھی بار ہے دلبر
کس قدر ہے لطیف تنہائی
اُٹھ گیا اعتبار منزل کا
دیکھ لی رہبروں کی دَانائی
ان کی چاہت بھی اب نہیں منظور
تھے کبھی ہم بھی ان کے سودائی
بے خطر حادثوں سے ٹکرایا
یوں مرے عزم نے جِلا پائی
عزم نے زندگی کو جیت لیا
اپنی پستی پہ موت شرمائی
ڈر کے پیچھے کھسک گیا ساحل
یوں جزیرے سے ناو ٹکرائی
مجھ کو احساسِ غم، شکیبؔ، نہ تھا
ان کو دیکھا تو آنکھ بھر آئی
شکیب جلالی