فریادی

کوئی نہیں ہے جو بُجھتی آنکھوں میں زندگی کے دیے جلادے

کوئی نہیں ہے جو دل کے دریا میں حسرتوں کے کنول کھلا دے

لبوں کی پگڈنڈیوں پہ آہوں کے گرم رَو قافلے رواں ہیں

کٹیلی آنکھیں لہُو لہُو ہیں ‘ ہلالی ابرُو دھواں دھواں ہیں

نظر پہ پَت جَھڑکی زردیوں کے مُہیب سایے بہت گراں ہیں

چمکتے تاروں کی آبِ جُو میں دُھلے ہوئے سائباں کہاں ہیں

نکیلی پلکوں کی سُولیوں پر حنائی اشکوں کے سرد لاشے

نہ جانے کب سے ٹنگے ہوئے ہیں نہ جانے کب تک ٹنگے رہیں گے

سمے کے جنگل میں شب کی ناگن لپکتی پھرتی ہے پَھن اٹھائے

سُلگتے داغوں کی روشنی کو کہیں یہ ڈس کر چلی نہ جائے

قدم قدم پر ستارے ٹوٹیں رَوش رَوش پر ہوا ڈرائے

اُجاڑ راہوں میں دل کی دھڑکن کسے پکارے‘ کسے بلائے

کوئی نہیں ہے جو بُجھتی آنکھوں میں زندگی کے دیے جلادے

کوئی نہیں ہے جو دل کے دریا میں حسرتوں کے کنول کھلادے

شکیب جلالی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s