یہ وفا کا صلہ دیا تم نے
غم کا خُوگر بنا دیا تم نے
جام و مِینا ہے ہر گھڑی درکار
رِند گویا بنا دیا تم نے
ہوشِ دیدار بھی نہیں باقی
کیا نظر سے پلا دیا تم نے
غمِ ہستی اُٹھائے پھرتا ہے
خاک کو کیا بنا دیا تم نے
درد کی لذّتیں، ارے توبہ
مر کے جینا سکھا دیا تم نے
بجلیو! کچھ کمی ہے شاخوں کی
اک نشیمن جلا دیا تم نے
تم سے لطف و کرم کی کیا اُمّید
ہنستے ہنستے رُلا دیا تم نے
درد میں اب خلش نہیں باقی
عینِ درماں بنا دیا تم نے
جس میں پنہاں، شکیبؔ، تھا غمِ دل
وہ فسانہ سُنا دیا تم نے
شکیب جلالی