اونچے محلوں میں پائل چھنکاتی ہے عید
میری گلی میں آتے ہوئے شرماتی ہے عید
پاس آئی تو جیسے مٹّی بن جائے گی
دُور ہی دُور سے اپنی چَھب دکھلاتی ہے عید
جلتے زخموں میں اور آگ سی بھردیتی ہے
دُکھی دلوں کو اور دُکھی کرجاتی ہے عید
تن پر اُجلے کپڑے اور نہ جھولی میں لعل
ہم کنگالوں سے کیا لینے آتی ہے عید
زرّیں کنگن کیسے پہنائیں خوشیوں کو
من کو نت نئی سوچوں میں اُلجھاتی ہے عید
شکیب جلالی