تجھ کو چشمِ تحیّر سے تکتا ہوا، صرف میں ہی نہیں آئنہ بھی تو ہے
جانِ من حُسن کی بات اپنی جگہ، مسئلہ کوئی اس کے سوا بھی تو ہے
دشتِ فرقت کی اس تشنگی تک نہیں، آزمائش فقط ہجر ہی تک نہیں
اس سے آگے تمنا کے اظہار کا، ایک دشوار تر مرحلہ بھی تو ہے
میرا لہجہ تعلق سے بھرپور تھا، اور چہرہ تاثر سے معمور تھا
خال و خد سے اُدھر لفظ سے ماورا، ایک احوالِ بے ماجرا بھی تو ہے
حُسن تیرا بہت جاں فزا ہی سہی، روح پرور سہی خوش ادا ہی سہی
سن مگر دل رُبا تیرا نغمہ سرا، دیکھتا ہی نہیں سوچتا بھی تو ہے
حرف کی جستجو میں پگھلتا رہا، شاعرِ خوش نوا روز جلتا رہا
تُو سنے تو سنے ورنہ ہر بات کا، سننے والا کہیں اک خدا بھی تو ہے
کس قدر خوش نفس، کس قدر خوش ادا، یاد کے پھول کھلتے ہوئے جا بہ جا
عشق کی راہ میں غم اگر ہیں تو کیا، عشق کے دم سے ایسی فضا بھی تو ہے
وہ توقع پہ پورا اترتا نہیں، میں اگر چپ رہوں تو سمجھتا نہیں
یوں تو کہنے کو ہے وہ مرا ہم نوا، اک سخن کا مگر فاصلہ بھی تو ہے
وہ نہیں تو سخن کی ضرورت نہیں، مجھ کو سب سے تکلّم کی عادت نہیں
ہجر سے کچھ سوا ہے مرا واقعہ، حرف کی موت کا سانحہ بھی تو ہے
عرفان ستار