کب خُود نگَر و عَرش خیالوں نے بَتایا
ہم کیا تھے محبّت کے حوالوں نے بَتایا
بے نُور دِیوں نے کبھی بانٹے تھے اُجالے
طاقَوں میں لَٹَکتے ہُوئے جالوں نے بَتایا
لُوٹا گیا جب دِل تَو ہمَیں ہوش ہی کب تھا
یہ سَب تَو ہمَیں دیکھنے والوں نے بَتایا
کچھ خُوب نہ تھا اُن کے جوابوں کا رَوَیّہ
لَوٹے تَو مِرے تشنہ سوالوں نے بَتایا
لازم ہے کہاں عجزِ بیاں نُطق کو ضامنؔ
یہ خامشیِ زہرہ جمالوں نے بَتایا
ضامن جعفری