لبوں پہ ہاں نہیں دل میں مگر نہیں بھی نہیں
گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں
محبتوں کے تقاضے عجیب ہوتے ہیں
لُٹا کے بیٹھے ہیں سب کچھ، جبیں پہ چِیں بھی نہیں
تمہارے راندۂ درگاہ جائیں بھی تَو کہاں
دوائے درد تمہارے سِوا کہیں بھی نہیں
منانا چاہیں اُسے اور ہم منا نہ سکیں
دیارِ حسن میں ایسا کوئی حسیں بھی نہیں
نگاہ و دل کی حقیقت بھی کھُل گئی ضامنؔ
کہ اِن سے بڑھ کے کوئی مارِ آستیں بھی نہیں
ضامن جعفری