گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں

لبوں پہ ہاں نہیں دل میں مگر نہیں بھی نہیں
گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں
محبتوں کے تقاضے عجیب ہوتے ہیں
لُٹا کے بیٹھے ہیں سب کچھ، جبیں پہ چِیں بھی نہیں
تمہارے راندۂ درگاہ جائیں بھی تَو کہاں
دوائے درد تمہارے سِوا کہیں بھی نہیں
منانا چاہیں اُسے اور ہم منا نہ سکیں
دیارِ حسن میں ایسا کوئی حسیں بھی نہیں
نگاہ و دل کی حقیقت بھی کھُل گئی ضامنؔ
کہ اِن سے بڑھ کے کوئی مارِ آستیں بھی نہیں
ضامن جعفری

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s