وہ گِرد و پیش سے تھے بے خَبَر سَنوَرتے ہُوئے
سو خُود کو آئینہ دیکھا کِیا نکھرتے ہُوئے
رَہِ حیات میں ہَم کو بھی کچھ رَہی عُجلَت
اُنہیں بھی دیر لگی بام سے اُتَرتے ہُوئے
ہَمیَں بھَلا کِسی دَیر و حَرَم سے کیا لینا
ہَم آگئے ہیں کِسی کو تَلاش کَرتے ہُوئے
یہ اَور بات کِسی نے سُنا نہیں لیکن
پُکارے سَب کو تھے ہَم ڈُوبتے اُبھَرتے ہُوئے
سوال پوچھتے رہ جائیں گے مسیحا سے
یہ میری ڈُوبتی نَبضیَں یہ خواب مَرتے ہُوئے
نہ جانے کیا غمِ دَوراں کو آ گیا ہے پَسَند
کہ جھانک لیتا ہے اَکثَر یُونہی گذرتے ہُوئے
ہر ایک دَرد ہَماری پَناہ میں آیا
کسی کو دیکھ نہ پائے ہم آہ بھرتے ہُوئے
میں ہاتھ پاؤں لگا مارنے سُوئے ساحل
غَضَب کا طنز تھا اَمواج میں بپھرتے ہُوئے
زباں کے زَخم ہیں ضامنؔ! سو اِتنی عُجلَت کیا
تمام عُمر ہے دَرکار اِن کو بھرتے ہُوئے
ضامن جعفری