رات سنسان آدمی نہ دیا
کس سے پوچھوں تری گلی کا پتا
شہر میں بے شمار رَستے ہیں
کیا خبر تو کدھر گیا ہو گا
آج کس رُو سیاہ آندھی نے
سبز تاروں کا کھیت لوٹ لیا
تھم گئے ریت کے رواں چشمے
سو گیا گیت ساربانوں کا
آ رہی ہے یہ کس کے پاؤں کی چاپ
پھیلتا جا رہا ہے سناٹا
یہ مرے ساتھ چل رہا ہے کون
کس نے مجھ کو ابھی پکارا تھا
سامنے گھورتی ہیں دو آنکھیں
اور پیچھے لگی ہے کوئی بلا
ڈُوبی جاتی ہیں وقت کی نبضیں
آ رہی ہے کوئی عجیب ندا
اک طرف بے اماں اجاڑ مکاں
اک طرف سلسلہ مزاروں کا
سرنگوں چھتریاں کھجوروں کی
بال کھولے کھڑی ہو جیسے قضا
یہ دِیا سا ہے کیا اندھیرے میں
ہو نہ ہو یہ مکان ہے تیرا
دل تو کہتا ہے در پہ دستک دوں
سوچتا ہوں کہ تو کہے گا کیا
جانے کیوں میں نے ہاتھ روک لیے
یہ مجھے کس خیال نے گھیرا
کسی بے نام وہم کی دیمک
چاٹنے آ گئی لہو میرا
دشتِ شب میں اُبھر کے ڈوب گئی
کسی ناگن کی ہولناک صدا
تیرے دیوار و در کے سایوں پر
مجھ کو ہوتا ہے سانپ کا دھوکا
بوٹا بوٹا ہے سانپ کی تصویر
پتا پتا ہے سانپ کا ٹیکا
آسماں جیسے سانپ کی کنڈلی
تارا تارا ہے سانپ کا منکا
آ رہی ہے لکیر سانپوں کی
ہر گلی پر ہے سانپ کا پہرا
سانپ ہی سانپ ہیں جدھر دیکھو
شہر تیرا تو گڑھ ہے سانپوں کا
تیرے گھر کی طرف سے میری طرف
بڑھتا آتا ہے ایک سایا سا
دھوپ سا رنگ برق سی رفتار
جسم شاخِ نبات سا پتلا
پھول سا پھن چراغ سی آنکھیں
یہ تو راجا ہے کوئی سانپوں کا
ہاں مری آستیں کا سانپ ہے یہ
کیوں نہ ہو مجھ کو جان سے پیارا
ایک ہی پل میں یوں ہوا غائب
جیسے پانی سے عکس بجلی کا
کٹ گئی پھر مرے خیال کی رَو
شیشہِ خواب کار ٹوٹ گیا
ناگہاں سیٹیاں سی بجنے لگیں
رات کا شہر پل میں جاگ اُٹھا
آنکھیں کھلنے لگیں دریچوں کی
سانس لینے لگی خموش فضا
میں تو چپ چاپ چل رہا تھا مگر
شہر والوں نے جانے کیا سمجھا
تیری بستی میں اتنی رات گئے
کون ہوتا بھلا یہ میرے سوا
ارے یہ میں ہوں تیرا شہر غریب
تو گلی میں تو آ کے دیکھ ذرا
سوچتا ہوں کھڑا اندھیرے میں
تو نے دروازہ کیوں نہیں کھولا
میرا ساتھی مرا شریکِ سفر
رہ گیا پچھلی رات کا تارا
کہاں لے آئی تو مجھے تقدیر
میں کہاں آ گیا ہوں میرے خدا
یہاں پھلتا نہیں کوئی آنسو
یہاں جلتا نہیں کسی کا دیا
تیرا کیا کام تھا یہاں ناصر
تو بھلا اس نگر میں کیوں آیا
(۱۹۵۴)