دیکھ محبت کا دستور
تو مجھ سے میں تجھ سے دُور
تنہا تنہا پھرتے ہیں
دل ویراں آنکھیں بے نور
دوست بچھڑتے جاتے ہیں
شوق لیے جاتا ہے دُور
ہم اپنا غم بھول گئے
آج کسے دیکھا مجبور
دل کی دھڑکن کہتی ہے
آج کوئی آئے گا ضرور
کوشش لازم ہے پیارے
آگے جو اُس کو منظور
سورج ڈوب چلا ناصر
اور ابھی منزل ہے دُور
ناصر کاظمی