آ گئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے

ہم کہ جو ہر ابر کو ابرِ کرم سمجھا کیے
آ گئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے
اُس نے اپنے منہ پہ انگلی رکھ کے آنکھیں بند کیں
میں نے کچھ کہنے کو اپنے ہونٹ جونہی وا کیے
روز لگ جاتے ہیں اُس کے صحن میں کاغذ کے ڈھیر
مستعد خط لکھنے والوں سے زیادہ ڈاکیے
ایک سورج کے لیے یہ کہکشاں در کہکشاں
اک زمیں کے واسطے سو آسماں پیدا کیے
خیر ہو چارہ گری کی میرے چارہ گر تجھے
مدتیں گزریں کسی بیمار کو اچھا کیے
باصر کاظمی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s