جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
لٹ جانے کے خدشوں سے دو چار ہوئے
جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے
شہرِ ستم میں حرص و ہوا کی سازش سے
کیا کیا اہلِ نظر، وقفِ دربار ہوئے
شاخ پہ کونپل بننے اور کھِل اٹھنے کے
کیا کیا سپنے آنکھوں کا آزار ہوئے
باغ میں جانے اور مہک لے آنے کے
بادِ صبا سے کیا کیا قول اقرار ہوئے
دریا میں منجدھار ہی دشمنِ جان نہ تھی
اور بھی کچھ دھاوے ہم پر اُس پار ہوئے
راہبری کا ماجد! قحط کہاں ایسا
جیسے اب ہیں، ہم کب یُوں نادار ہوئے
ماجد صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s