مرا سرِیر زمانے میں جب دو لخت نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
سیاہ زیرِ فلک اِس قدر بھی بخت نہ تھا
مرا سرِیر زمانے میں جب دو لخت نہ تھا
بہ اوجِ شاخ جُھلانے ہمیں بھی آتی تھی
وہ دن بھی تھے کہ روّیہ ہوا کا سخت نہ تھا
ہوئے شکار کسی کی حقیر خواہش کے
وگرنہ پاس کچھ ایسا گراں بھی رخت نہ تھا
یہ جانتا تھا فلک بھی کہ آشیاں کے سوا
چمن میں اپنے تصرّف میں کوئی تخت نہ تھا
اِسے یہ رنگ سلاخوں نے دے دیا ورنہ
چمن میں تو مرا لہجہ کبھی کرخت نہ تھا
گیا اجاڑ ہمیں اُس کا روٹھنا ماجدؔ
وہ شخص جو کہ بظاہر ہمارا بخت نہ تھا
ماجد صدیقی

تبصرہ کریں