احمد فراز ۔ غزل نمبر 122
گُل بھی گلشن میں کہاں غنچہ دہن تم جیسے
کوئی کس منہ سے کرے تم سے سُخن، تم جیسے
یہ میرا حُسنِ نظر ہے تو دکھا دے کوئی
قامت و گیسو و رُخسار و دہن تم جیسے
اب تو قاصد سے بھی ہر بات جھجک کر کہنا
لے گئے ہو میرا بے ساختہ پن تم جیسے
اب تو نایاب ہوئے دشمنِ دیرینہ تک
اب کہاں اے میرے یارانِ کہن، تم جیسے؟
کبھی ہم پر بھی ہو احسان کہ بنا دیتے ہو
اپنی آمد سے بیاباں کو چمن تم جیسے
کبھی ان لالہ قباؤں کو بھی دیکھا ہے فراز
پہنے پھرتے ہیں جو خوابوں کے کفن تم جیسے
احمد فراز
اسی زمین پر ڈاکٹر افتخار مغل نے بھی غزل کہی جسے کے دو شعر کچھ یوں ہیں 🙂
اب کہاں شہر میں وہ آئنہ تن تم جیسے
لے گئے باندھ کے سب روپ کا دھن تم جیسے
ہم میں قوت ہے بچھڑے جانے کی، ہم ہجر نصیب
ہار آئے ہیں کئی لعل و یمن تم جیسے!!
(ڈاکٹر افتخارؔ مغل)
پسند کریںپسند کریں