قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 121
نہ روکی برق تو نے آشیاں بدلے چمن بدلے
یہ کب کے لے رہا ہے ہم سے اے چرخِ کہن بدلے
محبت ہو تو جوئے شِیر کو اِک ضرب کافی ہے
کوئی پوچھے کہ تو نے کتنے تیشے کوہکن بدلے
سہولت اس سے بڑھ کر کارواں کو اور کیا ہو گی
نئی راہیں نکل آئیں پرانے راہزن بدلے
ہوا آخر نہ ہمر کوئی ان کے روئے روشن کا
تراشے گل بھی شمعوں کے چراغِ انجمن بدلے
لباس نَو عدم والوں کو یوں احباب دیتے ہیں
کہ اب ان کے قیامت تک نہ جائیں گے کفن بدلے
قمر مابینِ عرش و فرش لاکھو انقلاب آئے
مگر اپنا خدا بدلا نہ اپنے پنجتنؑ بدلے
قمر جلالوی