کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 108
مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی
مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
ترا جام خالی نہ ہو سکے مری چشمِ تر نہ بھر رہی
میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھ رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی
مجھے علم میں تیرے جمال کا نہ خبر ہے ترے جلال کی
یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی
میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا
مری جب بھی دربدری رہی مری اب بھی دربدری رہی
یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا
وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی
شبِ وعدہ جو نہ آسکے تو قمر کہوں گا چرخ سے
ترے تارے بھی گئے رائیگاں تری چاندنی بھی دھری رہی
قمر جلالوی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s