موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفّاک ہو گئے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 95
بارش ہُوئی تو پُھولوں کے تن چاک ہو گئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفّاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سُورج کی شہ پہ تِنکے بھی بے باک ہو گئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رُخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
سُورج دما غ لوگ بھی ابلاغِ فکر میں
زُلفِ شبِ فراق کے پیچاک ہو گئے
جب بھی غریبِ شہر سے کُچھ گفتگو ہُوئی
لہجے ہَوائے شام کے نمناک ہو گئے
پروین شاکر

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s