کہ جیسے یہ شہرِ بَلا ہی نہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 137
یہاں تو کوئی مَن چلا ہی نہیں
کہ جیسے یہ شہرِ بَلا ہی نہیں
ترے حسرتی کے ہے دل پر یہ داغ
کوئی اب ترا مبتلا ہی نہیں
ہوئی اُس گلی میں فضیحت بہت
مگر میں وہاں سے ٹَلا ہی نہیں
نِکل چل کبھی آپ سے جانِ جاں
ترے دل میں تو ولولہ ہی نہیں
دمِ آخر جو بچھڑے تو بس
پتا بھی کسی کا چَلا ہی نہیں
قیامت تھی اُس کے شکم کی شکن
کوئی بس مرا پھر چلا ہی نہیں
اُسے خون سے اپنے سینچا مگر
تمنا کا پودا پَھلا ہی نہیں
کہاں جا کے دنیا کو ڈالوں بَھلا
ادھر تو کوئی مزبلہ ہی نہیں
اک انبوہِ خونیں دلاں ہے مگر
کسی میں کوئی حوصلہ ہی نہیں
جون ایلیا

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s