جون ایلیا ۔ غزل نمبر 194
سوچا ہے کہ اب کارِ مسیحا نہ کریں گے
وہ خون بھی تھوکے گا تو پرواہ نہ کریں گے
اس بار وہ تلخی ہے کہ روٹھے بھی نہیں ہم
اب کہ وہ کر لیتی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
یاں اس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اس پر بھی یہ کمرا تہ و بالا نہ کریں گے
اب نغمہ طرازانِ برا فروختہ اے شہر!
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے
ایسا ہے کہ سینے میں سلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
جون ایلیا