نغمۂ کواکب

دائموس:

ناچ ناچ جھوم جھوم

گھوم گھوم گھوم گھوم

دیکھنا اِدھر ضرور اک نظر

ناچتا ہے نزد و دور بےخبر

دامنِ نگارِ نور تھام کر

کہکشاں کے موڑ پر فاصلوں کا اک ہجوم

ناچ ناچ گھوم گھوم

وسعتِ ابد پناہ اک ترنگ

عالمِ شبِ سیاہ اک امنگ

منزلیں، نشانِ راہ سحرِ رنگ

شعلہ شعلہ انگ انگ آگ آگ روم روم

گھوم گھوم گھوم گھوم

فیبوس:

دیے جلتے رہے، دیے جلتے رہے

گھُم گھُم امڈے دھوئیں کے دَل

جُگ جُگ پھیل گئے کاجل

دم دم، دھم دھم، گرے محل

مٹتی ہوئی صدیوں میں پَل

ڈھلتے رہے

دیے جلتے رہے!

کتنے زمانے، کتنے سپن

توڑ گئے اپنے درپن

نیر بہاتے رہے نینن

وقت کے جھکڑ گگن گگن

جلتے رہے

دیے جلتے رہے!

اندھیاروں کے زہر پیے

آنکھوں کو گل رنگ کیے

اَمر اجالے لو میں لیے

جیون کی منڈلی میں دیے

جلتے رہے

دیے جلتے رہے!

اُرناؤس:

بھنور بھنورمری نوکا

کوئی ساحل ہے نہ کنارا

اک پھیلتا بڑھتا دھارا

بہے نگر نگر مری نوکا، بھنور بھنور

ہر آن رُتوں کا میلہ

ہر سمت سمے کا ریلا

چلے گھمر گھمر مری نوکا، بھنور بھنور

بوجھ اتنے ہیں کڑیل جن کے

یہ دکھ سکھ، بہتے تنکے

گریں ابھر ابھر مری نوکا، بھنور بھنور

کہتی ہوئی من کی بانی

تقدیرِ جہاں کی رانی

پھرے سنور سنور مری نوکا، بھنور بھنور

پلوطو:

کتنی اندھیری رات ہے چمکو

چمکو

شام و سحر کی اوٹ سے ہر دم

پیہم

گھور رہے ہیں طوفاں ہم کو

چمکو!

دیکھو، تیرگیوں کے فتنے

کتنے

روند چلے عالم عالم کو

چمکو!

سُکھ میں سمو لو اک اک پل کو

جھلکو!

من میں بجھا لو شعلۂ غم کو

چمکو!

آتے ہوئے قرنوں کا تبسم

ہم تم

جگمگ دمکو، جھم جھم جھمکو

چمکو

کتنی اندھیری رات ہے چمکو

چمکو

کرۂ ارض:

نہ عکسِ خاک کہیں اور نہ رقصِ نور کہیں

نہ کوئی وادیِ ایمن نہ شمعِ طور کہیں

بچھی ہے راکھ میں غلطاں مئے طہور کہیں

پڑا ہے شیشۂ افلاک چور چور کہیں

پَلوں کے جھنڈ میں لرزے ابد کی پینگ کوئی

نظر کے سامنے، حدِ نظر سے دور کہیں

مقدروں کے جہاں در جہاں اندھیروں میں

بھٹک نہ جائے مرا شوقِ ناصبور کہیں

یہ اضطرابِ مسلسل کی خوں چکاں گھڑیاں

ہے ان سے بڑھ کے کوئی دولتِ سرور کہیں

اگر ہمیں بھری دنیا میں مسکرا نہ سکے

تو ڈول جائیں گے یہ سلسلے ضرور کہیں

شہرِ در شہر منادی ہے کہ ’’اے خندہ فروشانِ حیات!

ہر بجھی روح کے آنگن میں کھلا ہے چمنِ امکانات

نہ کوئی سلطنتِ غم ہے نہ اقلیمِ طرب

زندگی ہی فقط آئینِ جہاں بانی ہے!

جانے کس تیرہ افق سے یہ گھٹاؤں کے تھرکتے سائے

ماہتابوں کے چمکتے ہوئے سینوں سے نتھر کر آئے

ساتھ لے کر وہ خنک موج، خماریں جھونکے

جن کی زد میں مری تپتی ہوئی پیشانی ہے

اپنے سینے میں جگا کر انہی دردوں، انہی یادوں کے فسوں

پھر تمناؤں کے تصویر کدے میں نگراں بیٹھا ہوں

سامنے صفحۂ صد رنگِ رموزِ کونین

کانپتی انگلیوں میں موقلمِ مانی ہے!

مجید امجد

تبصرہ کریں