ہم نے ہر فکر کو فردا پہ اُٹھا رکھا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 323
ابھی کھلنے کے لیے بند قبا رکھا ہے
ہم نے ہر فکر کو فردا پہ اُٹھا رکھا ہے
کیا چھپاؤں مرے مہتاب کہ تیرے آگے
دل کف دست کے مانند کھلا رکھا ہے
ہے مری خاک بدن آئینہ گر تیرا کمال
تونے کس چیز کو آئینہ بنا رکھا ہے
کیسی آنکھیں ہیں کہ دریاؤں کو پہچانتی ہیں
کیسا دل ہے کہ سرابوں سے لگا رکھا ہے
ایک ہی رنگ ہے، تیرے لب و رخسار کا رنگ
اور میرے ورق سادہ میں کیا رکھا ہے
MERGED ابھی کھلنے کے لیے بندِ قبا رکھا ہے
ہم نے ہر کام کو فردا پہ اٹھا رکھا ہے
کیا چھپاؤں مرے دلدار کہ تیرے آگے
دل کفِ دست کے مانند کھلا رکھا ہے
ہے مری خاکِ بدن آئینہ گر تیرا کمال
تو نے کس چیز کو آئینہ بنا رکھا ہے
ہم تعارف ہی سے دیوانے ہوئے جاتے ہیں
اور ابھی مرحلۂ کارِ وفا رکھا ہے
ایک ہی رنگ ترے اسم دل آویز کا رنگ
اور میرے ورقِ سادہ میں کیا رکھا ہے
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں