عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 303
غزل تو خیر ہر اہلِ سخن کا جادُو ہے
مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادوں ہے
کبھی شراب، کبھی انگبیں، کبھی زہراب
وصال کیا ہے کسی کے بدن کا جادُو ہے
وہ بستیوں میں یہ اَنداز بھول جائے گا
ہرن کی شوخئ رَفتار بن کا جادُو ہے
بجھیں چراغ تو اس رنگِ رُخ کا راز کھلے
یہ روشنی تو تری اَنجمن کا جادُو ہے
سبک نہ تھا ترا بازوئے تیغ زَن اتنا
ترے ہنر میں مرے بانکپن کا جادُو ہے
مرے خیال میں خوُشبو کے پنکھ کھلنے لگے
ہوائے دَشت کسی خیمہ زَن کا جادُو ہے
عرفان صدیقی