عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 203
غزل کسی کے نام انتساب کے لیے نہیں
یہ خط ضرور ہے مگر جواب کے لیے نہیں
اب اس زمیں پہ شہ سوار لوٹ کر نہ آئیں گے
سو یہ سفر غبارِ ہم رکاب کے لیے نہیں
یہ ساعتِ وصال کس جتن سے ہاتھ آئی ہے
متاعِ دست برد ہے حساب کے لیے نہیں
نکل رہی ہیں طاق و در سے سایہ سایہ صورتیں
سنو! یہ بام سیرِ ماہتاب کے لیے نہیں
میں کیا بتاؤں جاگتا ہوں رات رات کس لیے
نہیں، کسی کی چشمِ نیم خواب کے لیے نہیں
تو اور کوئی راز ہے مرے سخن کا‘ صاحبو!
کہ یہ عذاب جاں فقط ثواب کے لیے نہیں
عرفان صدیقی