عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 63
کچھ حرف و سخن پہلے تو اخبار میں آیا
پھر عشق مرا کوچہ و بازار میں آیا
اب آخرِ شب درد کا بھٹکا ہوا رہوار
آیا بھی تو شہرِ لب و رُخسار میں آیا
کیا نقش ہوا دل کے اندھیرے میں نمودار
کیا روزنِ روشن مری دیوار میں آیا
حیراں ہوں کہ پھر اس نے نہ کی صبر کی تاکید
بازو جو مرا بازوئے دلدار میں آیا
یہ آئنہ گفتار کوئی اور ہے مجھ میں
سوچا بھی نہ تھا میں نے جو اظہار میں آیا
حاصل نہ ہوا مجھ کو وہ مہتاب تو معبود
کیا فرق ترے ثابت و سیار میں آیا
عرفان صدیقی