منصور آفاق ۔ غزل نمبر 135
شاید وہ مانگتی ہے ملن کے نئے سبب
کیسے وہ پھر رہی ہے جدا مجھ سے بے سبب
کچھ اس کے کار ہائے نمایاں بھی کم نہیں
دل نے بھی کچھ بگاڑے ہیں بنتے ہوئے سبب
روشن ہے میرے صحن میں امید کا درخت
پچھلی گلی میں جلتے ہوئے بلب کے سبب
دیکھی کبھی نہیں تھیں یہ گلیاں بہار کی
جب چل پڑا تو راہ میں بنتے گئے سبب
کیا کیا نکالتی ہو بہانے لڑائی کے
آنسو کبھی سبب تو کبھی قہقہے سبب
منصور اتفاق سے ملتی ہیں منزلیں
بے رہروی کبھی تو کبھی راستے سبب
منصور آفاق