مہکے ہوئے بدن کے ذرا حاشیے بھی دیکھ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 411
قوسِ قزح کے لکھے ہوئے تبصرے بھی دیکھ
مہکے ہوئے بدن کے ذرا حاشیے بھی دیکھ
رنگوں بھرے لباس کی مہکار پر نہ جا
میرے خیال و خواب کے ویراں کدے بھی دیکھ
تْو نے گرا دیا تھا فلک سے تو اب مجھے
بادِ صبا کے رنگ پہ چلتے ہوئے بھی دیکھ
دونوں طرف وجود ترا ہی کہیں نہ ہو
گردن ذرا گھما کے تُو کُن کے سرے بھی دیکھ
بے شک گلے لگا کے سمندر کو، رو مگر
ساحل کے پاس بنتے ہوئے بلبلے بھی دیکھ
ہر چند تارکول ہے پگھلی ہوئی تمام
میں بھی تو چل رہا ہوں سڑک پر، مجھے بھی دیکھ
سورج مرے قدم ہیں ستارے ہیں میری گرد
تسخیر کائنات کے یہ مرحلے بھی دیکھ
اک دلنواز خواب کی آمد کے آس پاس
آنکھوں میں جھلملاتے ہوئے قمقمے بھی دیکھ
کھینچی ہیں تم نے صرف لکیریں ہوا کے بیچ
بنتے ہوئے خطوط کے یہ زاویے بھی دیکھ
میں جل رہا ہوں تیز ہواؤں کے سامنے
اے شہرِ شب نژاد مرے حوصلے بھی دیکھ
منصور آفاق

تبصرہ کریں