صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 246
غم کی طویل رات کا اک انتباہ دھوپ
صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ
احمق ہے جانتی ہی نہیں میری برف کو
جم جائے آپ ہی نہ کہیں بادشاہ دھوپ
میں چل رہا ہوں تیری تمنا کے دشت میں
میرے رفیق آبلے، میری گواہ دھوپ
پردے ابھی نہ کھینچ مری کھڑکیوں کے دوست
مجھ سے بڑھا رہی ہے ذرا رسم و راہ دھوپ
برطانیہ کی برف میں کتنی یتیم ہے
صحرائے تھل میں جو تھی بڑی کج کلاہ دھوپ
جھلسا دیا دماغ بھی چہروں کے ساتھ ساتھ
مشرق کے المیے میں نہیں بے گناہ دھوپ
منصور اپنی چھت سے رہو ہمکلام بس
تنہائیوں کی شہر میں ہے بے پناہ دھوپ
منصور آفاق

تبصرہ کریں