منصور آفاق ۔ غزل نمبر 554
کچھ خبر بھی ہے تجھے آنکھ چرانے والے
کس لیے روٹھ گئے ہم سے زمانے والے
ہم نے خوابوں کے دریچوں سے یونہی جھانکا تھا
تم تھے فنکار فقط گیت سنانے والے
روٹھنے والے ہمیں اب تو اجازت دے دے
اور مل جائیں گے تجھ کو تو منانے والے
بجھ گئے درد کی پلکوں پہ سسکتے دیپک
ہو گئی دیر بہت دیر سے آنے والے
ہم تو ہاتھوں کی لکیروں کو بھی پڑھ لیتے ہیں
یہ تجھے علم نہ تھا ہاتھ ملانے والے
راس آئے نہیں منصور کو پھر دار و رسن
تم جو زندہ تھے ہمیں چھوڑ کے جانے والے
منصور آفاق