منصور آفاق ۔ غزل نمبر 619
میں خود پہلو میں ہوں اپنے بدن اپنا مکمل ہے
اسے کہنا بغیر اس کے مری دنیا مکمل ہے
گلی کی برف پر کھنچیں لکیریں بے خیالی میں
ادھورے نقش ہیں کچھ کچھ مگر چہرہ مکمل ہے
مجھے روکا ہوا ہے جسم کی دہلیز پر اس نے
ادھوری ہے وفا اپنی، تعلق نامکمل ہے
لکیر اپنے لہو کی ہے ابھی اِن دونوں ٹکڑوں میں
خزانے تک پہنچنے کا کہاں نقشہ مکمل ہے
مجھے شہر نگاراں سے نئے کچھ زخم لینے ہیں
وہ جو دل میں رفو کا کام نکلا تھا مکمل ہے
بلا کا خوبصورت ہے کوئی اُس بالکونی میں
ہے بے مفہوم سا مکھڑا مگر کتنا مکمل ہے
محبت کا سفر بھی کیا کرشمہ ساز ہے منصور
ادھر منزل نہیں آئی ادھر رستہ مکمل ہے
منصور آفاق