کیسی صورت ہے یہ سفر کی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 166
منزل کی خبر نہ رہگزر کی
کیسی صورت ہے یہ سفر کی
بوجھل پلکیں، اداس نظریں
فریاد ہے میری چشم تر کی
اندر سے ٹوٹتے رہے ہیں
باہر سے زندگی بسر کی
دل کے قصّے میں کیا رکھا ہے
باتیں ہیں کچھ ادھر ادھر کی
میں رات اداس ہو گیا تھا
اتنی تھی روشنی قمر کی
کچھ ہم میں نہیں بیاں کی طاقت
کچھ وقت نے بات مختصر کی
اندر کچھ اور داستاں ہے
سرخی کچھ اور ہے خبر کی
باقی صدیقی

کیسی صورت ہے یہ سفر کی” پر 1 تبصرہ

  1. باقی صدیقی صاحب کے اک شعر سے منسلک غزل کی تلاش ہے.براہ مہربانئ رہنمائی فرمائیے.
    اپنی مرضی کے لوگ ہیں باقی
    کون الجھے پری جمالوں سے

    پسند کریں

Leave a reply to غلام نبی جواب منسوخ کریں