بِناّتُ النعش ارضی و سماوی کے درمیان

اب ذرا پھر چلئے۔آپ کو وہاں لے چلیں جہاں ہماری ملازمت کے ہر دن کے اٹھارہ گھنٹے گزرا کرتے تھے، ہماری مراد یقینا اپنے غریب خانے سے ہے۔ لیکن یہ ذکر اس بالا خانے کا نہیں جو ہمارے حلقۂ اورادِ شعری میںآچکا تھا بلکہ ایک اور چوبارے کا ہے جو نسلاً اس چوبارے کا برادرِبزرگ بھی تھا کہ اور ماحول کے اعتبار سے خاصا بوقلمون بھی اس لئے کہ اس کی آغوش میں صبح مسانت نئے مناظر کسی بد قسمت ملک کی روز دہاڑے کی سیاسی تبدیلیوں کی طرح ہر آن بنتے بگڑتے رہتے تھے بلکہ بقول استاد پّراُن مناظر کا خلاصہ شورش کاشمیری کی کسی کتاب کے سرنامے سے جا ملتا تھا ہمیں استاد پّرسے تو اتفاق نہ تھا کہ حضرت تیسری بیوی کا قُل کرا کے اب چوتھی بار اپنے ہاتھ پیلے کرانے کے درپیتھے تاہم اس چوبارے کیایک سمت ایسی تھی جہاں کی صورتحال لی وکالت کرتے ہمیں آج بھی ایک طرح کا خوف محسوسہوتا ہے اور وہ سمت وہ تھی جہاں ہر پل چلتے ہنڈولے کے جھولوں جیسا منظر سامنے رہتا یہ الگ بات تھی کہ یہ سین گلوب کے اس حصے کی عکاسی کرتیتھے، جو سورج سے پردہ کئے ہوتا ہے اور وہ گل بوٹے جن کے حسن لا ابال سے یہ سین مرتب ہوتے تھیایک ایسیباپ کی دخترانِ نیک اختر تھیں جو اپنے باپ کی اولادِ نرینہ کی آرزو جستجوئے بے پایاں میں ایک فطری تسلسل سے آتی تو رہی تھیں لیکن اب کہیں جانیکی راہ نہیں پارہی تھیں۔ شنید یہ تھی کہ ان کے آبا حضور اولاد نرینہ سے مستقل محرومی کے باعث اس قدر سنکی ہو گئے تھے کہ اپنی یہ متاع کسی اور خوش نصیب کی اولادِ نرینہ کے حوالیکرنے سے الرجک تھے اور یہ الرجی ایسی تھی جس کا علاج شاید

گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پٹیا کر

خاندانی منصوبہ بندی والوں کے پاس بھی نہیں تھا اور اگر نہیں تھی تو ہم ’’تریاکلوں‘‘ کو اس سے غرض بھی کیا ہم تو اس صورتحال کے محض ایک خارجی شاہد تھیکہ ان بنات النعش ارضی میں سے ایک نہ ایک ہر لحظہ مکان کی بالائی فصیل پر حاضر و ناظر رہتی اور کھلے آسمان اور جیتی جاگتی راہوں کے جائزے پر مامور اس وقت تک مندر کی مورتی بنی اپنی جگہ سے نہ ہلتی جب تک دوسریوں کے جی میں یہی ولولہ پیدا نہ ہوتا اورجب دوسری آچکتی تو پہلی اس کیاسی جذبہ کی تسکین کے احترام میں مسجد کے غسل خانے کی طرح اپنی جگہ خالی کر دیتی لیکن مناظر کی یہ زنجیر کبھی ٹوٹنے نہ پاتی کہمذکورہ بنات النعش ارضی تعّدد کے اعتبار سے دوچار نہیں بلکہ پوری سات تھیں، اور یوں سمجھئے کہ ساری کی ساری کنگ سائز بھی، کنگ سائز اس مفہوم میں کہ خیر سے سبھی کی سبھی بالغ النظر تھیں یا نہیں بالغ البدن ضرور تھیں اور صورت حال یہ تھی کہ ان کی وید سے کسی دل کو دھڑکا یا آنکھ کو پھڑکا لگتا نہ لگتا ان کے چہرے ہائے از کار رفتہ کے عکس سے ضیائے مہر و ماہ کو گہن لگ جانے کا کھٹکا ان کے ہر ناگہانی ناظر کو ضرور لگا رہتا۔

ہمارے چوبارے کی ایک سمت اور بھی تھی جہاں سے باہر کے گاہ گاہ کے کچھ مناظر دیدہ و دل پر از خود ہی کھلنے لگتے ان مناظر کا کینوس ایک اور بالائی مکانن تھا۔ جس میں ہم جیسے تو نہیں البتہ باہر ہی کے کچھ لوگ آباد تھے جو کم از کم ہمارے وہاں پہنچنے سے پہلے کے مقیم تھے ان کے کرائے کا مکان بھی ایک فصیل رکھتاتھا جسکے کنارے لبان مونالینزا کی طرح کچھزیادہہی آباد رہتے۔ ہمیں اس امر کا احساس ہونے میں کچھ مہینے لگے۔ اس لئے کہہم ٹلّے کے جوگی نہ تھے، استاد تھے اور اپنی حدودکو اچّھی طرح پہچانتے تھے لیکن جب کبھی ہمیں دوھپ تانپے یا تازہ ہوا کھانے کا شوق چراتا اور اس غرض کو صحن میں کسی کھری چارپائی پہ دراز ہوتے تو……

کچھ توہے جس سے ہوئی جاتی ہے چلمن رنگیں،

…… پس فصیل کچھ پرچھائیاں سی حرکت کناں نظر آتیں، اور یوں ہوتا کہ یکایک چوڑیاں چھنکاتا کوئی دست سمیں فصیل کے ادھر سے اٹھتا اور لمحوں تک کے لئے ایک ہی جگہ ہوا میں ساکت ہو جاتا نم آلودہ اندھیرے کی بوچھاڑ جیسی کافر زلفیں فوارہ نما دائروں میں لہراتی دکھائی دیتیں۔ کبھی ممٹی کی زنجیر کے ساتھ لٹکتا ہوا کوئی گلدستہ نظر میں اتا اور کبھی کوئی رومال کسی باغی موج کی طرح اپنا سر اٹھاتا اور غائب ہو جاتا۔ گویا علم معاشقہکی لغت ہمارے سامنے ورق ورق بکھرتی رہتی لیکن ہم کہ جذبات ناپختہ کی کھیتیتھے۔ ان آداب کی نوعیت سے یکسر نابلد رہے مگر جب ان خوش ادائیوں میں مہینوں کا تواتر پیدا ہونے لگا تو اس جانب اٹھنے والی نگاہیں؎

وہ کھینچتی ہے جسے پینگ پر بزورِ شباب

نگاہ چپکی اسی نصف دائرے پر ہے

کسی دائرے سے تو نہیں فصیل کے ساتھ کچھ کچھ ضرور چپکنے لگیں تب ہمیں احساسہوا کہ ہمارے اندر بھی کسینامعلوم توڑ پھوڑنے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ جدید ادب میں توڑ پھوڑ کی بحث ذرا بعد میں چلی ورنہ شاید اس طرحکی دو چار گرما گرم دساوری و نیم دساوری بحثوں میں شرکت کے بعد اس عارضے کا قلع قمع از خود ہی ہو جاتا لیکن جس مشکل کا ہمیں سامنا تھا۔ اس سے بچاؤ کی ہمارے پاس دو ہی تدبیریں تھیں ایک تو یہ کہ ہم اپنا مکان بدل لیتے اور اپنی استادانہ عظمت و آبروکو کسی ناگہانی ریزش سے بچا لیتے اور دوسری یہ کہ چوبارے میں مفرور ملزموں کی طرح راتوں رات آیا کرتے اور گجردم رخصت ہو جایا کرتے، لیکن فساد یہ تھا کہ ان دونوں شریفانہ راکیب عافیت پر عمل پیرا ہونا بالفعل ممکن نہ تھا اس میں شاید ہمارے کسی اندر کے فتور کا بھی دخل ہو گا لیکن بظاہرہم نے اس عاجزی کا سارا الزام حالات کی ناسازگاری کے سر تھوپ رکھا تھا یعنی کہ؎

دام ھوڑے ہیں تو ہر نعمت سے کیجئے احتراز

دھوپ سے محروم گھر ہی میں گزارا کیجئے

چنانچہ وضع احتیاط ہی وہ واحد راستہ دکھائی دیا جس پر رواروی میں ہم چل تو دئیے لیکن کچھ دنوں کی مسافت کے بعد ہمارا تو جیسے دم تک گھٹنیلگا اور ادھر اشارات وکنایات کی وہ فراوانی کہ اگر پیغام رسانی کو کبوتروں کی دستیابی ممکنہوتی تو ہمارا چوبارہ صبح و شام ناصر کاظمی کا چوبارہ بنا رہتا اور جب یہ سارا کچھ نہ ہوا تو ہوا یہ کہ ہمارے چوبارے کا صحن غیر مری ابابیلوں کی جائے یلغار بن گیا۔ ہماری وہاں موجودگی کے دوران میں وقفوں وقفوں کے بعد کنکریاں چھاپہ ماروں کے گولوں کی طرح چٹاک پٹاک ہمارے سامنے آ آکے گرتیں اور ہماری تمام تر احتیاط کا شیشہ چکنا چور کر دیتیں اور جب نگاہ اٹھتی تو وہی اٹھکیلیاں کرتے مناظر؎

اُس در سے سبہے گا تری رفتار کا سیماب

اِس کنج سے پھوٹے گی کرن رنگ حنا کی

سلسلہ در سلسلہ مرتب ہونے لگتے۔ ہمیں اپنے یُوسفِ ثانی ہونے کا واﷲ کوئی وہم نہ تھا لیکن صُورتِ حال ہی کچھ ایسی تھی جیسے ہمیں آئینے میں ہر روز جو چہرہ نظر آتا تھا وہ، وہ نہیں تھا جو باہر والوں…… کم سے کم فصیل سے ادھر کے مکینوں کو دکھائی دیتا تھا۔

ہم نے اس نازک مرحلے پراپنے ساتھی کو بھی یہ احساس دلایا کہ ہو نہ ہو اس ساری جنّاتی کارروائی کا رُخ ان ہی کی جانب ہے جس کا ٹکا سا جواب انہوں نے یہ دیا اور بڑا معقول دیا کہ وہ تو جب بھی جائے سکونت پر آتے ہ۹یں چمگادڑں کے سائے ہی میں آتے ہیں۔ دنکے دوران میں انہیں اپنے ڈیرے پر آتیان کے کراماًکاتبین نے دیکھا ہو تو دیکھا ہو۔ کسی اور نے نہیں دیکھا لہذا اس جن کا تعلق بہرحال ہماری ذات باصفات ہی سے ہونا چاہئے تھا جس کے لئے قبل اس سے کہ ہم کوئی تعویذ دھاگہ تلاش کرتے۔ کنکریوں کی چاند ماری کا انداز از خود ہی تعویذ دھاے کی صورت اختیار کرنے لگا۔

تُجھ دہن کا کلام وہ بُوجھے

حق نے بخشا ہے جس کو فکرِ عمیق

کہ اب تو ہر روز ایک آدھ کنکری رجسٹرڈ پارسل کی طرح کاغذوں میں ملبوس صورت میں بھی آنیلگی۔ جسے کھول کر دیکھنا ہم پہ فرض نہیں تو واجب ضرور ہو جاتا اور جب یہ ملفوف کھلتے تو صفحہ قرطاس پہ حروف کی حدت، جذبات کی شدت اور نامعلوم لمس کی خوشبو سے ہماری ساری کی ساری خوابیدہ حسین مدفون سرنگوں کیطرح ایک ایک کر کے بیدار ہونے لگتیں، تب ہم پرکھُلا کہ حضرت میر نے یہ کہہ کر محض نخرہ ہی کیا تھا۔

پھرتے ہیں میرؔ خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

میر کی عاشقی اگر محض عاشقی تھی، پھر تو یہ بات کچھ قرینِ قیاس ہے لیکن اگر اس عاشقی کے پس منظر میں کسی کو ان کی شاعری بھی نظر پڑتی تھی پھر گفتہ میر محض پروپیگنڈا ہے۔ اس لئے کہکنکریوں کے وسیلے سے ہم تک پہنچنے والی تحریروں سے ہم پر اپنی وہی خوبی یا خرابی کھلی جو میر صاحب میں عاشقی کے علاوہ پائی جاتی تھی یعنی فصیل سے ادھر بسنے والی نوخیز و مضطرب دوشیزہ کو ہم سے زیادہ ہمارے شعر سے دلچسپی تھی جو بے چارہ خود ابھی عالم شیر خوارگی میں تھا بہرحال اپنے صحن میں لگائے گئے کسی پودے کا پہلا ثمر اور وہ بھی بہرلحاظ کچّا کون کسی خودنما کو توڑنے دیتا ہے چاہے وہ خود نما زلیخا ہی کیوں نہ ہو۔

تُوں کُڑی ایں لکھ کروڑ دی

جے میں سولی چڑھان تیرے نام تے

تے توں ہس کے کولوں دی لنگھ جائیں۔

چنانچہ ہم نے بھی اپنے آپ پر یُوسف ثانی ہونے کے گمان کو یقین میں بدلتے ہوئے وہی راہ اختیار کی جو ایسے موقعوں پر ہر یُوسف اختیار کرتا ہے اور اپنے کھاتے میں فرار کی بدنامی لکھواتے اس چوبارے سے کوچ کر آئے گویا آسمان سے زمین پر آگئے۔

پس خوشبو بھی مرگِ گُل کا منظر دیکھتے ہیں ہم

بہت مہنگا پڑا ماجدؔ ہمیں صاحبِ نظر ہونا

ماجد صدیقی

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

ہمارے ہمزبان رفیقِ کار یعنی دوسرے انگریزی ماسٹر ہمارے علاوہ وہ دوسرا ستون تھے جن کے دم سے انگریزی زبان کے مستقبل کی عمارت سکول میں قائم تھی، تعلیم ہم دونوں کی ہم وزن ہی تھی کہ وہ بھی ایف اے پاس تھے اور ہم بھی۔ لیکن تفاوت ہم دونوں میں یہ تھی کہ وہ زبان کے چٹک چٹک، چال ڈھال میں سیماب صفت اور بود باش میں فرد تھے کہ تنہا باشی کے کرانک مریض تھے جبکہ ہماری زبان کا سارا زورِلِخت پَڑھت پر ہی صرف ہو جایا کرتا تھا، چال ڈھال میں انکساری ہم نے تقاضائے گردو پیش کے تحت اختیار کر رکھی تھی۔ اور بودوباش کا احوال آپ پہلے ہی جان چکے ہیں۔ کہ کسی ذی روح کے ساتھ رہنا ہمیں بالطبع پسند تھا۔ اور یہ طبعی تفاوت اگرچہ ہمارا نجی معاملہ تھا جسے ہمارے حالاتِ ملازمت پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر ہوایوں کہ ہم دونوں میں کبھی ایکا نہ ہو سکا۔ جو کسی بھی اقلیتی گروپ کا خاصا ہوتا ہے۔ اور اکثریتی گروپ کو ہمیشہ کَھلتا ہے۔

نئے ہیڈ ماسٹر صاحب کی آمد پر جہاں اور بہت سارے کرشمے جنم لینے لگے وہاں ایک عجوبہ یہ بھی ہوا کہ ہم اور ہماری نوعّیت کے دوسرے واحد رفیقِکار ایک مقام پر اچانک باہم شیر وشکر ہو گئے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب ہم سے تو بدگمان تھے ہی (کہ حصولِ اجازتِ امتحان کے سلسلے میں فریقین کے دلوں میں بہت سارے وسوسے جاگزیں ہو گئے تھے) وہ ہمارے جڑواں رفیقِ کار کو بھی کبیدہ خاطر کر بیٹھے۔ جس کا فوری اثر یہ ہوا کہ انہوں نے بھی سکول میں ہماری موجودگی کا اعتراف از خود ہی کر لیا۔

سالانہ امتحا نات قریب تھے اور ہمارے رفیقِ ثانی کہ ایک عرصے سے ہیڈ ماسٹر کی ’’ گُڈ بُکس ‘‘ میں چلے آ رہے تھے اور تازہ تازہ ’’بَیڈبُبکس‘‘ میں آئے تھے، راز ہائے درونِ خانہ سے خاصے آگاہ تھے۔ ایک دن ہمارے پاس لال بھبھوکا ہو کر آئے تو پنجابی فلمی بڑھک کے انداز میں کہنے لگے۔

’’یار ماجد ! اس ہیدڈماسٹر نے اپنے آپ کو سمجھ کیا رکھا ہے ؟‘‘

ہم نے بکمال متانت عرض کیا۔ ’’ہیڈ ماسٹر‘‘ جس پر وہ اور بھی سیخ پا ہوئے اورسرگوشی کے انداز میں کہنے لگے ۔’’تمہیں معلوم ہے کہ اِس نے چھٹی اور ساتویں کے پرچے کہاں سے مرتب کرائے ہیں۔‘‘ہم نے کہا ’’آپ سے … ‘‘تو وہ سپند وار اُچھلے اور کسی قدر رازداری کے ساتھ ہم پہ انکشاف یہ کیا کہ پرچے کسی باہر کے آدمی سے مرتب کرائے گئے ہیں، ہم نے اس صریح دھاندلی کا سبب پوچھا تو کہنے لگے ’’ یہ کام اب آپ کا ہے کہ اس بد گمانی کا مزہ اسے چکھاؤ۔ میرا تعاون آپ کے ساتھ ہے۔ ‘‘ ہم نے پہلے تو ان کا غصہ فرو کرنے کی بہتیری کوشش کی اس لئے کہ ہم دونوں افراد محکمے کے فرزند تو تھے مگر تھے دونوں کے دونوں سوتیلے کہ عارضی ملازمت کا ٹیکہ ہمارے ماتھوں پہ ابتدائے ملازمت ہی سے چسپاں تھا اور محکمے کو یہ اختیارکُلی طور پر حاصل تھا کہ وہ جب چاہتا ہمارے جوتے الٹا دیتا اور ہمیں اپنی فرمانروائی کی سرحدوں سے دیس نکالا دے دیتا۔ علاوہ ازیں کسی پنشن یافتہ شخص سے بھی (بشرطیکہ وہ حضرتِ غالب نہ ہوتے ) قواعدِ ملازمت کا خلاصہ پوچھا جاتا تو متوقع جواب یہی ہو سکتا تھا کہ دورانِ ملازمت سربراہِ ادارہ سے اختلاف ہو جانا اوربات ہوتی ہے۔ لیکن اس اختلاف کو بنیاد بنا کر اس کے مدّمقابل آ جانا صریحاً ذہنی عدم بلوغت کا فتور ہوا کرتا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ہمیں ان دنوں خدا جانے اتنی دانائی کہاں سے میسر آ گئی تھی کہ عالمِ نوعمری کے باوصف ہم نے قدرے تحمل سے کام لیا اور بسلامتی فکر ایک ایسی راہ نکالی جو بہت بعد کے کامیاب سیاسی حلقوں کے منشور کے عین مطابق نکلی۔

ہیڈ ماسٹر موصوف کے عدم التفات سے ہمیں اپنے مستقبل کی گاڑی پھنستی ضرور نظر آئی لیکن نہ اس قدر کہ ’’ انو کی‘‘ کی طرح ہم بہ نیّتِرُسوائی محمد علی کلے کو سرِ عام زِچ کرنے پر تُل جاتے اور معاملہ اُن سے الٹی سیدھی ٹکر لینے تک پہنچ جاتا ۔ تاہم جب اپنے رفیقِ ثانی کا اصرار اور ہمارا انکار کسی خاص مقام پر آن کے بے تفاوت ہو گیا تو طے یہ پایا مگر طے کیا پانا تھا۔

کیاِپِدّی اور کیاپِدّی کا شوربا

ہوا یہ کہ جب سکول کا سالانہ امتحان شروع ہوا اور دن انگریزی کے پرچے کا آیا تو ہم دونوں کی مشکل حل ہوتی دکھائی دی جسے محض انتقامی جذبے ہی کی نہیں بلکہ کسی قدر طفلانہ شرارت کی پشت پناہی بھی حاصل تھی۔

لڑکوں میں باہر سے برآمد شدہ پرچہ بٹ چکا تو ہماری آنکھیں چار ہوئیں اور اس کارروائی کا وقت آن پہنچا جسے ہم نے باہمی اشتراک سے مرتب کیا تھا۔ امتحان میں شریک پہلا طالب علم جسے پرچہ ٔسوالات میں سے کوئی وضاحت مطلوب تھی، جب اُس انگریزی ماسٹر کے قریب گیا تو اُس نے اُسے اِس انگریزی ماسٹر کے پاس یعنی ہماری جانب روانہ کر دیا جسے ہم نے آن پاکستان سٹیٹ سروس بنام ہیڈ ماسٹر ری ڈائریکٹ کر دیا۔

یہ بارش کا پہلا قطرہ تھا اور ساری مشکل اسی کے گرنے تک محدود تھی۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کہ انگریزی میں قطعی صاف باطن تھے۔ ہماری اس دیدہ دلیری سے جیسے پُھنک کر رہ گئے جس کے بعد موصوف نے وہی کُچھ کیا جوہر زیرک سربراہِادارہ کا خاصا ہوتا ہے اور مذکورہ بارش کے قطروں کی پیہم بو چھاڑسے بو کھلا کر اپنا سرکاری چھاتہ یعنی آرڈر بک منگوائی اور اس پر جو کُچھ لکھا اسکا مفہوم قطعی سلیس اُردو میں یہ تھا۔ (اس لئے کہ ان کی اپنی اُردو بُہت فاضلانہ تھی ) کہ پرچوں کی مارکنگ جملہ تقاضہ ہائے دیانت داری کو بروئے کار لاتے ہوئے کی جائے ورنہ اس پابندی سے منحرف ہونے والے کا حشر وہی ہو گا جو استادِ شاہ کے حق میں ارتکابِ گستاخی پر غالب کے بارے میں تصوّر کیا جاتا ہے۔

ہم نے آرڈر مذکورہ پر اطلاع یابی کے دستخط ثبت کئے تو اندر سے اور بھی کھلکھلا اٹھے کہ پانی پت کا یہ میدان اب سراسر ہمارے ہاتھوں میں تھا۔ اور یوں تھا کہ بہ اشتراکِ رفیقِ ثانی ہم نے پرچوں کے نمبر کچھ زیادہ ہی دیانت داری سے لگا ڈالے جس کے متحمل اس ادارے کے طلبا تو کیا اساتذہ بھی شاید ہی ہو سکتے تھے ۔ کہ یہ مارکنگ اگر درست تسلیم کر لی جاتی (جو بہرحال درست تو تھی ہی ) تو نتیجہ امتحان نقطۂ انجماد سے بس کچھ ہی درجے اوپر رہ جاتا اورانگریزی کہ زبانِ مقدّسہ تھی اور لازمی مضمون کے طور پر عارضی اساتذہ کی زبانی پڑھائی جاتی تھی۔ سکول بھر کے نتیجے کو ساتھ لے ڈوبنے پر آمادہ نظر آتی تھی بلکہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا طرّۂ لازوال بھی خاصے بڑے جنجال میں الجھتا نظر آنے لگا تھا۔ ہر چند موصوف کو نتیجے میں ردّوبدل کا ازلی اختیار حاصل تھا۔ لیکن فی الوقت اُن کے حلقۂ اختیار کے چاروں کندھے اُن کے بس سے کسی قدر باہر تھے۔ شاید یہی وجہ ہوئی کہ دوسرے ہی دن آنجناب نے ہمیں بگوشۂ خلوت بلایا۔ سمجھایا بجھایا، پچکارا اور طرح طرح کے دلاسے دیئے۔ اور شاید بتاشے بھی اور با لآخر استدعائیہ انداز میں کُچھ اس طرح نشیب…میں اترآئے کہ ہمیں کندھوں سے پکڑ کر انہیں اٹھانا پڑا

آئینہ دیکھ اپنا سے منہ لے کے رہ گئے

صاحب کو دل نہ دیتے پہ کتنا غرور تھا

ہم نے انہیں یوں موم ہوتے دیکھا تو ہمارا سنگِ خارا رہنا بھلا کہاں ممکن ہوتا چنانچہ بالآخر ہم نے پرچوں پر نظر ثانی کا اقرار کر ہی لیا۔ لیکن جب پھر ہم دونوں کی نگاہیں باہم ٹکرائیں، تو دلوں کا وسوسہ زبانوں پر بھی آگیا ……’’مگر اُس آرڈر کا کیا ہو گا جس پر نکاح نامے کی طرح ہم سے دستخط کرائے گئے ہیں‘‘

ہیڈ ماسٹر صاحب نہ ہمارے اتنے سے واہمے پر اپنے نامہ ہائے اعمال کی خاص الماری کھولی، آرڈر بک نکالی اور پرچوں کے ہمراہ اسے بھی ہماری آغوش میں دھکیل دیا ۔

شکوک و شبہات کی فضا بھی عجیب ہوتی ہے۔ ہمیں وہ آرڈر بک اپنی جانب بڑھتا ہوا ناگ محسوس ہوئی۔ چنانچہ ہم نے بہ یک زبان کہا ’’… نا… نا… نا… قبلہ ہیڈ ماسٹر صاحب ! یہ متاعِبے بہا اپنے پاس ہی رکھیے اور اپنا مختارِ کل قلم اپنی جیب سے نکالیے کہ اسی تیغِ با نیام کی حرکت میں ہماری جان ہے۔

ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہ خوا ہ مخوا ہمارے معمول نظر آرہے تھے۔ اپنا قلم نکالا اور اپنے زورِبازو سے جو علا قہ اپنے زیرِ نگیں کیا تھا وہ سارے کا سارا علاقہ سپاہِپورس کو لوٹا دیا، تاہم ہم اپنے اندر اس احساس کی بیداری سے بچ نہ سکے۔

گر زمزمہ یہی ہے کوئی دن تو ہمصفیر!

اس فصل ہی میں ۔۔ ہم کو گرفتار دیکھنا

ماجد صدیقی

بُو قلمونیاں ۔۔۔۔۔ نشیب و فراز کی

سکول کے پہلے ہیڈ ماسٹر تو جا ہی چکے تھے، نئے ہیڈ ماسٹر صاحب کا مزاج بھی دو دھاری تلوار سے کم نہ نکلا کہ موصوف جس قدر خاموش تھے بباطن اتنے ہی پُرجوش تھے ۔ انہیں جس قدر اپنی چوطرفہ پھیلتی چال، شمالاً نکلتی قامت ، افقاً لپکتی نگاہوں اور رنگت کے گوراپے بلکہ سر خاپے کا زُعم تھا اس سے کہیں زیادہ اپنی عقاب چشمی اور سحاب طبعی پر ناز تھا کہ جس پر مہربان ہوئے مہربان تر ہوتے گئے اور جس سے بگڑے، بگاڑ کی انتہا کو پہنچ گئے۔

موصوف کی طبعیت کی بّراقی اور طُرّے کی طمطراقی کُچھ اتنی موثٔر ثابت ہوئی کہ فضائے مدرسے کی ساری مخلوق ایک بار تو جیسے اُن کی پہلے ہی روز کی آمد سے سہم کا شکار ہو گئی اس لئے کہ انہوں نے جوبلّی پہلے ہی دن ماری وہ ان کے سر براہانہ مستقبل کو ہمہ وقتی تابناک کرنے کے لئے کافی سے زیادہ تھی اور یہ کرشمہ محض ان کی پہلی ملاقات کے اندازِ مصافحہ میں پنہاں تھا کہ چھوٹتے ہی انہوں نے جس کِہ و مِہ سے بھی ہاتھ ملایا۔ بس یوں جانیے کہ اسلام کو بّر صغیر کے برہمنی دور میں لے جاتے رہے۔ موصوف اپنی دو انگلیوں کا لقمہ اپنی جانب بڑھنے والے ہر محتاج ہاتھ میں تھماتے گئے اور جب سارے افرادِ عملہ بھگت چُکے تو باوجود سرتاپا کالا باغی لباس میں ملبوس ہونے کے انتہائی دساوری انداز میں اپنی مسند شاہانہ پر جا بیٹھے۔

ہمیں اُن کے اس اندازِدلبرانہ پر پیار آیا، غصہ آیا، یا رونا، ہمیں یہ تو یاد نہیں پڑتا، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب انہوں نے قدرے توقّف کے بعد سگریٹ سلگایا تو ۔۔۔۔اس بے زبان سے بھی مذکورہ مصافحے والا سلوک ہی کیا، سگریٹ کو آگ دکھائی، انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی میں اسے پیوست کیا، اور مٹھی اور ہونٹوں کی واشلوں کے اتصال سے دھوئیں کو اندر لے لے جاتے اور باہر نکالتے رہے۔

اس دقیق منظر کا احساس اور کسی ناظر کو ہوا نہ ہوا، ہمیں ضرور ہوا۔ اسے ہماری زود حسی کہئے، یا عالمِنَو عمری کہ ہماری قوتِ مشاہدہ ہمیں ہر آن ایسی ہی تاویلات میں لگائے رکھتی تھی، چنانچہ اس سمے بھی نیوٹن کی طرح ہم نے موصوف کی اس طُرفہ اندازِسگریٹ نوشی سے نتیجہ یہی اخذ کیا کہ موصوف ابنائے آدم ہی سے نہیں اپنے مشروبات و ماکولات کی درمیانی نسل سے بھی وہی برتاؤ موزوں سمجھتے ہیں، جو اُن کی بقائے مُسرت کا ضامن ہو سکتا ہے۔ اور یہ دلیل ہے اس امر کی کہ رفقائے کار سے اُن کا کُچھ دیر پہلے کا اندازِ دلبرانہ کُچھ ایسا محلِ نظر نہیں ہے۔

سکول کا ماحول بدلتا گیا۔دن گزرتے گئے اور ہم تعمیرِ مُستقبل کے منصوبوں میں سرتاپا غرق اپنے فرائضِمنصبی بکمال احتیاط و تندہی ادا کرتے رہے لیکن اس احتیاط ورزی میں ہمارا ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا قصّہ یہ تھا کہ ہم محض نان نفقہ کی فکر میں حلقۂ تدریس میں شامل نہیں ہوئے تھے ، بلکہ ہمارا یہ فیصلہ اپنے درس کی تکمیل کے لئے بھی تھا ۔اور اس درس کی تکمیل کے مراحل بڑے ہی کڑے تھے اور یہ تھے کہ ہمیں بی اے کا داخلہ بھیجنے کے لئے اپنے مربّیانہ سسرال یعنی محکمے سے باقاعدہ اجازت حاصل کرنا تھی جس کے لئے ہم نے

لب تمہارے ہیں شفا بخش ولی ہے بیمار

حیف صد حیف کہ اس وقت میں درماں نہ کرو

اپنی درخواست اپنے ہمہ وقتی دستیاب لیکن کم آمیز رئیسِمدرسہ کو پیش کی تو اس پر غور قوائد وضوابط کی روشنی میں شروع ہوا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چونکہ سکول کے ایک دو معمّر اور صاحبِ اولادمدّرس بھی کسی امتحان میں بیٹھ رہے تھے لہٰذا ہم کنواروں کی درخواست اجازت برائے امتحان ایک سال تاخیر کی خوشخبری کے ساتھ ہمیں واپس کر دی گئی۔

ہم نے جب اپنے ٹُھوٹھے کا یہ حشر ہوتے دیکھا تو اُس کے ٹوٹنے کو بقولِ وارث شاہ تقدیر کیاکِیا ہی گردانااور آئندہ سال کا انتظار کھینچنے لگے جسے بہر حال آنا تھااور وہ آ بھی گیا۔ لیکن ہمارے فکروخیال میں ولولے کی جو تازگی اور عزم کی جو پختگی پائی جاتی تھی اُس پر ایک طرح کی اوس ضرور پڑ گئی۔

نیا سیشن آیا …تو ہم نے چڑیوں کے گھونسلوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اپنی درخواست پھر بحضورِعالی مرتبت گزاری جس پر موصوف کے سفارشی حروف کے ثبت ہونے تک ہم نے اپنی سانس کو یوں روکے رکھا جیسے سپریم کورٹ کے کسی مقدمے کے فیصلے کا اعلان ،مدعیان کے ’’سوتر ‘‘سُکا دیتا ہے بالآخر ہیڈماسٹر صاحب نے سال بھر سے محفوظ کیا ہوا فیصلہ سنا ہی دیا یعنی ہمیں اس قابل ٹھہرا دیا کہ اگر محکمہ چاہے تو درخواست گزار بحرِ علم سے حسبِ استطاعت اپنے حصے کے تعلیمی موتی سمیٹ سکتا ہے اور سچ جانیے کہ اُن کی اِتنی سی کار گزاری سے ہم اُن کی فروانیٔ عظمت کو کُچھ یوں دیکھتے پائے گئے جیسے تاریخ کی بعض کتابوں میں سبکتگین کو دیکھتی ہوئی ہرنی دکھائی جاتی ہے

مُجھ کو بھی تمازت کی جو پہچان ہوئی ہے

احساں ہے تری راہ کے اک ایک شجر کا

درخواست بعد از کارروائی جانے کو تو چلی گئی لیکن سکول اور ضلعی دفتر کے درمیان اٹک تو کیا لٹک کر رہ گئی اور یہ دفتر وہ تھا جسے اعرافِارضی کہیے تو بجا ہے یعنی دفتر اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر المعروف بہ اے ڈی آئی آفس۔ ہم دفتر مذکور میں پہنچے تو

یاد تھیں جتنی دُعائیں صرفِدرباں ہو گئیں

اور اذنِ باریابی بھی مشکل نظر آیا۔ اس لئے کہ صاحبِدفتر خود ایم اے امتحان کی تیاری میں غرق تھے اور اپنی ماتحت مخلوق کو شرفِ ملاقات بخشنے سے پوری طرح گریزاں، تاہم ڈیڑھ دو گھنٹے کے انتظار کے بعد دربان کی عنایتِ خاص کے طفیل شرفِ باریابی حاصل ہوا تو زمانے بھر کے نشیب وفرازجیسے دفتر کی چاردیواری میں یکجا ہو گئے کہ ہمارے افسرِ مجاز جہاں فراز ہی فراز تھے ہم وہاں پا بہ فرق نشیب بنے کھڑے تھے ، اور سرتاپا گفتۂ غالب کی تصویر

دکھا کے جنبشِلب ہی تمام کر ہم کو

نہ دے جو بوسہ تو منہ سے کہیں جواب تو دے

چنانچہ اس نشیب وفراز کے درمیان جو گفتگو ہوئی شاید اس کے کچھ الفاظ ہی فراز کے کانوں تک پہنچے جس کا مختصر اور تیر بہدف جواب انہوں نے یہ دیا کہ ڈگریاں یونیورسٹی سے ملا کرتی ہیں اے ڈی آئی آفس سے نہیں، جائیے اور حق حلال کی روزی کمانے کی فکر کیجے، یہ کام دفتری نوعیت کا ہے۔ اور اپنے وقت پر ہو جائے گا۔

رسوائیاں اٹھائیں جو ر و عتاب دیکھا

عاشق تو ہم ہوئے پر کیا کیا عذاب دیکھا

ہم دفتر سے برآمد ہوئے تو خدا جانے احساس کی کن کھائیوں میں غرق ہو گئے، تاہم جب ابھرے تو پھر اُسی ماحول میں تھے،جہاں اطراف و جوانب میں نشیب ہی نشیب تھا، بجزہیڈ ماسٹر کے دفتر کے، لیکن اس پل ہمیں تو وہ بھی ایک معمولی سا ٹیلہ ہی دکھائی دیا، بہرحال اپنے احباب سے جب قّصہ اس نامرادی کا چھڑا تو انہوں نے ہمیں راستہ محکمانہ ہائیکورٹ کا سُجھایا، یعنی یہ کہ ہمیں ضلعی افسرِاعلیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے تھا یہ بات ہمیں زیادہ غیر معقول تو نہ لگی لیکن ہم کُچھ ہی عرصہ پہلے لاریب کالج کے ایک نمایاں طالب علم تھے۔اور اپنے اساتذہ کے ایک واجب العزت شاگرد رہ چکے تھے، اس مقام پر پہنچے تو جیسے ٹھٹھک کر ہی رہ گئے، پھر بھی

زخمِ فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا

کُچھ دن گزرے تو ہم نے اچن چیت ضلعی دفتر کا رخ کیا۔

ہو لئے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ

یا رب! اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا!

لیکن جب وہاں پہنچے تو اپنی چستی و توانائی پر جیسے خِفّت سی ہونے لگی اس لئے کہ باوجود ستر میل کی مسافت کے دفتر مذکور میں صبحدم پہنچ جانا محکمانہ قواعد سے ہماری سراسر نا آگاہی تھا جس کا انکشاف اگر خداوندانِ محکمہ پر ہو جاتا تو ہمارا عاقبت نامہ یعنی سروس بُک ایڈورس ریمارکس سے ضرور ملوث ہو جاتی، جس سے ہماری سالانہ ترقی توکیا رُکنی تھی کہ اس طرح کے فلیتوں کے ہم بالقواعد اہل نہ تھے، البتہ استمرارِملازمت کے حق میں اتنا لکھا بھی سَمِ قاتل ضرور ہو سکتا تھا،مگر بحمد اﷲ کہ ہم اس خطرے سے قبل از وقت ہی آگاہ ہو گئے اور گیارہ بجے تک کا عرصہ چھُپ چھپا کے دفتر کے نواحی ہوٹلوں میں گزار دیا۔ اس لئے کہ صاحبِضلع سے ملاقات کا مسلّمہ ومروّجہ وقت صبح کے گیارہ بجے ہی تھا۔

گیارہ بجے سے پہلے ہمارے افسرِ اعلیٰ کیا کرتے رہے ہمیں اِس سے غرض تھی نہ واسطہ،لہٰذادیگر مسائل کے ہمراہ جب گرد و پیش کا جغرافیہ اور ارتقائی جائزہ مکمل کر چکے تو خبر یہ ملی کہ صاحبِضلع دفتر میں تشریف لا چکے ہیں۔ جس پر ہم محکمہ کے سب سے بڑے دربان کے سامنے دستِ دعا دراز کرنے میں کامیاب ہو گئے اور چھوٹی سرکار کو عرض یہ گزاری کہ اگر وہ کرم گستری کرے اور ہمیں جائے مقصودہ تک پہنچا دے تو اُسے کُچھ دیر نہیں لگتی لیکن اس کی کرم گستری کا باب ابھی کھلنے بھی نہ پایا تھاکہ صاحب بہادر کسی میٹنگ میں شرکت کے لئے اپنی کرسی ٔاقتدار سے کیا اٹھے دفتر بھر میں جیسے زلزلہ آگیا جس کا شکار ہم بھی ہوئے۔

جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی

مشکل کہ تُجھ سے راہِسخن وا کرے کوئی

اور خدا کا شکر کہ بخیریت اپنی جائے ملازمت پرواپس پہنچ گئے۔

ماجد صدیقی

دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

ہر ہفتے دی شام‘ نوں دِسّے منہ اتوار دا

جِنج بِن چٹھیوں ڈاکیہ ہسے پیار جتائے کے

یہ شعر اگرچہ ہم نے بہت بعد میں کہا لیکن اس کے الفاظ اور ہماری سابقہ مذکور جائے رہائش کے تیور آپس میں بہت ملتے جلتے تھے۔ لہٰذا اگر اس شعر کے ناطے آپ کا خیال ہمارے ہم اطاق دوست ڈاکیے کی جانب چلا گیا ہو تو بالکل صحیح سمت کو گیا ہے ہم نے گزشتہ سطور میں جس سکونتی علیٰحدگی کا حوالہ دیا تھا وہ علیٰحدگی بالآخر عمل میںآگئی یہ نہیں کہ ہمارے وہ دوست مکان چھوڑ کر چلے گئے بلکہ ہمیں نے اپنا آشیانہ سطحِ زمین سے دس بارہ فٹ کی بلندی پر جا تلاش کیا یعنی فرشِ خاکی سے ایک چوبارے میں منتقل ہو گئے۔ جو بازار کے بائیں بازوکی دوکانوں پر کچھ اِس اندازسے تعمیر کیا گیا تھا جیسے سرحدوں پر ’’اوپی‘‘ کی چوکی تعمیر کی جاتی ہے، چوبارہ اپنے جغرافیائی اور سماجی حدود اربعہ کے باعث تو خالصتاً منفرد تھا ہی کہ پھیپھڑوں کے علاوہ قلب و جگر کو بھی تازہ ہوا مہّیا کرنے کے خاصے اسباب اپنے اندر رکھتاتھا لیکن چوبارے تک پہنچنے کے لئے جو سیڑھیاں قطب نمائی کرتی تھیں وہ شادی کے کسی ادارے کے قواعد جیسی تھیں کہ اکثر بھول بھّلیوں میں مبتلا کر دیتیں، تاہم وہ جو کہتے ہیں۔

ہر گلے را خار باشد ہم نشیں

سیڑھیوں کی پیچیدگی چوبارے تک پہنچنے میں ہمارے لئے کبھی سدّراہ نہ ہو سکی کہ ہمیں تو ایک کشادہ منظر اور صاف ستھری آب و ہوا والے مکان کی جستجو تھی اور یہ خوبیاں موصوف میں بدرجۂ اتم موجود تھیں کہ اگرچہ بقامت کہتر تھا لیکن بقیمت بہتر‘ اس لئے کہ ہماری تنخواہ کے ناپ پر پورا اترتا تھا یعنی اس کا کرایہ نہیں تھا، چوبارہ کی تعمیر میں وہی بنیادی جذبہ کارفرما تھا جس کا ذکر ہم نے پہلے کیا ہے کہ اس سے مقصود بازار بھر کی نگہداری کے فرائض کی بہ طریقِ احسن تکمیل تھی۔ لہٰذا جس دن سے یہ چوبارہ محکمۂ تعلیم کے سپرد ہوا تھا اور یہ وہاں ہمارے منتقل ہونے سے پہلے کا قصّہ ہے، صاحبِدکان نے (کہ چوبارہ اسی کی دوکان پر بنا تھا) دکان کے چوکیدار کو چھٹی د ے رکھی تھی اور چوبارے کے مقیموں کا وہاں رہنا دوکان کے بیمہ کا پیشگی پریمیم تصور ہوتا تھا، اسی لئے کرائے جیسی علّت سے پاک تھا اس کے علاوہ اس کی ایک افادیت اور بھی تھی…… کہ بازار چوبارے کی عین بغل میں پڑتا تھا۔گویا

دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار

جب ذرا گردن جھکائی۔۔۔ دیکھ لی

جہاں سے نہ صرف دودھ چائے اور لسی جیسے مشروبات منگوائے جا سکتے تھے بلکہ اسی نواح میں ایک دو جزوقتی ہوٹل ایسے بھی تھے جن کے مالکان خاندانی بنیادوں پر اپنے خریداروں کو وقتاً فوقتاً نان نفقہ بھی مہیّاکر دیتے مراد یہ کہ جو ’’ِمسّا اَلُونا‘‘ گھرمیں پکتا… خریدار بھی اس میں شریک ہو جایا کرتے۔

ہم نے وہ چوبارہ اپنی نویکلی رہائش کے لئے نہیں ہتھیایا تھا کہ تنہائی وہ واحد مرحلہ ہے جسے ہم نے سر ے سے بعدِ از مرگ مراحل میں شامل رکھا ہے اس لئے کہ

نیند پھر رات بھر نہیں آتی

لہٰذا یہ تیسری خوبی تھی جو اِس خوش اطوار میں پہلے ہی سے پائی جاتی تھی کہ اب کے ہمارا ہم اطاق ساتھی ہر طرح سے ہماری اس دیرینہ خواہش پر پورا اترتا تھا، کہ ہمدم ہو تو ایسا ہو جو نہ صرف ہم رزق بلکہ ہم اوقات بھی ہو کہ گھر لوٹیں توایک ساتھ پہنچیں اور کہیں جائیں تو ایک ساتھ ہی رخصت ہوں اور ہمارا یہ مدّعا بہر اعتبار پورا ہو چکا تھا۔

جہاں تک چوبارے کی اپنی نیّت کا تعلق تھا اس نے یوں تو ہمارے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جیسا سلوک کسی مشرقی ملک کے عوام اپنے رہنماؤں کے حق میں روا رکھتے ہیں کہ برسوں تک احتساب کی راہ کا نام تک نہیں لیتے تاہم ایک رات اس کا مزاج ضرور بگڑا اور ایسا بگڑا کہ خدا کی پناہ۔

ہوا یوں کہ موسمِسرما کی ایک رات تھی جسے ردائے ابر نے کسی معصوم بچے کی طرح چاروں جانب سے ڈھانپ رکھا تھا اور قامتِ شب پر بوندیں اتنی تیزی مگر کم جسامتی سے پڑ رہی تھیں جیسے حجام شیو کرنے کے بعد گاہک کے چہرے پر اپنی بوتل کی کمان سے پھوہار چھوڑتا ہے یہ صورت کچھ اسی ایک شب پر حاوی نہ تھی بلکہ پچھلے تین روز سے بادلوں نے جیسے فرمائشی جلوس نکال رکھے تھے البتہ اس رات موسم کی طبیعت کچھ زیادہ ہی رواں نظر آتی تھا یعنی کوئی کوئی بوند چھت پر یوں بھی آن گرتی جیسے کسی بچے کا جھنجنا کسی بڑے کے گھٹنوں سے آن ٹکراتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ جلترنگ کی ساری سریں ایک ایک کر کے بیدار ہو رہی تھیں۔ رات کی سیاہی بڑھی تو ہماری آنکھوں کی روشنی بھی ماند پڑنے لگی چنانچہ حسبِ معمول اپنے ہمدم کے ساتھ روزمرہ گفت گو کا کوٹہ پورا ہونے سے پہلے ہی ہم نیند کی آغوش میں جا پڑے۔

چوبارے میں ہماری ہماری چارپائی شمالاً جنوباً تھی اور دروازے کے عین مطابق بچھی تھی جبکہ دوسرے صاحب شرقاً غرباً دراز تھے، سکندر کی نیند اگرچہ ہماری نیند سے مختلف تھی لیکن سوتے میں ہم کچھ طبعی طور پر ہی سکندر کی طرح اپنے ہاتھ پاؤں مع چہرہ بستر سے باہر نکال کر رکھنے کے عادی ہیں اور حسبِعادت اس شب بھی اسی طرح محوِخواب تھے۔

نصف رات کا عمل ہو گا یا اس سے کچھ کم، ہمیں یکایک کچھ یوں لگا جیسے ہماری داہنی آنکھ کا سارا نور بہنے کو ہے۔ ہم بلبلا کر اٹھّے کہ یہ کارستانی کسی خوابِ بد کی بھی ہو سکتی تھی، لیکن جب آنکھ کے علاوہ اپنے چہرے کو بھی نم آلود پایا تو ہم پر کھلا یہ کہ ہماری آنکھ کا نوراز خود بہنے پر آمادہ نہ تھا بلکہ یہ کارروائی خارج سے آنکھ کی اندرونی دنیا پر وارد ہوئی تھی اور برسوں کی دُود آلود چھت کے عرقِ انفعال نے ٹپک کر ہماری آنکھ کی راہ لے رکھی تھی اور جس قطرے نے ہماری آنکھ کے درواکر دئیے تھے وہ اپنی نوعیت کا تیسرا یا چوتھا قطرہ تھا جس کی گواہی ہمارے چہرے کا غیرمتاثرہ حصہ دے رہا تھا لیکن وہ تین یا چار قطرے جو ہماری آنکھ میں اٹک کر رہ گئے تھے انہو ں نے تو ہمیں کچھ ایسا چکرا دیا کہ ہمارے منہ پر غزل کے وہی لغوی معنی چکرانے لگے جن کا تعلق ہرن برادری سے بتایا جاتا ہے۔

ہماری قوتِبرداشت نے ہمارا کچھ کچھ ساتھ دینا شروع کیا۔ تو ہم نے چھت کی طبیعت کو مائل بہ کرم دیکھ کر خود ہی اس راہ سے ہٹ جانا مناسب سمجھا۔ اور اپنی چارپائی اپنے ساتھی کی چارپائی کے عین متوازی بچھا لی لیکن اس احساسِ تعصب سے یکسر مغلوب ہو کر کہ یہ صاحب ابھی کیوں محوِ استراحت ہیں لہٰذا اگر کچھ ہو تو ہمارے بھاگوں یہ بھی متأثر ہوئے بغیر نہ رہیں چنانچہ اِس دعائے شر اور بحالیٔ چشم کے کچھ دیر بعد ہم دوبارہ سو گئے مگر جب دوبارہ آنکھ کھلی تو ابتداً یوں لگا جیسے ہماری ناف نے پیدائش کے برسوں بعد ازِسرنو رِسنا شروع کر دیاہے۔ اور نمی کی یلغار نواحی علاقوں کو بھی یکساں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے رضائی سے ہاتھ باہر نکال کر پھیرا تو

قطرہ قطرہ بہم شود تالاب

میں جا پڑا، اب کے ہم نے بستر سے اچھلنے کی بجائے کھسک کر نکلنے کو ترجیح دی اور اسی دعائے شر کے زیرِاثر جو پہلی بیداری کے دوران ہم نے مانگی تھی چپکے سے چوبارے میں نصب پڑچھتی کے نیچے ہولئے تاکہ دعا کی مستجابی پر اگر وہ صاحب بھی پانی کی زد میں آئیں تو ان کے لئے کوئی جائے پناہ باقی نہ ہو، مناسب وقت پر پڑچھتی کے نیچے ہو لینے سے ہمیں کہیں پہلے سے زیادہ تحفظ کا احساس ہوا تو نیند دبے پاؤں نہیں بلکہ بجتے کھنکتے قدموں آئی اور ہمیں دوبارہ بلکہ سہ بارہ اپنے ساتھ بہا لے گئی لیکن اب کے ہمارے اور پانی کے درمیان چومکھی جنگ کا آغاز ہوا یعنی چھت در چھت ٹپکنے والے پانی نے ہم پر چوطرفہ حملہ کر دیا۔ اور یہ حملہ بوندوں یا قطروں کی صورت میں نہیں بلکہ تیز و تند دھاروں کی صورت میں ہوا جن میں سے پہلی دھار ہمارے منہ پر دوسری دل و جگر کے نواح میں اوراسی طرح تیسری اور چوتھی بالترتیب پیروں تک کو اپنا نشانہ بنا کر کچھ ایسے زوروں اور تسلسل سے پڑنے لگیں کہ ہماری آنکھ کے کھلتے کھلتے فمِمعدہ مِٹھ کڑوے پلستر سے لِپ چکا تھا چنانچہ اب کے بعد از بیداری اپنے اندر کے ہیجان سے یوں لگا جیسے ہمارے پھٹ پڑنے میں بس تھوڑی ہی کسر باقی ہے۔

یونہی گر روتا رہا، غالب تو اے اہلِجہاں!

دیکھنا ان بستیوں کو تم۔۔ کہ ویراں ہو گئیں

تاہم اس کہرام میں بھی ہمیں مسرت کی ایک کرن ضرور جھلکتی دکھائی دی…کہ ہماری پہروں پہلے کی دُعائے شر، خیر سے اب مستجاب ہو چکی تھی اور ہمارے ساتھی کی چارپائی بھی اپنی جگہ سے ہجرت کر کے دروازے کی بغل میں جا پہنچی تھی، نہ صرف یہ بلکہ آنجناب بستر میں بھیگے کوّے کی طرح اکڑوں بیٹھے ،

چھینک پر چھینک ماررہے تھے،

ہم نے اپنا مضروب گلا کھنکارا …تو ہماری صدائے مجروح سے انہیں بھی کچھ سکون سا محسوس ہوا، جوابًا آنکھوں کو ملتے اور’’ اُتھو‘‘ کوفرو کرتے ہوئے کہنے لگے’’چھت کا پانی ناک میں گھس گیا ہے بوکھلا کر اُٹھا اُوپر دیکھا تو آنکھوں نے بھی اپنی برات پالی، آپ کہیے آپ پر کیا گزری۔ ‘‘

جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے

ہم نے انہیں یہ تو نہ کہا تاہم جو کُچھ ہم پر گزر چکی تھی وہ ہرگز وہ نہ تھی جو ان پر گزری تھی لہٰذا بات جب اپنے منہ میاں مٹھو بننے کے برعکس کھلتی دکھائی دی تو ہم نے کسی تفصیل میں جانا منا سب نہ سمجھا اور جہاں اپنے آپ کو بستر بدرکیا وہاں انہیں بھی یہی ترکیبِعافیت سُجھائی، چارپائیوں کو کروٹوں کے بل لٹایا اور بستروں کواُن کے کندھوں پر جمادیا۔

بستر لپیٹ کر ہم اُٹھ جائیں رہ سے اس کی

مقصد نہیں تھا شاید ایسا تو ‘ مُّدعی کا

اور دونو’’جی‘‘ چوبارے کے کونے میں بنے کُھرے پرپہنچ کر جیسے اٹک سے گئے، جہاں ہم نے کتابوں کا سٹینڈبنایا اس پر لالٹین روشن کی اور تاش کے پتے لے کر چوکڑی جما دی تاآنکہ صبح ہو گئی

ایک رات تو گزر چکی تھی، مگر وہ رات ۔۔۔۔ جو دس گھنٹوں کے بعد پھر اسی طمطراق سے آنے والی تھی اس کی راہ میں ہم کون سا ڈیم بناتے یہ فکر ہمیں اس لئے لگی رہی کہ بادل کسی بیمے کے ایجنٹ کی طرح جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ لہٰذا چھت کی لپائی کی بجائے کہ بالفعل ناممکن تھی ہم نے اپنے غنچے کو پکارا۔ (ہماری مراد عاشق محمد خان سے ہے‘ قلم سنبھالا اور سودا کی روح سے رابطہ قائم کر کے ایک عدد قصیدہ ہجویہ درمدح آستانہ ٔعالیہ رقم کیابازار سے ایک بڑا سا کورا تعویذ منگوایا، نَے سے تراشے قلم کے ساتھ جلی حروف میں قصیدے کی کتابت کی اور اسے چوبارے کے حلقوم میں آویزاں کر دیا اور جب اگلی رات آئی تو ہمارے تعجب کی انتہا نہ تھی اس لئے کہ موسم کی تمام تر نادانی و شرپسندی کے باوصف ‘ہم‘ ہمارے بستر ہمارے خواب اور جانے کیا کیا کچھ اور ۔۔۔۔سارا کُچھ پانی کی دسترس سے یکسر باہر تھا، تب ہمیں یقین آیا کہ تعویذ گنڈے کا کاروبار بھی یقینا برحق ہے اور وہ جو کہتے ہیں ؎

قولِ مرداں جان دارد

وہ بھی کُچھ ایسا غلط نہیں ہے۔

ماجد صدیقی

کوّا چال سے انگریزی زبان کی منافقت تک

تخلیقِشعر میں استغراق تو اپنی جگہ تھا سو تھا اور اس کے بعض منفی نتائج بھگتنے کی سکت بھی اُس وقت ہم میں تھی یعنی یہی کہ اپنے ارادوں میں کوئی فتور نہ تھا۔ لہٰذا۔۔۔۔ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟۔۔۔۔

سَو الزاموں کا ایک جواب تھا… لیکن ہمارے اعصاب میں خود طعامی کے باعث (جسے چھڑے لوگ اپنی زبان میں دست خود ‘دہان خود کے گلچھڑے بھی کہتے ہیں)جو تازگی اور شادابی رفتہ رفتہ آنے لگی تھی ہم نہیں چاہتے تھے کہ وہ طراوت ہمارے ہم اطاق کی بلند بانگی، طول گفتاری اور کج کلامی کی نذر ہو جاتی اس لئے کہ موصوف نہ صرف یہ کہ پچاس مرچوں کی ترکاری روزانہ زیرِ حلقوم کرتے بلکہ اگلی صبح سے شام تک اپنے نطق و لب کے ذریعے اپنی اس نرالی خوراک کا مزہ دوسروں کوبھی چکھاتے۔جن میں ازراہ خوش نصیبی ہم سرِفہرست تھے چنانچہ ہمیں یہ ہم نفسی کچھ زیادہ عرصے کے لئے راس نہ آئی۔

قبل اس سے کہ ہم اپنے مزید سکونتی دکھوں کا پٹارا کھولیں، آئیے آپ کو ان درودیوار تک لے چلیں جن کے درمیان ہمارے ماہانہ رزق کی کھیتی اُگا کرتی تھی اور جو اپنے اندر کام دوہن کی شیرینیوں کے علاوہ محرکاتِ فکر و خیال بھی رکھتے تھے، سربراہِ مدرسہ کہ طبعِموزون و زبانِ بے قابو رکھتے تھے، ازل ہی سے جیسے چِھدرے پہلوانی جسم اورکُھردرے تیوروں کے بلاشرکتِ غیرے مالک تھے مگر ہر کسی کی شنید یہی تھی کہ اندر سے حریر و پرنیاں ہیں اس لئے کہ حالات و واقعات سے یہی ہویدا تھا کہ اپنے ماتحت عملے پر ان کی پہلی گرفت تو ہمیشہ عقابی ہوتی یعنی سخت مضبوط لیکن جب معاملہ جزاوسزا کاآتا تو یکا یک اپنی احتسابی کارروائی سے دست کش ہو جاتے لہٰذا یا تو وہی راہ اپناتے جس کا تذکرہ ہم نے پہلے بھی کیا ہے کہ روٹھ بیٹھتے یہاں تک کہ اپنا استعفے تک بھجوا دیتے یا پھر اپنے شکار کو اپنے قدموں میں لا ڈالتے اور اس کی خطا سے درگزر ہی نہ کرتے اسے سینے سے لگاتے، پیار کرتے بلکہ اس کے اعزاز میں ایک آدھ وقت کی ضیافت کا اہتمام بھی کر ڈالتے لیکن اُن دنوں صورتِحال یہ تھی کہ اُن کا ہماراساتھ کچھ اس طرح کا تھا جس طرح کا ساتھ غروب آفتاب کے وقت آٹھویں دسویں کے چاند کا سورج سے ہوا کرتا ہے یعنی چاند نظر تو آرہا ہوتا ہے لیکن غروبِآفتاب تک اپنی کسی ضیا پاشی سے قاصر ہوتا ہے، مُراد یہ کہ وہ ریٹائر ہونے والے تھے اور ہماری ملازمت کی ابھی ابتدا ہو رہی تھی

تُجھ سے قسمت میں مری صورتِ قفلِابجد

تھا لکھا بات کے بنتے ہی جُدا ہو جانا

موصوف کہ اندر سے خاصے نرم لیکن باہر سے خاصے گرم تھے کسی حد تک مزاج بھی شمسی رکھتے تھے کہ بادل کا کوئی ٹکڑا سامنے آگیا تو سرا سر موم ہو گئے مگر جونہی وہ ٹکڑا ہٹا پھر اپنی اصلی تابانی پر اُتر آئے سکول کی آرڈر بُک ان کا عصائے پیری تھا وہ جو بات بھی کرتے بزبانِ قلم کرتے اور اگر صوت کی باری کبھی آ بھی جاتی تو وہ ان ہی حرفوں کی صداقت کو تسلیم کرانے کے موقع پر آتی جو ان کی ز بان و قلم سے ٹپک چکے ہوتے اور پھر یوں آتی کہ گرم بھٹی میں جھنکنے والے دانوں کی صداکاری بھی سننے والے کے ذہن سے محو ہو ہو جاتی لیکن یہ سارا کچھ میدانِ رزم کا قصہ تھا یعنی اوقاتِدرس و تدریس کی درمیانی حدوں تک محدود۔ ورنہ فارغ اوقات میں تو وہ بسا اوقات کچھ ایسی بے تکلفی پر اتر آتے کہ تقاضائے سن کو بھی بالائے طاق رکھ دیتے۔

ایک دن کا ذکر ہے، کچھ اِسی طرح کے مُوڈ میں جملہ اساتذہ کے درمیان دولہا بنے بیٹھے تھے کہ کسرتِ جسمانی کا ذکر چل نکلا جس پر انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنا روایتی پاجامہ گھٹنوں تک چُھنگ لیا آستینیں چڑھا لیں…… اور

صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

کا نعرہ لگاتے رانوں پر چٹاک چٹاک ہاتھ بجاتے سکول کے گراؤنڈ میں نکل کھڑے ہوئے اور کّوا چال کا وہ مقابلہ آغاز کیا کہ سارے ہنس اپنی اپنی چال چوکڑی بھول گئے۔

موصوف کی ایجاد کردہ یہ کّوا چال…… پیروں کے بل بیٹھے بیٹھے ایک بہت بڑے دائرے کی شکل میں پیہم جادہ پیمائی پر مشتمل تھی جو شریکِمقابلہ کی حسبِاستطاعت کئی چکروں کو پورا ہونے پر جا کر ختم ہوتی تھی اور یہ چال انہوں نے کچھ اس طرح کمائی ہوئی تھی کہ انجمنِ مذکورکے جوانانِ طناز تک ان کے سامنے گھٹنے ٹیک کر رہ گئے، احتراماً نہیں بلکہ واقعتاً ہم کہ شریکِ مقابلہ نہ تھے بلکہ ساحل نشیں تھے ان کی اس ادائے رستمانہ سے اندرہی اندر سمٹتے جا رہے تھے کہ ان کی روایتی سینہ زوری کے اصل پس منظر کا ایک ایک پہلو ہم پر ان کے ایک ایک چکر کے ساتھ کھلتا جا رہا تھا۔یعنی بقولِ غالب

دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آجائے ہے

میں اسے دیکھوں ،بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

ہمارا حافظہ موصوف کے دبدبے کا اب بھی شکار نہ ہو تو ہمیں یاد پڑتا ہے کہ ہم بھی ایک بار اُن کی ایک ذاتی فرمائش کی زد میں آگئے تھے، یہ مقابلہ فروغِ قوائے جسمانی کا نہیں بلکہ فروغ قوائے ذہنی کے سلسلے کا تھا یعنی وہ ہم سے انگریزی کا قاعدہ پڑھنے پر اتر آئے اس غرض سے نہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنا تعلیمی کیرئیر مکمل کرنے کی فکر میں تھے بلکہ اس لئے کہ ان کا اکلوتا فرزندِارجمند آمدہ سیشن میں حصہ پرائمری سے حصہ مڈل میں پہنچنے والا تھا جس کی تدریس کامکمل ذمہ وہ خود ہی لینے پر مصر تھے۔جی ہاں بقول غالب

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ، ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہم نے بکمال انکساری و اماں طلبی اپنے افسرِ مجازکی اس ناگہانی فرمائش کو بہ سرو چشم قبول کیا اور ڈرتے جھجکتے انہیں ایک ایک حرف مادرانہ شفقت کے ساتھ چُسوانے لگے لیکن موصوف ۔۔۔کہ مدّتِ مدید سے ریزرو ذہن کے تنہا مالک تھے، ہماری زبان سے بہ تمام نرمی ٹپکنے والے زبانِغیر کے ہر ہر حرف کو سو سو پہلو سے ٹٹولتے، ہزار انداز سے اس کا جائزہ لیتے تب کہیں اسے اپنے حلق سے نیچے اتارتے ٹی وی پر تعلیمِبالغاں کا سلسلہ اب شروع ہوا ہے اگر ان دنوں شروع ہوا ہوتا تو جتنی بے نتیجہ محنت ہمیں ادب کے میدان میں اب تک کرنی پڑی ہے اس کی ہمیں ضرورت تک محسوس نہ ہوتی اس لئے کہ اس سمے ہماری استادی اور ان کی شاگردی کے جو جو مناظر مرتب ہوئے اگر ٹیلی وائیز کر لئے گئے ہوتے تو آج ٹی وی کی سکرین ہمارے ان اسباق سے بغیر کسی تردّد کے مزین ہو چکی ہوتی مگر خیر چھوڑئیے اس قصّے کو ہیڈماسٹر صاحب کے اور ہمارے درمیان تعلیم و تعّلم کا یہ سلسلہ چل نکلا تو نہ صرف یہ کہ آگے بڑھنے لگا بلکہ بعض اوقات اِدھر اُدھر بھی پھیل پھیل جانے لگاا یعنی درمیان میں کچھ مقامات ایسے بھی آجاتے کہ اگر ہم انہیں نصابی کتاب کا درس دے رہے ہوتے تو وہ ہمیں اپنی تجرباتی کتاب کے صفحات میں محو کر دیتے۔(فیض سے معذرت کیساتھ)

جن کے ہر اک ورق پہ دل کو نظر

اُن کے جورو جفا کے باب آتے

تاہم ہوا یہ کہ جب انگریزی الفاظ کسی کھوچل، چین کی طرح ان کی زبان کی چرخی پر چڑھنے لگے تو ساتھ ہی ساتھ ان کے سر سے اس شوقِ فزوں کابُھوت اترنے بھی لگا ہمیں اپنی ہم شیر زبان یعنی پنجابی کے بارے میں وہم تھا کہ اس کے الفاظ جس طرح بولنے میں آتے ہیں لکھنے میں نہیں آتے مثلاً پانی کہانی وغیرہ لیکن جب ہم نے ان کی زبانی یہی کرید زبانوں کی ملکہ انگریزی کے حق میں دیکھی تو ہمارا ان کی مشرق پرستی پر جیسے ایمان سا آنے لگا اور حق تو یہ ہے کہ ان کی یہی والہانہ وابستگی ان کے متذکرہ شوقِفزوں میں اتار کا باعث بھی ٹھہری۔ اس سلسلے میں ان کا مؤقف یہ تھا کہ اگر انگریزی میں لفظ چیئر (کرسی) …… کے تلفظ میں سی ایچ (CH) … اردو کے حرف ’’چ‘‘ کی آواز دیتا ہے تو لفظ سکول، سکول کیوں ہے؟ سچول کیوں نہیں، اسی طرح کے کچھ اعتراضات انہیں اور بھی تھے، مثلاً بی یو ٹی، ’’بَٹ‘‘ ہے تو… پی یو ٹی ’’پُٹ‘‘ کیوں ہے۔ وغیرہ وغیرہ اور انہیں چونکہ حق شناسی کی نسبت اکثر بزرگوں کی طرح حق سرائی کا دعویٰ کچھ زیادہ ہی تھالہٰذا وہ اپنا دامانِ فہم و ادراک (بقول خود) ایسی منافق زبان کے اکتساب سے تر نہیں کرنا چاہتے تھے جس کا نہ کوئی اصول ہے نہ قاعدہ! نہ دین ہے نہ ایمان، یعنی قدم قدم بلکہ سطر سطر پر دوغلے پن کا شکار ہے چنانچہ یہ سلسلہ تھوڑا ہی عرصہ چلا اور ٹھپ ہو کر رہ گیا بلکہ اس کے ساتھ ہی ان کی ملازمت کے دن بھی پورے ہونے کو آگئے جن کے قریب تر پہنچنے پر انہوں نے ایک بار پھراپنی استعفیٰ بازی کا کھیل بھی رچایا لیکن غالباً …… وہ دن ان کے اس تپِ محرقہ کے بحران کے دن تھے لہٰذا اس سلسلے کی ۔۔۔ آخری ناز برداری کا لطف سمیٹنے کے کچھ ہی دنوں بعد وہ فطری انداز ہی سے سکول کو خیرباد کہہ گئے۔

ماجد صدیقی

پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

کچھ دن کانجی ہاؤس میں بالفعل بند رہنے اور کڑھی جیسے چارہ نما سالن سے سیر ہو چکنے کے بعد ہمارے دل میں قیدیوں کے جیل سے فرار ہونے جیسا احساس پیدا ہوا تو ہم نے اپنے ساتھی سے بالا بالا مکان کی تلاش شروع کر دی جس کے ابتدائی مراحل ہی میں ہمیں ایک بہت بڑی حویلی دکھائی دی جس کے بلند و بالا بیرونی دروازے سے صاف ظاہر تھا کہ ہو نہ ہو مکان کسی شتربان نے بنوایا ہو گا۔ جو حالات کی ستم ظریفی کے سبب خالی پڑا ہے لیکن ہمارا یہ واہمہ محض کانجی ہاؤس میں بند رہنے کے سبب تھا کہ اب جس عمارت پر بھی نظر پڑتی، ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا نظر آتا۔ یعنی اس پر جانوروں کی سکونت کا شک گزرتا۔ ورنہ وہ مکان جسے ہم نے دریافت کیا تھا کسی مذہبی گھرانے کا ٹھکانہ بلکہ آستانہ تھا، جو مدّتِ مدید سے گاؤں چھوڑ کر تلاشِ روزگار میں کہیں دور جا کر مقیم ہو چکے تھے۔ لیکن جب مکان کے ظواہر سے ہٹ کر اس کے اندر جھانک کر دیکھا تو پتہ چلا کہ مکان کلیتہً خالی نہیں بلکہ جزوی طور پر کرائے پر بھی چڑھا ہوا ہے۔ اور یہ کہ مکان کے ایک حصے میں گاؤں کاپوسٹ مین ماضی کی سہانی یادوں اور’ اَن ڈِیلیورڈ‘ ڈاک سمیت یکا و تنہا رہ رہا ہے اور یہ کہ ہمیں اگر مکان کی جستجو ہے تو موصوف کو ایک عدد ساتھی یا سامع (یہ بات ہم پر بعد میں کھلی) درکار ہے جو اُن کی خاموشیوں اور کرائے کے پیسوں ہر دو میں تخفیف کا سبب بن سکے۔

یہ معلومات حاصل کر چکنے کے بعد دوسرے ہی دن جب موصوف اپنی بِیٹ پر سکول میں تشریف لائے تو ہم نے انہیں تخلیے میں لے جا کر اپنے دل کے مدعا سے بالاہتمام آگاہ کیا جسے انہوں نے کسی مطلقہ عورت کو دعوتِنکاح کے مترادف جانا۔ یعنی بقولِ غالب

آنکھ کی تصویر ‘ سرنامے پہ کھینچی ہے کہ تا

تجھ پہ کھل جائے کہ اس کو حسرت دیدار ہے

اور ہمیں اسی شام بغیر کسی تاخیر کے انتقالِ مکانی کا مژدہ سنا کر چل دئیے اور ہم اُسی شام اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ جسے درمیان میں پڑنے والے ایک اتوار کو ہم اپنے گھرسے اٹھا لائے تھے پوسٹ مین مذکورہ کی حویلی میں منتقل ہو گئے۔

موصوف…… رنگ اور ہٹ کے سخت پکے تھے اور باتوں کی یک طرفہ ٹریفک کے تہِدل سے قائل کہ جب کبھی (بلکہ ہمہ وقتی کہییٔ) اپنی ہانکنے پر آتے تو کسی مشّاق مبلّغ کا لاؤڈ سپیکر ہی کیوں نہ ان کے سامنے رکھ دیا جاتا۔ مجال ہے جو ان کی آواز پر غالب آسکتا۔ ان کی آواز کی پاٹداری اور معاملاتِاین او آں میں اُن کی ہٹ دھرمی اگرچہ ہمارے لئے اس امر کا ایک کُھلا چیلنج تھا کہ اگر ہم اُن کے ساتھ رہے تو ہمارے اعصاب کا بچا کھچارس بھی یقیناً نچڑ جائے گا۔ لیکن ہمارے سامنے مسئلہ اُس وقت انتخاب کا نہ تھا بلکہ اجتناب کا تھا یعنی کانجی ہاؤس سے اجتناب کا اسی لئے تو ہم نے عواقب کی پرواہ کئے بغیر اُن کی دعوت قبول کر لی۔

موصوف کا تعلق یو پی کے کسی علاقے سے تھا اوراُن کی تنہائی کا عالم کچھ یُوں تھا کہ خُدا بھی…شاید ہی اِس قدر تنہاہو اگرچہ راولپنڈی میں اپنے بال بچے کی موجودگی کا ذکر انہوں نے پہلے ہی روز ہم سے کیا۔ لیکن بعد کے شواہدات سے ان کے اِس دعوے کا کوئی ثبوت ہم پر کھلنے نہ پایا اورہمیں اس سے غرض بھی کیا تھی کہ ہماری غرض تو اپنے وسائل کے اندر رہ کر ایک جائے پناہ حاصل کرنے تک تھی جس پر وہ حضرت ہمیں جھونگے میں مل گئے تھے۔

کانجی ہاؤس سے نکلے تو باقاعدہ طور پر انسانوں کے لئے تعمیر شدہ مکان میں پہلی رات کانجی ہاؤس کی پہلی رات سے بھی سو ادلچسپ ٹھہری اس لئے کہ ہمارے ہم شب نے ہانڈی چولہے پر چڑھا دی۔ توہم بھی ازروئے اعانت ان کے قریب جا بیٹھے اور مٹر کی پھلیوں کو ناقبول بے رنگ لفافوں کی طرح کھولنے لگے، اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ موصوف نے ایک ایک کر کے پچاس سرخ مرچیں اپنی فطری خشک انگلیوں سے الگ کیں انہیں کسی خوردہ فروش کی دن بھر کی کمائی کی طرح ایک بار پھر گنا اور ایک حَجری ہاون میں ڈال کر کچھ ا س طرح رگڑنا شروع کر دیا۔ جیسے پرانے وقتوں کے کفش دوز چمڑے کوسِدھایا کرتے تھے ہم نے پہلے تو سوچا کہ سردیوں کا موسم ہے اور موصوف ہفتے بھرکا مصالحہ ایک ہی بار رگڑ لینا چاہتے ہیں جب پلیٹ بھر مٹروں میں انہوں نے ہفتہ بھر کا یہ اضافی راشن یکسر انڈیل دینا چاہا تو ہماری زبان اس ہیبت ناک بلکہ عبرت ناک منظر ہی سے سُرسُر کرنے لگی، وضعِمہمانی مانع تھی۔ لہٰذا ہم نے ان سے اس باب میں کوئی استفسار نہ کیا ویسے اندر سے ہماری حالت بقول فراز کچھ ایسی ہی تھی۔

ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز

ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

اور سچ پوچھیں تو بہت برا کیا کہ آئندہ رات کی عاقبت ہم نے اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر ڈالی۔ شام ہوئی تو موصوف محلے کے تنور پر گئے اور اکٹھی دس بارہ چپاتیاں لے کر پلٹے، کھری زمین پر خوانِنعمت چنا اور ہمیں شریکِ مائدہ کر کے اگلے دن کے لئے نمویابی کے شغل میں جُٹ گئے۔ ’’ہم نے…… کہ مدتوں نِکالَون کھاتے رہنے کے بعد ’’وڈاّلَون‘‘کھانے کا شرف پہلی بار حاصل کر رہے تھے پہلا نوالہ ہی زبان پر رکھا تو یوں لگا جیسے ہمارا جبڑا بھولُو برادران میں سے کسی ایک کی زد میں ہے یکبارگی خدا یاد آیا لیکن اس سمے خدا کا بالفعل ہماری مدد کو پہنچنا بعید ازقیاس تھا کہ میزبان اپنی ڈوئی سمیت خوانِ نعمت کے رِنگ کے ہر نوالے پر ہمیں للکار رہے تھے۔

دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا

سو جو کچھ ہمارے حصہ میں آچکا تھا اسے طوعاً و کرہاً بوجوہ زیر حلقوم کرناپڑا، اور ……

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اس غیر متوقع حادثے سے ہمارے تن بدن کے جو جو حصے فوری طور پر متاثر ہوئے وہ تعداد میں چار تھے یعنی ناک زبان کان اور معدہ ناک کہ گزرگاہِخشک و تر تھی ایک انجانے سیلاب کا مرجع دکھائی دے رہی تھی، کان قوّتِ سماعت کو یکبارگی اگل دینے پر تُلے ہوئے تھے، زبان کو جیسے بچپن کی ساری چغلیوں کا خمیازہ درپیش تھا کچھ اس طرح کلبلا رہی تھی جیسے کوئی سانپ چھڑی کی نوک تلے دب کر کسی منچلے کے ہتھے چڑھ گیا ہو اور مسلسل پھنکا رہا ہو اورمعدے بیچارے کا یہ عالم کہ جیسے گرم تنور میں کوئی پانی کے چھینٹے دے رہا اور یہ چھینٹے اُس تازہ ہوا کے تھے جو خدا جانے ناک سے کن حالات میں ہمارے پھیپھڑوں اور ہمارے معدے کی راہ پا رہی تھی ان غیر مرئی زخموں کی تاب نہ لا کر ہم نے اُس شبِ سیاہ کی سحر کیسے کی۔ اس کا کچھ ادراک انہیں ہو تو ہو ہمیں رات بھر اس امر کی سدھ نہ تھی۔

ہم نے جوں توں کر کے اس رات کی سحرتو کر لی لیکن آنے والی شام بھی ۔۔۔ اگر اتنی ہی سہانی تھی جتنی کہ شامِ گذشتہ تو ہمارے باقی ماندہ دَلدّر ازخود ہی دھل جانے کو تھے اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ اگر فتورِاعصاب کا روگ سہیڑنے میں ہمیں اتنے برس لگے تھے تو یہ فتور ایک یا دو شاموں کے بیچوں بیچ ہی ہم سے یکا یک بچھڑ جاتا۔ اورجاتی دفعہ دروازے کی کنڈی تک بھی نہ ہلانے پاتا۔ چنانچہ ہم نے نئے مکان میں اپنے قیام کی بقا کا ایک ہی حل تلاش کیا اور وہ تھا چُلھے چوکے کی حد تک اپنے ہم اطاق سے علٰیحدگی سو اُس ون یونٹ کے ٹوٹنے کے فوراً بعد اگلی شام ہم اپنے نو خریدہ سازورخت کے ساتھ بکفچۂ خویش ہانڈی پکانے میں سرتاپا غرق تھے ۔اور پھر اسی طرح جانے کتنی شامیں یونہی غرق رہے۔

ہم جس مکان سے اپنی ہم نفسی کا رشتہ جوڑ چکے تھے اس کا ایک جڑواں بھائی اور بھی تھا،اندر کا حال تو خدا ہی کو مُعلوم تھالیکن باہر کے دروازے جو بہرحال دونوں مکانوں کے چہرے مہرے تھے ایک دوسرے سے اتنے مشابہ تھے کہ اتنی مشابہت بعد میں ہمیں اپنے احباب اصغرنیازی اور اجمل نیازی میں بھی نظر نہ آئی جن سے ابتدائی تعارف کے دوران ہم ایک بھائی کے حصے کی گفتگو دوسرے سے اور دوسرے کے حصے کی گفتگو پہلے بھائی سے کرتے ہُوئے اکثر ٹوک دئے جاتے رہے ۔

ایک دِن دوپہر کو خدا جانے ہمیں کیا سوجھی۔ سکول سے چھٹی تھی اور گھر میں بیٹھے بیٹھے جی اکتانے سا لگا تو ہم نے بیرونِ دیہہ ملحقہ کُھدر کا رُخ کیا، وہاں پہنچے تو ہُو حق کے عالم میں فاختاؤں کے نغموں اورپُھلاہیوں کی دَرُشت شاخوں سے گزرتی نرم ہوا کی شاں شاں سے کچھ ایسے سیرگوش ہوئے کہ ہماری تخلیقی حس کئی دنوں تک نمک مرچ کے ذائقوں میں ملوث رہنے کے بعد جیسے ’’اچن اچان‘‘ بیدار ہو گئی اور اُس نے ہمیں کچھ اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ ہم گھر لو ٹے تو اپنی تخلیق کا سحر پوُری طرح ہمیں اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھا اور اس سحر نے اپنا کرشمہ یوں دکھایا کہ جس کمرے میں دو چارپائیاں اور ایک ایک بستر بچھا تھا اور با قی کمرہ بھوکے ہاتھی کے معدے کی طرح ابوالہول بنا رہتا تھا۔ وہاں چار پانچ چارپائیاں بڑے سلیقے اور قرینے سے بچھی دیکھیں، سامنے کی دیوارکوری بُسی ہونے کی بجائے رنگارنگ رکابیوں، ٹریئوں، موتیوں کی لڑیوں اور آویزاں کا غذی گلدستوں سے سجی ہوئی تھی۔ کمرے کا فرش جسے تازہ مٹی سے لیپاپوچا گیا تھا،…بھینی بھینی مہک سے دُکانِ عطارکو بھی مات کر رہا تھا اور ہم نے کہ عالمِخواب ۔۔۔۔۔اور تخلیقِشعر کی کیفیت میں سراسرمحوتھے اُس کمرے کے حسن و زیبائش کو بھی اسی عالم کا ایک حصہ تصور کیا اوربڑے استغراق سے ایک چارپائی پرنیم دراز ہو کر اپنی نوواردغزل کے اُن اشعارکو پچکارنا شروع کردیا جوابھی معرض وجود میں نہیںآپائے تھے۔ لیکن یکا یک کمرے کا دروازہ، روزنِ فردوس کی صورت اختیار کرنے لگا۔ سمندر سے اُٹھنے والی بے قابو لہر تھی یا کسی دائرے میں کِھلے پھولوں کے درمیان سے خوشبو کا اٹھتاہوا ہُلہ،کہکشاں سمٹ کر زمین پر اُتر آئی تھی یا موسمِ بہار کی رانی قبل ازوقت عالمِ خواب سے عالمِ بیداری میں ہمارے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ ہماری نگاہ میں یہ سارے منظر ایک ہی لمحے، ایک ہی پیکر کی صورت میں لہرا گئے اور جب ہم نے

کھول آنکھ، زمیں دیکھ فلک دیکھ، فضا دیکھ

کو اپنے اوپرمنطبق کیا تو منظر کچھ اور ہی تھا۔ ہمارے کانوں میں ایک غزالِ رعنا کی شیرینٔی ٔآواز خدا جانے کس قبیل کا رس گھول رہی تھی۔

’’ماسٹر جی! خیریت تو ہے، یہاں سے چلتے بنیے اس لئے کہ مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ گھر والی تنور پہ گئی ہے اور بس آتی ہی ہو گی، چلیے چلیے اٹھیے اور ہاں! یاد رکھیے آ پ کا دل ایسا ہی بے قابو ہے تو اسے کچھ آداب بھی سکھائیے۔‘‘

اُس صنفِمخالف کا سلسلۂ کلام جاری تھی لیکن ہمیں تو ایک انجانے خوف نے جیسے سوڈے کی بوتل کے کارک کی طرح اس خواب ناک ماحول سے دھول اڑاتی گلی کے حلق میں دے مارا، اور جب حواس کچھ بجا ہوئے تو ہمارے مکان کا نکھٹو دروازہ…… ہمیں اسی دروازے کے پہلو سے پھوٹتا دکھائی دیا جس میں ہم یُوں سما گئے تھے جیسے کوئی بیج کھیت کی خاک کا لقمہ بن جاتا ہے۔

غالب نے جو کچھ کہا شاید ہمارے لیے ہی کہا تھا۔

ہم وہاں ہیں جہا ں سے ہم کو بھی

کچھ ہماری خبر نہیں آتی

ماجد صدیقی

گربہ کشتن روز اوّل

اگلا دن ہماری تنخواہ داری کا دوسرا لیکن بالعمل ملازمت کا پہلا دن تھا سکول پہنچے تو جیسے ہمیں اپنے سکول کا زمانہ یاد آگیا (جسے گزرے ابھی بہ مشکل دو اڑھائی برس ہی ہوئے تھے) چنانچہ تمام تر احتیاط کے باوجود بار بار جی یہی چاہتا کہ چپکے سے اساتذہ کی ٹُکڑی سے نکل کر طلبا کے جمِ غفیر میں ضم ہو جائیں لیکن اب تو جو کچھ ہونا تھا ہو چکا تھا کہ ہم بغیر ظاہری علاماتِ بزرگی کے (ہماری مراد یقیناً داڑھی مونچھوں وغیرہ سے ہے) باقاعدہ استاد قرار دئے جا چکے تھے، چنانچہ اس طفلانہ احساس پر پہلے ہی روز قابو پانے کی بھرپور اور کسی قدر کامیاب کوشش کے بعد رجسٹر معلمین میں اپنے نام کے اندرا ج پر ہی مکتفی ہو بیٹھے۔

رئیس مکتب سے ہماری پہلی ملاقات بھی اُسی روز ہوئی اور موصوف نے ہمیں دیکھتے ہی ہم سے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا۔

’’آپ آگئے! کس گَیل آئے؟‘‘

ہم آتو گئے تھے لیکن آئے کس ’’ گَیل‘‘ تھے جملے کے اس حصے کا جواب ایک بچگانہ مسکراہٹ کے سوا ہمارے پاس کچھ نہ تھا جس کا مختصر جواب ہمیں وقتی طور پر وہی سوجھا جو کسی بھی غیرحاضر دماغ فرد کو سوجھنا چاہیے یعنی یہی کہ ’’اپنے نصیبوں کے ہمراہ‘‘

ہمیں ہمارا ٹائم ٹیبل ملا جو ایک لحاظ سے سکول بھر کا نصف ٹائم ٹیبل تھا کہ سکول بھر میں دو ہی انگریزی ماسٹر تھے، ایک ہم اور ایک وہ جو ہم سے پہلے اس راجدھانی میں موجود تھے۔ چنانچہ ہم نے اپنا ٹائم ٹیبل سنبھالا اور یکے بعد دیگرے گھنٹی کے بجنے کے ساتھ ساتھ ایک سے دوسرے اور دوسر ے سے تیسرے کمرے میں بلاتوقف گُھستے چلے گئے۔ لیکن ابھی ہم نے تیسرے کمرے میں قدم ہی ٹکایا ہو گا کہ یکایک رئیسِ مدرسہ کے کمرے میں ایک دھماکہ ہوا۔ یہ دھماکہ آج کے بعض دھماکوں سے تو قطعی مختلف تھا کہ اس سے متاثر ہونے والی کوئی عمارت یا کسی جلسے کے متعدد افراد نہ تھے، بلکہ صرف دو اشخاص تھے۔ ایک رئیسِ مدرسہ خود اور دوسرے ہمار ے زیادہ سگے رفیقِٰ کار، یعنی دوسرے انگریزی ماسٹر صاحب اور وہ دھماکہ اُن گرما گرم الفاظ کا گرما گرم تبادلہ تھا۔ جو ان دونوں حضرات کے درمیان ہو رہا تھا، اس دھماکے کو پہلے تو ہم نے اپنے حق میں استقبالیہ دھماکہ گردانا اور یہی خیال کیا کہ رئیسِ مدرسہ’ گُربہ کشتن روز اوّل‘ کا بالقصد ریہرسل فرما رہے ہیں لیکن اگلا دن طلوع ہوا تو سکول بھر کی فضا ایک سنسنی سے دوچار تھی اور سنسنی اس امر سے پیدا ہوئی تھی کہ رئیسِ مدرسہ نے انگریزی ماسٹر صاحب سے پچھلے روز کی تکرار سے پیداشدہ تکان اتارنے کے لئے نہ صرف یہ کہ درخواست رخصت ارسال کی بلکہ استادی ٔعُظمیٰ ہی کو اپنی ذات سے نوچ پھینکا یعنی اپنا استعفیٰ بھجوا دیا جسے منطقی طور پر تو متعلقہ حکامِبالا تک بھجوا دیا جانا چاہتے تھے لیکن سٹاف کے کچھ بزرگ اور صاحبِاولاد اساتذہ نے کچھ دیر تک سر جوڑے رکھنے کے بعد فیصلہ یہ کیا کہ کچھ حضرات پر مشتمل ایک وفد ہیڈماسٹر صاحب کے پاس جائے اور انہیں اِس انتہائی اقدام سے باز رہنے کی استدعا کرے۔

یوں تو اس وفد کو سکول کے ابتدائی اوقات ہی میں اپنے مشن پر رخصت ہو جانا چاہئے تھا لیکن ہ وفد بہ ہزار دِقّت، عین بارہ بجے سکول سے روانہ ہوا جس کا اصل سبب اب تک آپ کی سمجھ میں آ جانا چاہئے…… کہ اس وفد میں ان صاحب کا ہونا از بس لازم تھا جن کی نادانی یا نوجوانی کے باعث یہ ساری بدمزگی پیدا ہوئی تھی اور یہ صاحب وہی ناعقبت اندیش نوجوان تھے جنہوں نے اپنے افسرِمجاز کے سامنے لب کشائی جیسے جُرم کا ارتکاب کیا تھا اور اب اس وفد کی تیاری کا انحصار ان ہی صاحب کے پچھلے روزکا غصہ تھوک دینے پر تھا، جو انہوں نے اپنے تمام تر زورِ شباب کے باوجود بالآخر برادری کی دوچار گھنٹوں کی تکرار کے بعد تھوک ہی دیا۔

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب

گالیاں کھا کے ۔۔۔۔۔ بے مزہ نہ ہوا

وفد اپنے مشن پر نکلا تو ہم تو جیسے سحرزدہ سے ہو گئے لیکن اِدھر اُدھر سے کافی دیر کے رُکے ہوئے قہقہے بلند ہوتے دیکھ کر ہمیں کچھ تسلی بھی ہونے لگی کہ ہو نہ ہو یہ اونٹ اسی کروٹ بیٹھتا آرہا ہو گا چنانچہ استفسار پر بھی کُھلا یہی کہ اس طرح کے واقعات ادارہ ہٰذا میں آئے دن وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لہٰذا اس پر متعجب ہونے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔

روٹھے پِیا تو من کر آگئے، لیکن ہمارا اپنا منوا کچھ کچھ گڑ بڑانے لگا اور ہمہ دم خیال یہی رہنے لگا کہ اگر انہی سربراہِ ادارہ کے ساتھ گزر بسر کرنی ہے تو ملازمت کے جملہ آدابِکورنش کو ہم غٹاغٹ کیسے نوشِ جان کر سکیں گے لیکن ہوا یہ کہ… حضرت کچھ کچھ ہم مذاق نکلے یعنی ایک جانب جہاں وہ اپنی پہلوانانہ کسرتوں کے باعث دیہہ بھر میں مشہور تھے وہاں دوسری جانب اندر سے اُسی قدر ملائم اور گداز ہونے کا دعویٰ بھی رکھتے تھے جس کا ایک ثبوت تو انگریزی ماسٹر صاحب سے تکرار کے باعث ان کا ادارہ بھر سے روٹھ جانے کے بعد فوراً ’’من‘‘ جانا تھا، دوسرا ثبوت یہ سامنے آیا کہ خیر سے فنِ شعر گوئی سے بُری طرح وابستہ نکلے۔ اگرچہ ایسا تو کم ہی ہوا کہ خلافِ روایت ایک ’’باس‘‘ اپنے ادنیٰ ماتحت کو اپنی تخلیقات سے نوازتا لیکن یہ فرمائش گاہ گاہ ضرور ہوتی رہی کہ ہم انہیں اپنا کلام سنائیں بلکہ اگر ہو سکے تو کسی طشتری میں رکھ کر پیش کریں لیکن اس طرح کا کوئی نا خوشگوار واقعہ اس لئے نہ ہونے پایا کہ ہمیں اردو شاعری سے گو برابر کی نسبت تھی لیکن زیادہ واویلا ہم نے اپنی پنجابی شاعری ہی کا کر رکھا تھا اور پنجابی زبان سے اُنہیں کداِس لئے تھی کہ ان کا جملہ ماتحت عملہ اگر کسی اعتبار سے اہلِ زبان ہو سکتا تھا تو وہ اِسی ایک زبان میں تھا۔ ہر چند موصوف بھی لکھنو یا دلی کی دُھلی دُھلائی اردو سے پیدائشی محروم تھے کہ انبالہ کایاکرنال کا جم پل تھے، تاہم اپنی اردوئے معلیٰ کو پنجابی زبان پر دن میں درجنوں بار ترجیح دیتے نظر آتے اور یہی حسنِاتفاق ہمارے حق میں باعثِرحمت ثابت ہو اکہ ہم بحیثیت شاعر اگرچہ ان کے دل کے قریب رہے لیکن ہمارا فن کسی بھی طرح ان پر کھلنے نہ پایا ورنہ یہ بات حدِامکان کے عین اندر تھی کہ اِس میدان میں ان کا اور ہمارا بھی چھوٹا موٹا دنگل ضرور ہو جاتا بلکہ خدا کا شکر ہے کہ ایک بار بہت بعد میں ہوتے ہوتے رہ گیا جس کا ذکر اگر ضروری ہوا تو آئندہ کیا جائے گا۔

ماجد صدیقی

ملازمت کی سہاگ رات

کانجی ہاؤس کے دونوں یونٹ (ہماری مراد اس کے اجزائے ترکیبی سے ہے) ایک ایک ذی نفس سے آباد تھے۔ ایک کمرے میں ہم تھے اور دوسرے میں ہمارے ہم ذوق اور میزبان ماسٹر صاحب ۔۔۔۔ ماسٹر صاحب کے کمرے سے تو پھر کسی وقت پھنکارنے ، کبھی کھنگارنے( یعنی کھا نسنے اور دھواں نگلنے اگلنے) اور گاہ گاہ زیرِلب گنگنانے یا بڑبڑانے کی صدا اُبھرتی مگر ہم کہ تازہ تازہ اسیرِ کانجی ہاؤس ہوئے تھے اپنے ماضی و مستقبل کو اپنے کندھوں پہ بٹھائے اپنی اسیری کی پہلے دن کی تلخی اور ساتھ کے کمرے سے رات کی رانی کی طرح پھیلے ہوئے گیلی لکڑیوں کے گیلے دھوئیں کی کڑواہت میں سرتاپا غرق اس امر کے منتظر تھے کہ کب ماسٹر صاحب اپنے فرائض غیر منصبی سے فارغ ہوں اور کب بقولِعدم اس مرگ آسا مصیبت سے نجات ملے۔

کوئی پھول چٹکا ؤ‘ کوئی جام کھنکاؤ

مستقل خموشی تو ‘موت کا علامت ہے

لیکن جس طرح دیہاتوں میں بچے کی پیدائش کے وقت دایہ ۔۔۔۔۔زچہ کے کمرے میں گھس کر ایک طرح سے اس کمرے کی الاٹمنٹ کی بجائے اس کا کلیم داخل کرا بیٹھتی ہے اور باہر والے کان لگائے لمحے لمحے کے دل کی دھڑکن سنا کرتے ہیں کُچھ ایسا ہی رشتہ اس سمے ہمارے اور ماسٹر صاحب کے درمیان استوار تھا دونوں کمروں کا وسطی دروازہ کسی نوبیاہتا دلہن کے ہونٹوں کی طرح بھنچا ہوا تھا شاید اس لئے کہ ماسٹر صاحب اپنی یکسوئی میں کسی قسم کی مداخلت کے متحمل نہ تھے البتہ جس طرح پہلے مذکور ہے ہمارے ساتھ ان کا نشریاتی رابطہ برابر بحال تھا یعنی گیلی لکڑیوں اور اُپلوں کا لیس دار دھواں بڑی روانی سے ہم تک پہنچ رہا تھا جو اِس بات کی علامت تھا کہ ماسٹر صاحب ہنوز فرائضِمیزبانی سے فارغ نہیں ہیں لیکن جب پورے دو گھنٹے گزرنے کو آئے تو ماسٹر صاحب نے اچانک اپنی کامیابی پر بلغمی مزاج کا ایک زوردار کھنگورا داغا اور کپڑوں کو جھاڑتے ہوئے اپنے اطاق سے جو ب بہ یک وقت کچن ،سٹور روم،غسل خانہ اورجانے اور کیا کیا کُچھ تھا براآمد ہوئے اور چھوٹتے ہی کہنے لگے ’’اب ذرا تھوڑی سی آکسیجن نہ کھا لی جائے۔‘‘

ہم نے اُن کے اِس طبی اور سائنسی جملے کا مفہوم کسی بھی بد حواس آدمی کی طرح یہی لیا کہ ماسٹر صاحب غالباً سیر کی فرمائش کر رہے ہیں۔جو ازروئے اتفاق صد فیصد دُرست نکلا (ورنہ آکسیجن کا نام وہ اپنی شیریں سخنی کو بھی دے سکتے تھے )ہم نے ان کی فرمائش بہ دل وجان پھپھڑوں کی حد تک قبول کی اور آکسیجن کھانے چل نکلے۔

کانجی ہاؤس سے نکلے تو ہم پر سراسر اُسی احساسِ نجات کے ترشح کا غلبہ تھا جو کسی بھی ذی نفس کو کسی ایسی جگہ سے نکلنے پر ہونا چاہئے لیکن ہماری نسبت یہ احساس ماسٹر صاحب پر کُچھ زیادہ ہی غالب نظر آیا۔ گاؤں کے جوار ہی میں ایک طول طویل کُھدر تھی۔ ماسٹر صاحب آکسیجن کے اس خوان کو سامنے پا کر کُچھ اس طرح مچلے کہ انہوں نے تو جیسے نوخیز بچھڑوں کو بھی مات کر ڈالا بلکہ دوڑتے کودتے پھلانگتے ہمیں کُچھ اس طرح گھسیٹنے لگے جیسے وہ سچ مچ کے غزال تھے اور ہم ایک تھکے ماندے بکروٹے جنہیں ان کے ساتھ نتھی کر دیا گیا تھا یہ تو اچھا ہوا کہ غروبِآفتاب کا وقت قریب تھا ورنہ خدا جانے وہ اس ادائے غزالی کی اور کیا کیا باریکیاں ہمیں سمجھاتے ۔

سیر سے لوٹے تو ماسٹر صاحب کے اعصاب میں اگر چہ ٹھہراؤ تھا لیکن زبان کی رفتار میں وہی برق رفتاری جو سیر کو جاتے ہوئے اُن کی ٹانگوں میں یکایک عود کر آئی تھی ۔ حاصلِ کلام یہ کہ وہ ہمیں راستہ بھر نکاح کے کلموں کی طرح یہی بات رٹاتے آئے کہ ہماری صحت کی خرابی کا اصل باعث بہر صورت ہماری تساہل پسندی ہے۔ جسے انہوں نے پہلی ہی نظرمیں بھانپ لیا تھا اور جسے و ہ چند ہی ایّام میں دور کر دینا چاہتے تھے اس دوران ہماری زبان پر ایک سوال آتے آتے جانے کیوں رُک رُک جاتا رہا کہ اگر ہماری خرابیٔ صحت کا باعث ہماری سہل انگاری ہے تو آپ کے چہرے کا خاکستری پن کس کج ادائی کا کرشمہ ہے اور اچھا ہوا کہ ہم نے یہ سوال ان سے نہ ہی کیا ورنہ اُن کی تند خوئی اور تنک مزاجی کی جو جو خبریں ہمیں بعد میں ملیں وہ اگر صحیح تھیں تو ہم نے اپنی ملازمت کی سہاگ رات کانجی ہاؤس کی بجائے یقینا کسی مسجد میں بسر ان کرنی تھی اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس لیے کہ ہم نے تھوڑی دوراندیشی سے کام لے لیا۔

کُھدروں سے ہو کر کانجی ہاؤس پہنچے تو ماسٹر صاحب کی اشتہا جس قدر چمک اُٹھی تھی کھانے کے بارے میں ہمارے عزائم اسی قدر پست ہو چکے تھے کانجی ہاؤس کے صحن میں داخل ہوئے تو اندھیرے کی مسیں بھیگ رہی تھیں کمروں کے قریب پہنچے تو ماسٹر صاحب کا ایک سعاد مند شاگرد اپنی بغل میں چپاتیاں دبائے کانجی ہاؤس کے گوشے میں درود شریف پڑھتا دکھائی دیا۔ جس کے فرائض میں نہ صرف روٹیاں لانا بلکہ ہمارے بستر بچھانا ،ہمارے ہاتھ دھلانا،ہمیں کھانا کھلانا اور برتن وغیرہ دھونا جیسے سارے مراحل بہ یک وقت شامل تھے ہم نے اس طفلک کی جانِ ناتواں پر یہ بارِ گراں دیکھا تو ماسٹرصاحب سے اس زیادتی پر زیر لب احتجاج بھی کیا جس کا مختصر اورجامع جواب انہوں نے نہایت استغناء سے وہی دیا جب مدّتوں سے رائج ہے۔ یعنی یہ کہ

ہر کہ خدمت کراُو مخدوم شُد

ظاہر ہے اُن کے اس متّبحرانہ جواب پر ہمیں بہر حال خاموش ہو جانا چاہئے تھا۔ سو ہم ہو گئے جہاں تک کڑھی کی پُخت و خورش کا تعلق تھا اس کے جملہ حقوق ماسٹر صاحب ہی کے نام جانیے، اس لئے کہ چھٹانک بھر سونف اور چھٹانک بھرا جوائن میں دو سیر پانی پورے یکصدوبِست منٹ تک ایک خاص احساسِ ریاضت سے اُبالا گیا تھا جس کے اوپر تلافیٔ مافات کے طور پر گھی کی ایک ہلکی سی تہہ بھی جما دی گئی تھی ہمارے لئے مہینے بھر کا یہ راشن ایک ہی شام ختم کرنا بالفعل ناممکن تھا، لہذا یہ کار مرداں ہم نے انہیں ہی سونپا اور شیرینیٔ کام و دہن ( جسے عرفِ عام میں لعابِ دہن اور سلیوا Sliva وغیرہ بھی کہتے ہیں) کی مدد سے ایک آدھ چپاتی نوشِ جان کر ڈالی پہلے سے بچھے ہوئے بستر پر دراز ہو کر کچی پکی نیند کے مزے لینے لگے اور بقول ریاض خیرآبادی‘ جوں توں کر کے آنے والی صبح کی دہلیز تک پہنچ گئے۔

صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور

نکلے جو میکدے سے تو ‘ دنیا بدل گئی

ماجد صدیقی

رُخصتی…… یُوسفِ با کارواں کی

عسکری علاقے سے متعلق ہونے کے باعث ہمارے یہاں یہ روایت آج بھی عام ہے کہ کوئی جوان جب بھی فوج میں ’’نانواں‘‘ لگوا کر جاتاہے اُس وقت سے اُس کی فطری یا جبری ریٹائرمنٹ کے عرصے تک اُس کی رسم مشایعت بڑے یادگار انداز سے ادا کی جاتی ہے جس کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہو سڑک پر جاتی کوئی بھی بس اُس یوسف باکارواں کو لے جانے کے لالچ میں اپنی انتہائی تیزرفتاری کے باوجود ضرور رُک جاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ خداوندانِ بس کے حریصانہ طور پر رکنے پر بھی۔

جو چیرا تو اک قطرہ ٔخون نکلا

والا منظر بس والوں کو دیکھنا پڑتا ہے کہ اُس جلوس میں سے بس والوں کا ساتھی (یعنی سواری)صرف ایک ہی ہوتا ہے چنانچہ ہم کہ اپنے علاقے کی عسکر یانہ روایات کو توڑکر جا رہے تھے۔ باوجود اس روایت شکنی کے جب سفرِتعلیم و تدریس پر وانہ ہوئے تو اس رسم مشایعت سے ہرگز محروم نہ ہونے دئیے گئے اور جہاں اہلِمحلہ کو ہمارے برسرِروزگار ہونے کی اطلاع بتاشوں اور ریوڑیوں کی صورت میں مل چکی تھی وہاں گاؤں کے دوسرے لوگ بھی ہمیں رخصت کرنے والے جلوس کے ذریعے ہماری اس سعادت مندی سے آگاہ ہو گئے۔

ہمارا موجودہ سفر… ظاہر ہے بیرونِملک کا سفر نہ تھا بلکہ اندرونِ ملک کا بھی نہیں کہ کراچی کے کسی مکین کو چالیس میل کا یہ سفر بطور سفر تسلیم کرانا پڑے تو شاید وہ مدّعی کی ذہنی بلوغت پر ہی شک کرنے لگے تاہم ہمیں یہ چالیس میل ایک تو اس لئے چالیس صد میل لگے کہ؎

اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتارہم ہوئے

یعنی بہ فکرِخویش بے عمر ہی ملازمت میں جُھنک چلے تھے، دوسرا اس لئے کہ اُن دنوں (اور یہ صرف اٹھارہ بیس سال ادھر کی بات ہے) دنیاکے غبارے کی ہوا اس طرح نہیں نکلی تھی، جیسی صورت اب ہے خلائی شہزادوں کو پریس کانفرنس بھی کرنا ہوتی ہے۔ تو وہ یہ شوق کرۂ ارض سے سینکڑوں میل دور جا کر پورا کرتے ہیں جبکہ ہم ایک ایسے گاؤں سے متعلق تھے جس کے بعض بڈھوں نے اپنی آنکھوں سے ریلوے لائن تک کی زیارت نہیں کی تھی اور تیسرا یوں کہ ہمارے سفر کا راستہ ہی دو پہلو طرز کا تھا کہ اٹھائیس میل تو بس اور پکّی سڑک کے ذریعے طے ہوتے تھے لیکن باقی بارہ میل کا پندھ کسی کیرئیر اور کچی سڑک یا ٹرین کے ذریعے طے کیا جا سکتا تھا چنانچہ ان حالات میں دوپہلو طرز کے اس سفر کی گرانی اگر ہمیں محسوس ہوئی تو کچھ ایسی بے جا نہ تھی۔

ہم نے رختِسفر باندھا لیکن نہ اُس طرح جیسے زمانۂ طالب علمی میں لاہور جانے کے لئے باندھا تھاکہ سانپ کے ڈرسے اب رسی سے بھی ڈر رہے تھے اور اُس اٹیچی کیس سے خاصے محتاط تھے جس کے محض دستے کی عدم موجودگی نے ہمیں لاہور بدر کر دیا تھا۔لہٰذا اب کے ہم نے ایک بیگ ہی میں اپنا سارا سامانِ حیات کھپایا اور بس میں سوار ہو گئے لیکن جب اٹھائیس میل کے بعد کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا تو خیر سے خاصا صبرآزما نکلا اس لئے کہ اُن دنوں جو ٹرین ہماری نئی نئی منزلِ مقصود تک جاتی تھی اُس کی روانگی کے اوقات یا تو سراسر زوال پذیر تھے کہ دن ڈھلے ہی اُدھر کا رُخ کرتی۔ یا پھر زیادہ ہی ترقی پذیر کہ اُس کی روانگی کا دوسرا (یا شاید پہلا) وقت بارہ مہینے ماہِ رمضان کی سحری کے ریہرسل کے خیال سے مقرر کیا گیا تھا لیکن بحمداﷲ کہ ہمیں جو ٹرین درپیش تھی وہ اوّل الذکر تھی جسے ہم نے ریلوے سٹیشن پر تین گھنٹے تک دیدہ و دل فرشِ راہ کرنے کے بعد پکڑا تب کہیں چوتھے گھنٹے کے خاتمے پر ہم اپنی منزل مقصود پر تھے۔ سکول پہنچے تو وہاں بھی زوال اپنے عروج پر تھا۔ کہ اِدھر ہم نے سکول کی چاردیواری میں قدم رکھا اور اُدھر‘ سکول کے دمِ واپسیں نے اپنی مخصوص ٹن ٹن سے ہمارا استقبال شروع کر دیا۔ جسے ہم نے اکیس توپوں کی سلامی سمجھا یا جانے کیا سمجھا طلبائے مدرسہ کے حق میں ہماری آمدبہرحال ایک نیک شگون ثابت ہوئی۔

طلباء کے ہجوم کو چیرتے ہم اسکول کے دفتر میں پہنچے تو وہاں ایک اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا اور وہ اس لئے کہ سارا سٹاف رجسٹر معلمین پر جھکا اپنی دہاڑی کھری کرنے کے در پے تھا سکول میں ہماری آمد چونکہ بذریعہ احکامات متوقع تھی لہٰذا تعارف کا مرحلہ یکطرفہ ہی رہا اور جب یہ سارا کُچھ ہو چکا تو ہم نے میرِ مجلس سے مصافحہ کی ٹھانی ۔ لیکن استفسار پر پتہ چلا کہ وہ تو کو ٹھے گئے ہیں لفظ کو ٹھے نے ہمیں ایک پل تو شکوک و شبہات کی وادی میں دھکیل دیا لیکن حفظِ مراتب کے خوف سے دوسرے پل ہم نے جو قدرتی حرکت کی وہ یہ تھی کہ کمروں کے اوپر’’ اوکڑنے ‘‘ لگے جس پر ایک صاحب نے ہمیں اُلجھن میں دیکھ کر فرمایا ’’نہیں صاحب !کوٹھہ ایک گاؤں کا نام ہے۔ آپ ان کی غیر موجودگی سے پریشان نہ ہوں آپ کے لئے انہوں نے یہ اجازت پیشگی دے رکھی ہے کہ اگر آپ شام کی گاڑی سے پہنچ جائیں تو آپ کا آج کا دن آپ کا ملازمت کا پہلا دن قرار پائے گا‘‘ اور پھر رجسٹر معلمین ہمارے ہاتھ میں تھمایا جس پر ہم نے بقلم خود اپنا نام درج کیااور صبح و شام کی حاضری ثبت کر دی۔

ا اور اب دوسرا مرحلہ۔۔۔ قیام و طعام کا مرحلہ تھا جس کا حل اس سے بھی زیادہ فوری نکلا اور ہمیں ایک’ چَھڑے ‘ماسٹر صاحب سے لٔف کر دیا گیا ہم نے پہلی ہی نظر میں انہیں دیکھا تو ہمیں اپنی ملازمت کی چادر اپنے پیروں سے کُچھ چھوٹی ہی دکھائی دی کہ جو چادر انہوں نے اوڑھ رکھی تھی ہماری مُراد ان کے لباس سے ہے۔ اس پر کُچھ اس طرح نادم ہو رہے تھے کہ سکول سے قیام گاہ تک تعارف کے ابتدائی مرحلوں ہی میں ۔۔۔۔وہ بار بار زیادہ زور جس بات پر دیتے رہے۔ یہی تھی کہ انہوں نے اس طرزِ پو شش کو محض شعائرِاسلامی کے طور پر اپنا رکھا ہے۔ ہم نے ایک آدھ بار زیرلب ۔۔۔۔اسلام پر اُن کی اس صریحاً الزام تراشی کے خلاف کُچھ کہنا بھی چاہاتو ان کی زبانِ توانا‘ فلور مل کے گھگو کی طرح کُچھ اس تیزی سے چلتی پائی کہ ہماری بات کو ابھرنا ہی نصیب نہ ہوا، خوش لباسی یا بد لباسی کا تعلق تو ذوقِ لطیف کے علاوہ رزقِ خفیف سے بھی ہو سکتاتھا حادثہ یہ تھا کہ فطرت نے بھی جیسے ان سے کُچھ زیادہ ہی ناانصافی برتی تھی،کَج خطوط تو ہم بھی خاصے تھے لیکن اس میدان میں اگر ہم تھرڈڈویژنر تھے تو وہ یقینا اسکالر شپ ہولڈر کا درجہ رکھتے تھے ۔ ۔ ۔لیکن قارئین کرام! ان کا یہ جائزہ تو کُچھ سسرالی قسم کا نہیں ہو چلا ہے؟ معذرت چاہتے ہیں حضرات۔ آئیے اب ذرا آگے چلتے ہیں۔

ماسٹر صاحب کی اقامت گاپہنچے تو دروازہ کھلتے ہی ہم نے ایک چاٹ دیکھا جس پر بحروفِ جلی لکھا ہوا تھا:

کسی دن ‘ادھر سے گزر کر تو دیکھو

بڑی رونقیں ہیں فقیروں کے ڈیرے

ہم نے یہ شعر پڑھا تو ہمیں یوں لگا جیسے یہ جنّتِ ارضی ہماری ہی منتظر تھی کہ ماسٹر صاحب ہم پیشہ تو تھے ہی ہم ذوق بھی نکلے ہم نے اُن کے ذوقِ سخن کو کریدا تو کسی قدرچِڑ کر کہنے لگے ۔’’ شعر وِعر‘‘ سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں یہ شعر تو ہمارے ایک دوست نے مکان ہذا کی ہئیت کذائی کے پیش نظر شرارتاً یہاں ٹانک دیا ہے‘‘۔

یوں تو ہم اس گفتگو کو خاصی طوالت دیتے کہ اس وقت تک کی زندگی میں اگر ہماری کھٹی کمائی کُچھ تھی تو یہی تھی لیکن اپنے ذاتی تعارف کی تفصیل کا یہ وقت نہ تھا اور اگروقت تھا تو یہ کہ رات کو پکایا کیا جائے گا جو اس لمحے اگرچہ ہمارا دردِ سر نہ تھا لیکن ماسٹر صاحب نے ادھر کا رُخ کیا تو احتراماً ہماری رائے بھی طلب کر لی چنانچہ ہم کہ تین چار ماہ سے ’’نکّالَون‘‘ یعنی کڑھی وغیرہ کھانے کے بالہدایت پابند تھے فرمائش کئے بغیر نہ رہ سکے۔ اور فرمائش کی بھی تو سونف ، اجوائن کی کڑھی کی جسے انہوں نے اپنے معمولات اور طبیعت کے عین موافق پایا اور متروکہ کانجی ہاؤس اور موجودہ استاد خانہ کے دوسرے کمرے میں گُھس گئے۔ اس لئے کہ ہماری فرمائش پوری کرنے کے لئے انہیں جس خشک رسد کی ضرورت تھی غالباً وہ رسد انہوں نے پہلے ہی سے وافر مقدار میں اپنے ہاں سٹاک کر رکھی تھی۔ ہم نے دوسرے کمرے میں جھانکا تو مکان اور مکین کو ایک جیسا پایاکہ کمرے کی چھت اور ہمارے میزبان کی قامت دونوں میں بہت کُچھ مشابہ نظر آیا جسے ضمیر جعفری کی زبان میں یوں بھی کہہ لیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو ۔

جو چیز چاہیے تھی جہاں پر۔۔۔ ۔وہیں نہیں

چھت بے تکلفی میں‘کہیں ہے‘ کہیں نہیں

ماجد صدیقی

جِس دی ہتھ جِس دی بانہہ آئی

ہمارے سپلیمنٹری امتحان کا نتیجہ صد فیصد غور یا نہ بلکہ جدید تاریخی اصطلاح میں ’مانک شاہانہ‘ رہا۔ ہر چند ہم نے وہ مانک شاہی طریقے ہرگز استعمال نہ کئے جو آج کل امتحانات میں تھوک کے حساب سے مرّوج مشہور ہیں۔ (یعنی یہی کہ سپرنٹنڈنٹ امتحانات کو گھیر گھار کے اپنے نرغے میں لے لیا جائے اور جب وہ پھڑکنے تک نہ پائے تو چپکے سے اپنی منشا کے مطابق اپنی زندگی کی پراگریس رپورٹ میں اپنی بے مثال فتح کا اندراج اس سے کرا لیا جائے) تاہم امتحان اور نتیجے کے اعلان میں جو بُعد اُن دنوں مروّج تھا اور شاید اب بھی ہو ہمیں ضرور بھگتنا پڑا۔ ہم کہ آغازِ سفر ہی میں اپنے کارواں سے پَچھڑ گئے تھے اور

یک لحظہ غافل بودم و صد سالہ منزل دو رشد

کے عملی تجربے سے دوچار تھے، ہمارے اندر کی دنیا بھلا پُرسکون کیسے ہوتی ۔سو نتیجے کے اعلان تک کا عرصہ ہمارے دل و دماغ میں بیک وقت جغرافیائی و انتقادی اصطلاح کے مطابق شکست و ریخت کی جو کیفیت پیدا کر رہا تھا، ہمارے اعصاب اُس کے متحمل نہ ہوئے اور ہم نے اُنہیں اِس کیفیت کا متحمل بنایا بھی تو کچھ اِس طرح… کہ بہر اعتبار نوعمری کے باوصف ہم عارضہ ٔاختلالِ اعصاب میں مبتلا ہو گئے، جسے ہمارے ایک دوست اور… یکے از نو واردان قافلۂ شفا۔۔ حکیم نے بہ تمام دردمندی و نیازمندی اختلاجِ قلب کا نام دے ڈالا اور اپنی ڈیڑھ اینٹ کی آریوویدک فارماسٹیکل لیبارٹری میں تیّارشدہ ۔۔۔۔۔۔اپنے ہرکشتۂ نیم کُشت (یا نیم پخت) کی پہلی چٹکی ہمیں کھلائی اور ہماری جانِ ناتواں پر اُس کشتے کا ردّعمل دیکھ کر اُسے رہی سہی آنچ (جس کی کسر کا اس میں ہر بار رہ جانا ایک فطری امر تھا) دے دے کر ہمارے بعد نوازے جانے والے مریضوں کی جیبیں اور اپنی طبیعت ہلکی کرنے کے جملہ انتظامات بہر لحاظ مکمل کئے

ادھر ہم تھے کہ ان کا اوّلین تختۂ مشق تھے‘ روز بروز اُن کی اِس مشق ناز و نیاز سے اُدھڑتے چلے گئے۔ (کہ خون دو عالم تو کسی کی گردن پر تھا نہیں) تاآنکہ انہوں نے ہمیں اپنے ریکارڈ میں لاعلاج قرار نہ دے ڈالا۔

اُٹھتے ہی شورِسیل نے گم کر دیتے ‘ حو اس

لائے جو ہوش میں وہ تھپڑے تھے آ ب کے

حکیم موصوف کے حلقۂ طبابت سے نکلے تو ایک اور کھجور میں اٹک گئے۔ محلے کی بڑی بوڑھیوں کی تجربہ تجربہ اندوختہ دانائی کا رخ جیسے یکبارگی ہماری جانب پھر گیا چنانچہ ہمارے حق میں فیصلہ یہ ہوا کہ ہو نہ ہو ہم پر یہ اثر کسی نظرِ بد کا ہے۔

ہمارے نزدیک یہ نظرِ بد اگر ہمارے ایف اے کو زہر مار کرنے کے بعد تعلیم یافتہ ہو جانے کے باعث ہمیں لگی تھی پھر تو سراسر خیالی اور فرضی تھی۔ اس لئے کہ اس کا توڑ ثانوی تعلیمی بورڈ نے کمپارٹمنٹ کی صورت میں ہمیں پہلے ہی فراہم کر دیا تھا اور اگر کسی اور سبب سے تھی تو اس کا اندازہ کچھ انہی بڑی بوڑھیوں کو تھا جن کی یہ تشخیص تھی۔

آدمی بھی کہ ہے زندانِ تمنا کا اسیر

کام جو کرنا نہ چاہے ‘وہی ناچار کرے

ہمارا برخوردارانہ فریضہ اگر کچھ تھا تو اس نازک مرحلے پر بس یہی تھا کہ نصابِ طب کے پرائیویٹ امیدوار اور اپنے دوست حکیم کی ابتدائی و انتہائی طبی مشقوں سے جان برہونے کے بعد ہم ان ۔۔’سپیدو سیاہ دیدہ‘ خواتین کے چارہ ہائے بے سُود کا تختۂ مشق بنتے،لہٰذا بقولِ فراز

زخم جتنے تھے وہ سب ‘ منسوب قاتل سے ہوئے

تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون

ہم نے اس فریضے کی بجاآوری میں اپنے دو ہونٹوں سے’ سِی‘ تک نہ کی اور ماشوں تولوں کے حساب سے تعویذوں پر مرقوم طرح طرح کے جیومیٹریکل ہندسوں اور حرفوں کی سیاہی گھول گھول کر پیتے رہے۔

کون سیاہی گول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں

میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی

قتیل شفائی آج کی طرح ان دنوں بھی ہم سے قطعی دور تھے (کہ رائٹرز گلڈ کے ممبر نہ ہم اُن دنوں تھے نہ اب ہیں‘درمیان میں رہے ہوں تو الگ بات) اور نہ اُن سے اپنے حق میں اِس شعر کی تشریح ضرور کرواتے۔

ہمارے حلقوم میں اترنے والے تعویذوں کی سیاہی ہمارے نوشِجاں کردہ طبی نسخوں جتنی ہو گئی۔ لیکن

دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اس درد کی دوا کیا ہے

کا ورد ہم سے نہ چھوٹا اور اگر کچھ ہوا تو یہ کہ……

شعلہ سالپک جائے ہے آواز تو دیکھو

یہ شعلہ کہیں باہر سے نہیں بلکہ ہمارے اپنے ہی اندر سے ہماری جانب لپکتا دکھائی دیتا رہا اور وہ بھی آتشِخاموش کا نہیں آتشِ گویا کا یعنی درونِ سینہ کا راز ہر لحظہ طشت ازبام رہنے لگا کہ دھڑکن کے ساز پر جیسے ہوا کا ہاتھ تھا جو کسی آن بھی اُس ساز کو چھیڑنا نہ بھولتی یہاں تک کہ……

اکثر شب تنہائی میں کچھ دیر پہلے نیند سے

ہمیں اُس سازکی لَے سے گوش گردانی کے لئے سو سوحِیلے تلاش کرنے پڑتے جن میں سے ایک ابتدائی حِیلہ یہ بھی تھا کہ ہم بھیڑوں کے حلقۂ ارادت میں بھی بالارادہ شامل رہے۔

کہتے ہیں اس حیوانَ شریف پر اگر کوئی درندہ یورش کرے تو و ہ ا پنی آنکھیں میچ لیتی ہے محض اس تشفی کو کہ بھلا وہ کب دیکھ رہی ہے کہ اُسے کسی کے پنجہ ٔاستبداد نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے گویا اس کارروائی میں وہ سراسر بے قصور ہے۔

ہم بھی اپنے بے قصور ہونے کا ثبوت کچھ اس طرح دے رہے تھے…… کہ اندر کے کھڑکار سے چشم پوشی بلکہ گوش پوشی کی غرض سے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس ٹھونس کر سویا کئے۔ شکر اس بات کا ہے کہ ہمارے ضمیر میاں کسی پوشیدہ مرض سے دوچار نہ تھے۔ ورنہ ہمارا حال بھی دو بیویوں میں گھرے کسی نامراد خاوند جیسا ہوتا۔ اور اچھا ہوا کہ ہم شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پانی پلانے کی سعادت سے محروم رہے۔

سو صاحبو! اپنے جی کی تہ میں اُترے ہوئے تضادات کا جو زہر ہمارے دلِناداں کی رگوں میں سما گیا تھا۔ اُس کا نکلناتو محال تھا کہ ہم اس کے وجود ہی سے آگاہ نہ تھے۔ اس کے نتائج البتہ ہمارے سامنے تھے۔ جنیں بھگتنے کے لئے ہم یہاں تک تیار ہو گئے کہ بہ فکرِ خویش بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

کل تیکن تے زہر سی دُکھاں دی کڑوان وی

اج میں سمجھاں موت وی، ہے اک جام شراب دا

یعنی حالات کے مقابلے کے لئے خود تو کمرِ ہمت باندھی ہی تھی اس گورکھ دھندے کا پرچار بزورِ نطق بھی کر نے لگے۔ حالانکہ یہ شاعرانہ روایات کی سراسر خلاف ورزی تھی۔

اس مقام پر ہمارے حالات کی جو کھڑکی باہر کو کھلتی تھی اس کی ایک جھلک آپ کو دکھائی جائے تو کچھ یوں تھی کہ ایف اے تو ہم نے کر ہی رکھا تھا۔ کالج کا رخ ہم کرنے سے رہے تھے کہ ایک تو دودھ کے جلے تھے چھاچھ کو پھونک پھونک کر کیوں نہ پیتے اور دوسرا بقول باقی صداقی ہماری بچگانہ آرزوؤں کی ’’ گَڈی بھی اپنے سٹیشن سے لنگھ چکی تھی اور ٹیشن ’’بھاں بھاں‘‘ کرتا ہمیں صاف دکھائی دے رہا تھا اور ویسے بھی خرمنِ علم سے جتنی کچھ جنس ہم نے ’’تِیلاتِیلا‘‘ سمیٹ لی تھی۔ زندگی کے رن میں کودنے کے لئے کچھ ایسی کم نہ تھی کہ اسی مقدار کی متاع کے طفیل ہمارے کتنے ہی ہمجولی اپنے کندھوں پر پاکستان فورسز کے سٹارز لگا کر قدم قدم پر سلیوٹوں کی وصولی کے مقام تک پہنچ چکے تھے۔ ہمارے عزائم اگرچہ ایسے شاہانہ تو نہ تھے۔ تاہم کچھ نہ کچھ تھے ضرور۔ اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ متاعِنامراد (جسے ابتداً محض لگن کا نام دیا جاتا ہے) جہاں مرزے کی پیوندکاری جَنڈ سے کراتی ہے، وہاںآرمسٹرانگ اینڈ کمپنی کو ارضِ ماہتاب سے بھی زندہ سلامت زمین پر لے آتی ہے اُس متاعِ نامراد کے ہاتھوں ہم پر کیا کچھ گزری۔ مرزا خان ہوئے یا آرمسٹرانگ اس فیصلے کی مثل تو ابھی نامکمل ہے اس لئے کہ حلقہ ٔطا لب علمی سے نکلنا ہمیں گوارا نہ تھا اور جادۂ طالب علمی پر ہم گامزن نہ تھے لہٰذا ہمیں تلاش تھی تو کسی ایسی راہ کی جو مقتل سے بچ کر گزرنے والی ہوتی اور جس پر چل کر ہم خوش و خرّم بھی رہتے اور بامراد بھی لیکن شومی ٔ قسمت کہ یہ راہ ہمیں سمجھائی بھی دی تو کچھ ایسی کہ

صبح سے شام کے آثار نظر آنے لگے

سو صورت حال یہ تھی کہ ہم یا تو دیوبند جیسے کسی بڑے دینی مکتب کا رُخ کرتے اور دنیائے دُوں کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ نجاتِاُخروی کی خواہش بھی پوری کر لیتے جو تقسیمِملک کے باعث ازخود حدِامکان سے باہر تھا یا اگر فل فلیجڈ زندوں میں ہوتے تو۔۔ اپنی دنیا آپ پیدا کرتے

یعنی یہ کہ امتحان بازی کے شغل میں جُٹ جاتے جس کی آگے دو ہی صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ السنہ شرقیہ کا (جن میں عربی کے علاوہ اردو، فارسی، اور پنجابی بھی دخیل تھیں) کوئی امتحان داغ دیتے اور پھر تنہا انگریزی کی ڈفلی بجاتے بجاتے گریجوایٹی کی منزل تک پہنچ جاتے یعنی Taught سے Teacher ہو جاتے اور بغیر کسی پڑاؤ بلکہ اسقاط کے پورے نو ماہ کی سروس کے بعد بی اے کی فیس داخلہ بھیجنے کے استحقاق کا اعلان کر دیتے کہ طوقِغلامی کی یہ رسی بھی اپنے دوسرے ہم وطنوں کے ہمراہ ہمارے گلے میں تھی جسے توڑ پھینکنے کی ضرورت کبھی کسی کو محسوس ہی نہ ہوئی اور ہم کہ اس لعنت کا احساس رکھتے تھے بقولِ فیض کیا تھے۔

جس طرح تنکا سمندر سے ہو سرگرم ستیز

جس طرح تیتری کوہسار پہ یلغار کرے

چنانچہ ہم نے یلغار بھی کی تو اس کا رخ بالآخر اپنی ہی جانب موڑا۔ السنہ شرقیہ سے تو سرِدست ہم تمام تر وابستگی کے باوجود کوئی امتحانی رشتہ نہ گانٹھ سکے۔ البتہ بلاکسی تاخیر کے ہمیں اگر بالطبع کچھ پسند آیا تو وہ سکول ماسٹر بن جانا ہی تھا۔

جِس دے ہتھ‘ جِس دی بانہہ آئی

لَے گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔زوروزوری

ماجد صدیقی

ایک ٹکٹ میں دو تماشے

ایف اے کے نتیجے کا اعلان ہمارے لئے اعلانِ جنگ سے کسی طرح کم نہ تھا اور یہ اعلان ہم نے بے گناہ عوام کی طرح اپنے گاؤں ہی میں تیسرے دن پہنچنے والے ایک روزنامے میں پڑھا مگر جب…

چٹھی آئی ماہیے دی ……ٌ

تو اس میں ہمارا نام کہیں نہیں بولتا تھا۔آخر جب دروازۂ خاورکُھلا یعنی نتیجے کا کارڈ موصول ہُوا تو ہمیں بروئے اخبار اپنی صد فیصد ناکامی کے مقابلے میں بروئے کا رڈ چوراسی فیصد کامیابی پر کچھ زیا دہ ہی مُسرت ہوئی کہ ہم ناکا م تھے تو ساڑھے چار میں سے صرف ایک مضمون میں اور کو ن کہہ سکتا ہے کہ اسی فیصد کامیابی معمولی کامیا بی ہوتی ہے۔ در آ نحا لیکہ ہم اس کنوا رے کے دلِ وجا ن سے معتقد ہی نہیں مقّلد بھی تھے ۔جس نے اپنی متا عِ دل کسی دو شیزہ کے نام کر کے اُس سے شادی کی پچا س فیصد کامیا بی کا اعلان از خود ہی کر ڈالا تھا کہ اس سودے میں ایک فریق تو بہر حال رضامند تھا ۔ چنا نچہ ہم نے قطع نظر اُس طعن و تشنیع سے جو ایسے موقعوں پر بعض کوتاہ فکروں کی طرف سے ہر کسی کو سننی پڑتی ہے۔ اپنی ذات پر کوئی تا بڑ تو ڑ حملہ ہو تے نہ دیکھا ۔ جبھی شا ید ہم نے ا پنی ہمت کو غیرمتزلز ل پایا اور سچ پوچھیں تو۔۔ شہاب الدین غوری کی تو قیر بھی کُچھ اُسی موڑ پر ہما ری نگا ہوں میں پیدا ہوئی لہٰذا ہم نے صبر و شکر کا توبرا اپنے منہ پر چڑھا یا اور دن رات ایک کر کے دو اور دو چار جیسا حسا بی اور دوٹو ک فیصلہ کر ڈالا کہ تخت یاتختہ۔ اب ہم اِس نا مرادیٔ خفیف کا بارِ کثیف اپنے کندھوں پر ہرگز نہیں رہنے دیں گے۔

تعزیراتِ ہند کی دفعات کے اطلاق کی طرح کہ ملزم کو مقد مے کی تاریخیں سنا سنا کے جر ائم سے یوں بیزار کرو کہ اُس کا جی جینے ہی سے دُوبھر ہو جا ئے یا اُس پو ستی کی طرح جسے محض ایک بنیان میں ملبوس باربارکُھجلاتے دیکھ کر کسی نے مشورہ دیا تھا کہ … ’’بنیا ن اُتا ر کر اِسے جوؤں سے پاک کیوں نہیں کر لیتے۔‘‘ تو اُس نے بنیا ن فی الفور اتاری‘ اسے الٹا اور پھر زیبِ تن کر لیا اور جب کچھ دیر بعد ۔۔۔۔۔۔ ۔۔’حسبِ چسکا‘پھرکُھجلا نے لگا تو مشورہ با ز کے مکرّ ر مشورے پر اُس نے بڑی سادگی سے کہا’’ ہاں ہاں حضرت !میں اِنہیں مارنا تو چاہتا ہوں لیکن ذرا …ٹُرا ٹُرا کے۔یعنی مبتلائے مسافت کر کے …‘‘ بورڈ کا روّیہ بھی اُن دنوں امید واروں کے ساتھ کچھ ایسا ہی تھا اور یوُں تھا کہ سپلیمنٹری امتحان اُن دنوں پنجاب بھر میں صرف لاہور ہی میں لیا جاتا تھا ۔ یہ اہتمام اُ س وقت کی نسبتاً کم آبادی کے پیشِ نظر تھا۔ بورڈ کے نوَنہا ل ہونے کے باعث تھا ۔یا خداوندانِ بورڈ ویسے ہی پیاسے کو کنوئیں تک بلانے میں توقیر محسوس کرتے تھے۔ بورڈ کی اس اجارَہ دارانہ دلیری پر توجہ دینے کی نہ تو ہمیں فر صت تھی اور نہ ہی کچھ ایسی ضرورت… بلکہ ہم تو ایک طرح سے اُس کے ممنوُن تھے ۔جس نے ہماری رضا مندی لئے بغیر ہمیں ایک ٹکٹ میں دو تماشے دیکھنے کا یہ نادر موقع فراہم کر دیا تھا۔ ایک امتحا ن میں ادائے قضا کا اور دوسرا شہر لاہور دیکھنے کا ۔ چنانچہ ہم نے امتحان بھی دیا اور لاہور بھی د یکھا نہ صرف ڈیٹ شیٹ کے مطابق ایک دو دنوں تک بلکہ اس سے ہشت گُو نہ، نُہ گُونہ مُدّت زیادہ تک۔

لاہور میں ہمارا قیام زمانۂ کالج کے دوران کے ایک استا دِمکرم کے گھر رہا۔ جو ہمارے معلوما تی حدوداربعہ سے بخوبی واقف تھے اور ہمیں گنوار سمجھنے میں صد فیصد حق بجا نب اور جنہوں نے پہلے ہی روز ہمیں لاہور کی اونچ نیچ سے آ گا ہ کر دیا اور تلقین یہ کی کہ اگر دورونِ لاہور کا سفر اختیا ر کرو، تو بذریعہ بس کرنا اور اگر جی ٹانگے کی سواری کو للچائے تو اپنی ٹانگو ں پر بھروسہ مو زوں رہے گا، کہ لاہور کے

’’کو چوان را اعتبا ر ے نیست‘‘

لیکن بسوں کے جو نمبر ا نہوں نے مقاما ت کی تفصیل کے ساتھ ہمیں بتائے اُس عا لمِ نَو عمر ی و نَو سفر ی میں اِس تخصیص کے ساتھ یاد رکھنا کہ کون سے نمبر کی بس کون سے مقام پر لے جائے گی۔ دھکم پیل کی صوُرت میں کسی ثمردار بس میں پیو ست ہونے والے اس مسافر کے سہوِنظر کی مثال تھی جو لگے ہاتھوں سیٹ حاصل کرنے کی غرض سے اپنے ہی کسی آشنا سے گتھم گتھا ہو جاتا ہے لیکن جب گردوپیش کے ہنگا مہ پرور ماحول سے مانوس ہوتا ہے تو اچھی طرح شرما بھی نہیں سکتا ۔۔۔ اور یہ صو رت ہمیں اس لئے درپیش تھی کہ ا ند رونِ شہر کے مقامات کے نام ہمیں سرے سے آتے ہی نہ تھے۔ پطرس بخاری کے جغرافیۂ لاہور کے ہم حافظ نہ تھے لہٰذا ہما ری دلچسپی کا مرکز ا گر کچھ تھا تو مقاماتِشہر سے قطع نظر۔۔۔۔۔۔۔۔

بنی آدم ا عضائے یک دیگرند

تھا بلکہ اُس سے بھی کچھ اَ گیرے… کہ ہم تو…

کبوُتر با کبُو تر با ز با با ز

جیسے عقیدۂ خام میں مُبتلا تھے اور شعُرائے موجودہ وگزشتہ کی دید و زیارت کا سودااپنے دل و دماغ میں سموئے پھر تے تھے۔(یہ الگ بات… کہ امتحان ہم اقتصادیات کا دینے آئے تھے) اور کسی غلط نمبر کی بس میں بیٹھ کر (کہ خیر سے پہلے ہی ہما ری بس کا نمبر کُچھ ایسا صحیح نہ تھا ) اس فرض کی ادائیگی میں کسی قضا کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے جس کے لیے ہم لاہور میں اُترے تھے سو اِن بیس دنوں میں ہم نے پا پیادہ سعادت یہ حاصل کی کہ دو جرائدکے مدیرانِ گرامی کو جیسے ٹی وی کی سکرین پر دیکھ لیا جو لاریب مسلّمہ شاعر بھی تھے اور زیا رت ہم نے علامہ اقبا ل کے مزار کی کی، لیکن مقبرے سے برآمد ہُو ئے تو اسِ شکوے کے سا تھ (جس کا کوئی جواب نہ تھا ) کہ اتنے رئیس التحریر اور بسیار گو شاعر کے اِکّا دُکّا اشعار ہی اور وُہ بھی صرف ایک فارسی غزل کے۔۔۔ (جبکہ دعوئے فا رسی منسُوب بہ غا لب ہے)نقش بر دیو ار کیُو ں کئے گئے گو یا مزارِ اقبا لؒ کو ۔۔۔کُلیاتِ اقبا لؒکیونکر نہ بنا دیا گیا۔

اس یکّا و تنہا سفر میں جو ہمارے افعالِ خوداختیا ری کے سر اسر منافی تھا۔ ہمارا زادِ راہ زیادہ دنوں تک ہمارا ساتھ نہ دے سکا ۔ گھر سے کچھ منگوانا اس لئے مناسب نہ سمجھا کہ امتحا ن سے ہماری پیکار دو روزہ تھی بِست روزہ نہ تھی۔ چنا نچہ اپنے زادِسفر میں فطری ا نداز میں تو سیع پیدا کر نے کی ایک کوشش میں کا میا ب ہوتے ہوتے ہم بال بال بچ گئے اور وُہ یوُں کہ ہم لاہور میں نوکر ہوتے ہوتے رہ گئے۔

ہمارے ایک اور میزبا ن کہ ہمارے پُرانے کر م فرما کے فرزندِ ارجمند تھے اور شہر کے کسی پریس کے معاملات میں مثلِ رضوا ن خاصے دخیل تھے۔۔۔۔ ہمیں اپنے پر یس میں سَو سوا سَو کی نوکر ی دلانے پر ازخود ہی آمادہ ہو گئے اور نہ صرف اِس امر کی یقین دہا نی کر ائی بلکہ ہمیں

………قو لِ مر واں جَا ن دارد

کا بالعمل قائل بھی کر دیا۔ مگر ہماری تعیناتی کے زبانی احکامات میں ہم پر شرط یہ عائد کر دی کہ راوی روڈ پر تمہارا قیام تمہارے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے عین مخالف ہے لہٰذا اپنا بستر بوریا اٹھا لاؤ اور یہیں کے ہو رہو، یعنی رہائش بھی پریس ہی میں رکھو۔

ہم کہ تجربات کے اوون سے بہت ورے تھے۔اور آتشِضروریات کے اوون میں جھنکنے کو تیار…… کہ

خود آئے نہ تھے، لائے گئے تھے

اپنے ساتھ بستر قسم کی کوئی چیز ہرگز لے کر نہیں آئے تھے بوریا البتہ ہمارے پاس ضرور تھا یعنی لکڑی کا ایک عدد اٹیچی کیس نما بکس جسے ہم اپناتا بوت تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ ہم اس کے اندر نہ تھے بلکہ وہ ہمارے اندر تھا یعنی بغل میں۔ البتہ ہمارا ماضی و مستقبل اس میں ضرور پابند تھے کہ امتحانی سازورخت کے علاوہ ہم اس وقت تک کا اپنا سارے کا ساراشعری سرمایہ بھی اسی میں اٹھائے پھرتے تھے اور حادثہ یہ ہوا کہ اس تابوت کے دستے کی عمر‘آغاز سفرہی میں اس کی گراں شکمی کے باعث’ بہ پایاں رسیدہ بُود‘ یعنی پوری ہو چکی تھی لہٰذا موصوف ہم سے ہرآن مصافحے کی بجائے معانقے کا متقاضی تھا۔

جہاں تک لاہور بینی کا شوق تھا وہ تو ہم نے کچھ قدموں اور کچھ نگاہوں … پورا کر ہی لیا تھا مگر اب کہ بقول غالب

وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

ایک فرمائشی سّیاح سے یکایک ایک مزدور ہو کر ہم اپنی کارگاہ کو جا رہے تھے اور بقولِ استادِ مکرّم لاہورکے ’کوچواناں را اعتبارے نبود،اور بسوں پر ہمارا کوئی بس نہ تھاسو اس تابوت کے شکنجے سے ہمارا جانبر ہونا…… لمحہ بہ لمحہ خاصا… مخدوش ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ جب پھیپھڑوں کی دھونکنیاں جواب دینے لگیں تو ہم نے ایک شجرَسایہ دار کی پناہ لی اور تابوت کو زمین پر پٹخ…… اس پرپِڑی جمائی اور بیٹھ رہے۔

آ اے غم دوراں! درِ میخانہ ہے نزدیک

آرام سے بیٹھیں گے، ذرا بات کریں گے!

لیکن دا حسرتا…… کہ اس وقت کوئی چیونٹی یا مکڑا ہمیں اس درخت پر چڑھتا اور چڑھتے چڑھتے گرتا دکھائی نہ دیا، ورنہ ہمارا مستقبل لاہور جیسے قطب الارشاد شہر میں قیام کے طفیل جانے کیا سے کیا ہوتا۔اور جو ہوا وہ یہ تھا کہ ہم نے شہر سے نکلتی ہوئی ایک غیر اومنی بس کو اپنا خضرِراہ مانا اور جب بس کے نمبردار نے ہماری منزل کا پتہ پوچھا تو ہم نے بھی جواباً وہی کارروائی کرڈالی یعنی موصوف کی منزل پوچھ ڈالی جو راولپنڈی تھی، سوچند ہی گھنٹوں میں ہم اُس تابوت سمیت راولپنڈی میں تھے جہاں سے اپنے حواس کی بازیابی اور بکسے کی صحت یابی (یعنی دستہ یابی) کے بعد ہر طرح کی خیر خیریت کے ساتھ اپنے گاؤں پہنچ گئے۔

کیا فرض ہے یہ سب کو ملے ایک سا جواب

ماجد صدیقی

ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

ہم پر کہ پیدائشی پینڈو تھے۔ کالج میں پہنچتے ہی جو بات سب سے پہلے کُھلی، یہ تھی کہ ہم تو سرے سے ہیں ہی… ملاّ نصر الدین اور یہ حادثہ ایک ہمارے ساتھ ہی نہیں ہوا تھا بلکہ ان آدابِانگلیسی کے پہلو سے سال بہ سال جنم لیتا تھا جن کے تحت انگریز بہادر نے اپنے ’’کامے‘‘ ملک کے طلبا کی عزّتِ نفس کو ان کے اپنے ساتھیوں ہی کے ہاتھوں مجروح کرنے اور کالج کی حدود میں جم کر نہ پڑھنے کے لئے بیفولنگ جیسی رسمِ بد کو باقاعدہ فروغ دے رکھا تھا۔

ہم اس تجربے سے اگرچہ ایک تماشائی کی حیثیت ہی سے گزرے تاہم جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اس نے ہمیں سامراجی ا ذہان کی منفی قوّتوں کا پورا پورا معترف کر دیا۔ ان آدابِ انگلیسی کے علاوہ اپنے فول ہونے کا ایک ثبوت ہمیں یہ ملا کہ داخلہ لیتے وقت کچھ تو یہ کہ:

سو پُشت سے تھا پیشۂ آبا سپہ گری

کہ عسکری علاقے کے فرزند تھے اور اس امر کی تربیت ہی نہیں رکھتے تھے اور کچھ یُوں کہ نجی معاملات کو حل کرنے کے سلسلے میں ہم تھے ہی نرے ’’شرماکل‘‘ ہم نے اپنے لئے مضامین کا انتخاب اپنے ایک استاد مکرم سے کرایا جنہوں نے بہرحال ہماری بہبود اور زمانے کی رفتار کے پیشِ نظر ہمیں اقتصادیات اور ریاضی جیسے براق مضامین تجویز کئے جنہیں ہم نے بکمال عقیدت و انکساری قبولا اور پڑھنا شروع کر دیا لیکن

گرُبہ کُشتن روزِ اوّل ……

جیسا مُجّرب نسخہ ہمیں کسی نے بتایا نہ تھا کہ ہم ان مضامین کو ابتدائے نسبت ہی سے رام کر لیتے، سو نتیجہ وہی رہا جو کسی منہ زور بیوی اور حلیم الطبع خاوند کے باہم گُتھ جانے سے ظاہر ہوتا ہے اور یہ اجوڑی یہاں تک بڑھی کہ ریاضی کا مضمون جب ہم سے چنگے بھلے ریاض کا تقاضا کرنے لگا اور ایلفا، گاما، تھیٹا جیسے مداری کے گولے ایک ایک سوال کے پہلو سے سینکڑوں کے حساب سے نکلنے لگے تو ہمیں اس پر پُرزے نکالتے مضمون سے ابتدائی ایّام ہی میں وحشت سی ہونے لگی اس لئے کہ ہم اس مضمون کے لئے نہ تواتنی جگرکاوی کر سکتے تھے کہ اُن دنوں

خُشک سیروں تنِ شاعر سے لہو ہوتا ہے

تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ ترکی صورت

جیسے عملی تجربوں میں سرتاپا غرق تھے اور نہ ہی ہم خود کو اس طلسماتی فضا میں کُھل کر سانس لینے کے قابل سمجھتے تھے۔علامہ مشرقی کا معاملہ الگ تھا جن کا ان دونوں ہمیں علم نہ تھا،یہ بات ہم پر اس میدان سے بھاگ جانے کے بعد کُھلی کہ:

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

ہم نے جس بیفولنگ کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا ہے اس کا کُچھ کُچھ شکار ہم خود بھی ہوئے اور یوں ہوئے کہ ریاضی کے طالب علم ہوتے ہوئے اور ایلفا ۔گاما۔تھیٹا جیسی اصطلاحوں سے معاندانہ واقفیت رکھتے ہو ئے بھی ہم ایک چکر میں آگئے، ریاضی کے مضمون نے جب ملیریا بخار کی طرح ہمیں پیہم اُبکائیاں چُھڑا دیں تو ہم نے اس کے لئے علاج وہ تجویز کیا جو کونین نہ تھا کہ یہ کڑواگُھونٹ جیسے تیسے ہوتا چڑھا لیتے بلکہ وہ کیا جو خالصتاً مشرقی مدّوجزرکی پیداوار تھا یعنی انتخابِ زبانِ اُردو ۔۔۔۔جو اُن دنوں محض اختیاری مضمون کے بطور ہی پڑھی جا سکتی تھی۔

مضمون کی تبدیلی کا فیصلہ تو ہوا سو ہوا۔لیکن اسے عملی صورت دینا ہمیں تبدیلیٔ جنس سے بھی کہیں زیادہ مشکل نظر آیا ۔اس لئے کہ وہ تو پھر ایک قدرتی عمل ہوتا ہے جو ازخود ہونے لگتا ہے لیکن یہ تبدیلی۔۔۔۔ ! خدا کی پناہ!۔۔۔۔ اس میں تو ہمیں کُچھ باہلاہی ’کِھجل خراب‘ ہونا پڑا اور کِھجل خراب ہم یوں ہو ئے کہ سیکنڈ ائیر کے ایک سادہ لوح بلکہ بظاہر سادہ اور اپنے ہمزاج طالب علم سے ہم نے اس تبدیلی کا طریقِکار پوچھ ڈالا جس کم بخت نے اگرچہ ہمیں راہ تو سیدھی سُجھائی لیکن بقول شاعر کسی قدر ذاتی تصرف کے ساتھ یعنی

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا

اور کہا ہمیں یہ کہ۔ ’’مضمون کی تبدیلی کے لئے پرنسپل کے نام درخواست لکھو ، اُسے تِھیٹا صاحب کے پاس لے جاؤ وہ اس امر کی اجازت دے دیں تو بس مزے سے اپنا مضمون بھی بدل لو اور اپنی کلاس بھی بدل لو‘‘

ہر چند ہم تھیٹاکے چکر سے نکلنے کے لئے کوشاں تھے ۔ ہمیں اس سازش کا احساس تک نہ ہونے پایا اور ہم بکمال سادہ دلی اپنے ہم مکتب ساتھی کے سُجھائے ہوئے بلاک میں جا کر چپڑاسی سے کسی قدر بلند آواز میں پوچھنے لگنے ’’ تھیٹا صاحب کہاں ہونگے‘‘ ہمارا اتنا کہنا تھا کہ

ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں

دوسرے لمحے ہم کُچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھے۔ تبدیلیٔ مضمون کی درخواست کہاں رہ گئی اور ہم کہاں نکل گئے۔ اس کا اندازہ ہمیں بحالیٔ حواس کے بہت بعد ہوا۔ اس لئے کہ مذکورہ استاد جنہیں ہم نے ’’تھیٹا ‘‘ کہہ کر پکارا تھا شاید اپنے اس عُرفِ بد کے کچھ زیادہ ہینالاں تھے۔ ہمارے منہ سے اس لفظ کی معصومانہ ادائیگی کے فوراً بعد اپنی چھڑی سمیت ہم پر کچھ یوں جھپٹے جیسے پیرا شوٹ نہ کھلنے کی صورت میں ہواباز زمین کی راہ لیتا ہے۔

ہم اس حادثے سے تو بقول فراؔ ز ؎

جاں دے کے بھی سمجھو کہ سلامت نکل آئے

لیکن جو ملیریا بخار ہمیں لاحق تھا اس کا کوئی دارو ہوتا ہمیں نظر نہ آیا۔ اس لئے کہ؎

اُگنے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی

تاہم ہم نے ہمت نہ ہاری اور اپنے ایک اور استادِ مکرّم سے رابطہ قائم کیا۔ تو یہ عُقدہ بھی کچھ کچھ وا ہوتا نظر آیا۔

استادِ مکرّم نے ہمیں ہدایت یہ دی کہ ’’برخوردار‘‘ پہلے اپنے دونوں مضامین سے متعلقہ اساتذہ سے درخواست پر تحریری رضامندی درج کراؤ، درخواست مجھے دو اور پھر بے شک وہی مضمون پڑھو جو تمہیں طبعاً موافق ہے۔

یہ نسخہ قدرے آسان نکلا، اس لئے کہ استاد ریاضیات نے تو درخواست سے مصافحہ کئے بغیر ہی اس پر اپنی رضامندی ثبت فرما دی۔ رہے استادِ ادبیات سو انہوں نے نہ صرف درخواست کی صحت کواوپر نیچے ‘آگے پیچھے سے جانچا پرکھابلکہ ہمارے جذبۂ شوق کی بھی خوب خوب تقطیع کی۔ تب کہیں انہیں یقین آیا کہ یہ رضامندی اگر ہم نے دے بھی دی تو غزنوی ؔاور فردوسی ؔجیسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہو گا۔ سو اس، کسی قدرلیسلے پراسس کے طے ہونے کے بعد ہماری آدھی مشکل تو حل ہو گئی یعنی عارضۂ ریاضی سے ہم پوری طرح جانبر ہو گئے۔ رہا اقتصادیات کا مضمون سو اسے ہم نے رائج الوقت قومی زبوں حالی کے پیش نظر چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور کسی بھی سعادت مند فرزندِوطن کی طرح حصول تعلیم میں جُٹ گئے۔

لیکن وہ علّت جو ہمیں میٹرک کے ایام ہی سے لاحق تھی اور جس نے ہمیں تعمیرِ مستقبل کی کھیتی میں پوہلی پیازی کی طرح جکڑ رکھاتھا، یعنی علّتِ شعر گوئی۔ اس کے تقاضے کچھ ایسے نکلے کہ یکسوئی سے پڑھنا ہمارے لئے۔

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

کی مثال ہو کر رہ گیا۔ اور اس طرح اقتصادیات کے مضمون کی تیاری میں، یعنی سکے سے سونا بننے میں ایک آدھ آنچ کی کسر یوں باقی رہ گئی کہ جب عاقبت کو پہنچے تو ہماری غیر متوقع ناکامی پر (جو بے شک جزوی سہی) لوگوں کے منہ کُھلے کے کُھلے رہ گئے۔ اس لئے کہ کالج میں ہماری طالب علمانہ ساکھ کچھ ایسی نہ تھی بلکہ ویسی تھی یعنی ناقابلِیقین حد تک او۔’کے‘ اس کے باوجود خداوندانِبورڈ نے اپنے پہلے ہی معرکے میں (کہ لاہور بورڈ کا یہ پہلونٹی کا امتحان تھا اور ہم اس کے ہزاروں سمیت پہلے امیدوار) ہماری آب دارو تابناک شخصیت کے ماتھے پر کمپارٹمنٹ کا نظر بٹو لگے ہاتھوں ٹکا دیا۔ اور ساتھ ہی تسلی بھی دلائی کہ

ابھی کم سن ہو رہنے دو کہیں کھو دو گے دل میرا

تمہارے ہی لئے رکھا ہے لے لینا، جواں ہو کر

اور کمپارٹمنٹ ہمیں اسی ناہنجار مضمون میں ملی ۔ جسے ہم نے اتفاقاً اختیار کیا تھا یعنی وہی نامراد۔۔۔۔۔ اقتصادیات‘ باقی مضامین تو جیسے ہمارے پالتو کبوتر تھے۔جنہیں ہم جس طرح جی میں آتا قلابازیاں دلایا کرتے، اور سچ تو یہ ہے کہ ہماری طالب علمانہ ساکھ اگر کچھ تھی تو ان ہی پالتو کبوتروں کے طفیل تھی۔ جن میں سے چاروں کی چاروں زبانیں تھیں جو ایک کے سوا سبھی غیرالہامی تھیں یعنی عربی، فارسی، اردو اور انگریزی جن میں سے عربی کے ہم صرف قاری تھے (کہ قرأت سے آگے جانا ویسے بھی ہمارے نصابِ مذہبی میں اختیاری مضمون ہے) جبکہ انگریزی کے مزاج پر ہمارا وجود کسی قدر گراں تھا اس لئے کہ ہم طبعاً افضل رندھاوا جیسے نہ سہی نیم ٹھیٹھ پنجابی ضرور تھے لہذا ہم میں اور انگریزی میں اتنا بُعد بہرحال برقرار رہا جتنا بُعد چھ گز کے تہہ بند اور ڈیڑھ گز کی پتلون میں ہوتا ہے۔ تاہم اپنی سطح پر عربی انگریزی میں ہماری ہوا خاصی بندھی نظر آتی تھی۔

جہاں تک فارسی کا تعلق تھا۔ درآں حالیکہ تیل اب اس کے تفاخر کا سبب ہے ہمیں اس کا داماد جانیے کہ اس خوش دامن زبان میں، ایک آدھ نیم پخت غزل کے خالق ہم اُس عہدِ طفلی میں بھی تھے۔ (جو آج تک ہماری فکری منصوبہ بندی کے تحت اکلوتی ہی پھر رہی ہے) رہی اس کی لے پالک بچی ہماری مُراد اردو سے ہے۔ وہی عفیفہ جسے ہم نے بہ کاوشِ تمام اپنایا تھا سو ہمارے خیال میں موصوفہ ہر لحاظ سے ہماری منکوحہ تھی اور ہے۔ اگرچہ اس کے تقاضے کسی بھی منکوحہ کی طرح، آج تک تشنۂ تکمیل ہیں۔

نہیں کھیل بچوں کا اے داغؔ کہہ دو

کہ آتی ہے اُردو زباں آتے آتے

ماجد صدیقی

شہرِ منوّر کی دہلیز پر

ہمارا کارِآشیاں بندی اور عرصۂ بے کاری و بے زاری ایک ساتھ شروع ہوئے کہ اِدھر ہماری منگنی ہوئی اور اُدھر ہمیں اپنی جیسی تیسی نوکری سے بہ یک بینی و دوگوش نکال باہر کر دیا گیا۔

دیکھیے، پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!

اک برہمن نے کہا ہے: ’’ کہ سال اچھا ہے‘‘

ہماری منگنی کی خبر تو کچھ ایسی مسندِ وزارت پر بیٹھنے کی اطلاع نہ تھی جس کے رُعب میں ہمارا سرپرست محکمہ ہمارے سر سے اپنا سایہ ہٹا کر پَرے ہو بیٹھتا اور کہتا: ’’لو میاں! اب تم جانو اور تمہاری آئندہ کی مصروفیاتِ جلیلہ‘ ہمارا تمہارا ساتھ تو صرف یہیں تک تھا ‘‘ … لیکن ہماری تو ابھی محض منگنی ہوئی تھی اور امرِ واقعہ یہ تھا کہ ہماری اصل تو کیا فالتو وفائیں بھی ابھی اپنے محکمے ہی کے نام تھیں لہٰذا جو کچھ ہوا اس میں زیادتی منشائے محکمہ ہی کی تھی، ہماری کسی کوتاہی کااس میں دخل نہ تھا اس لئے کہ ہم نے تو اس دارِفانی میں اس سے پہلے اور بعد میں جو ملازمت بھی اختیار کی اس کا پیراہن بالعموم کاغذی ہی رہا، گویا ملازمت کا انقطاع ہماری کسی حرکتِ نازیبا یا فعلِبد کے باعث نہ ہوا۔ اور اب کے بھی یہ تیر تقدیر کے ترکش سے چلا یا پھر اُس نظام کی خُرجی سے جو آج تک کوہِ ندا کی طرح ہماری زندگیوں پر آوازے کستا آرہا ہے۔

کارِ آشیاں بندی کے لئے کمر باندھتے ہی ہمیں اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے تو اس کا سبب یہ نہ تھا کہ خدانخواستہ ہمارے لکھا پڑھا ہونے میں کوئی شُبہ تھا یا ہماری سندات میں کوئی جعل سازی

کارفرما تھی۔ اس لئے کہ چوردروازوں سے سندات کی تقسیم کا پراپیگنڈہ ذرا بعد میں چلا ہمیں تو سندات کے حصول میں فرہاد کی محنتِ شاقہ سے بھی کہیں زیادہ دقّتوں سے دوچار ہونا پڑا۔ دوسری وجہ ہم میں قوتِ کار کا فُقدان یا توڑ ہو سکتی تھی۔ سو وہ بھی نہ تھی کہ آتش ابھی ابھی جوان ہو رہا تھا۔ تیسرا سبب یہ ہو سکتا تھا کہ خدا نکردہ ہم کوتاہیٔ فرض جیسے عارضے میں مبتلا ہوتے، سو یہ بھی غلط کہ ہم تو ایک مڈل ایس وی سربراہِ مکتب کے زیرِنگیں اپنی پوسٹ گریجوایٹی کو ہرلحظہ سدھائے رکھنے کے بالا رادہ قائل تھے۔لہٰذا اس کے باوجوداگر ہمیں اس لائق نہ گردانا گیا کہ ہم چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کے نونہالوں کے منہ میں انگریزی کی چوسنی دئیے رکھتے تواس کا باعث ایک ہی تھا کہ ہماری گزشتہ شش سالہ ملازمت سرا سر بے نکاح تھی یعنی یہ کہ ہمیں پیشہ ورانہ تربیت حاصل نہ تھی تاہم اِس خرابی میں بھی تعمیر کی یہ صورت ضرور مضمر تھی کہ اگر ہم موجودہ محکمہ کی حدودِ اختیار سے ہجرت کر جاتے تو اسی استحصالی نظام میں ہم اس بات کے اہل بآسانی تھے کہ مڈل سکول کے طلباء کی بجائے کالج کے طلبا کو بغیر کسی پیشہ ورانہ پروانے کے پڑھا سکتے۔

دل سے قطرہ جو نہ نکلا تھا، وہ طُوفاں نکلا

اور ہوا بھی یہی کہ ہمیں کچھ مدت بعد مؤخرالذکر خدمت کے لئے منتخب کر لیا گیا۔

جو چاہے آپکا حُسنِ کرشمہ ساز کرے

لیکن وہ جو ہم … اوّل الذکر خدمت سرانجام دیتے دیتے۔

’’تمہیں سو گئے داستاں کہتے کہتے‘‘

ہو گئے تھے۔ اس خدمت کی انجام دہی اور اس خدمت کے مسندِشاہجہانی پر بیٹھنے تک کے مراحل بھی کچھ کم جرأت نہ تھے۔

بارے اُن کا بھی کچھ بیاں ہو جائے

اور اس بیان کی ابتدا اس امر سے ہوتی ہے کہ ایف اے تک کی تعلیم ہم نے راون کی طرح نہیں رام چندر جی کی صورت ایک طرح کے بن باس کے عالم میں حاصل کی کہ

دانایاں گفتہ اند……’’فطرت اور مطالعہ کا تعلق بڑا گہرا ہے‘‘۔ لہذا یوں سمجھیے کہ جو مطالعہ میں پڑا فطرت کے قریب تر ہو گیا اور جو فطرت کے قریب تر ہوا وہ ایک طرح کے بن باس پر نکل کھڑا ہوا یوں بھی دیہی جہالت کی راجدھانی سے ہمیں دلِ ناداں کے ہاتھوں چودہ سال کی جو مہلت ملی تھی اسے اپنے طورپر ہم بن باس ہی کہہ سکتے ہیں۔ ہر چند ہم نے اس بن باس کے صرف بارہ برس ہی ایک تسلسل سے گزارے پھر بھی چوراسی فیصد کامیابی نے ہمارے قدم ضرور چومے کہ ایف اے کا امتحان ہم نے 1:3½ کے کُلیے کے تحت زہر مار کیا یعنی اس میں ایک مضمون میں کمپارٹمنٹ کے ساتھ کامیاب ہوئے۔

میٹرک کا سرٹیفکیٹ ہم نے ایک دیہاتی سکول سے لیا تھا۔ اس لئے کہ ہم ’’جَم پَل‘‘ ہی ورڈزورتھ کی اسی Dominion (قلمرو) کے تھے اور کالج کی تعلیم کا آغاز ایک ٹاؤن کالج سے کیا جو ہماری نظر میں بلاشبہ پہاڑ سر کرنے کے مترادف تھا۔

میٹرک میں کچھ اساتذہ کی بے پناہ شفقت سے‘ کچھ ہم جماعتوں سے مسابقت کے شدید احساس سے اور کچھ اس وافر ذہانت سے جسے بچپن میں کوئی شغل بجز تعلیمی مصروفیات نہیں ملا تھا۔ ہم نے کچھ اچھے نمبر ہی حاصل کر لئے۔ بس یُوں جانیے کہ امتحانِ مذکورہ کا سرٹیفکیٹ ہم نے فریم کرا کے گھر میں آویزاں کر دیا اور شاید یہی وہ نیک شگون تھا جو ہمارے اور والدین کے درمیان ایک طویل نزاع کے بعد بالاخر صلح پر منتج ہوا۔ اس لئے کہ انہیں پس و پیش کے مفت کے مشوروں کے باعث ہم سے اصرار تھا کہ ہم ان کے ’’کماؤ‘‘ فرزند ہو جائیں کہ ہم کلرک وغیرہ بننے کی استعداد تو اپنے اندر بہرحال پیدا کر چکے تھے ۔۔۔۔۔۔

لیکن… اُدھر ہمیں یہی دُھن… کہ ابھی تو ہم علم کے شہرِمنّور کی دہلیز پر ہی پہنچے ہیں۔ اس شہر کے اندر کیا ہے؟ یہ جاننے کی جستجو ‘تمنائے سیف الملوک کی طرح برابر ہمارے سر پر سوار تھی۔

والدین کا اصرار بھلا اپنی اولاد کے حق میں ہٹ دھرمی کو کہاں پہنچ سکتا ہے اور پھر ایسے حالات میں جب والدین انتہائی بھولے بھالے، مّروّت و شفقت کے پیکر اور نپٹ دیہاتی ہوں اور اس پر مستزاد یہ کہ ہم ان کی آخری اولاد ہونے کے ناتے کچھ کم لاڈلے بھی نہ تھے، سو میدان سراسر ہمارے ہاتھ رہا۔

یہ بات اگرچہ ہم پر بھی واضح تھی کہ ہمارے اس اقدام سے ہمارے والدین کے کندھوں پر بوجھ کچھ زیادہ ہی بڑھ جائے گا۔ لیکن بچے کو بازار سے گزرتے ہوئے چاہے باپ کی جیب کا علم بھی ہو، کھلونوں کی چمک دمک اس کے قدموں کو زنجیر کر ہی لیتی ہے۔ تاہم جب یہ سلسلہ چل نکلا تو چلتا ہی رہا، ہماری علیٰحدگی پسندی سے نہ تو بنگلہ دیش کا سا کوئی کہرام بپا ہوا اور نہ ہی قحطِ بنگال کا سا کوئی فتنہ ‘چنانچہ بالآخر ہم نے کالج میں داخلہ لے ہی لیا۔

ماجد صدیقی

تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
ہر حرف تُجھ بدن کا نظر کے قریں لگے
تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے
آتا ہو چھُو کے جیسے ترے ہی جمال کو
اب کے تو ہر خیال مجھے شبنمیں لگے
چھایا ہے وُہ خمار تری صبحِ یاد کا
جو موجۂ صبا ہے مے و انگبیں لگے
شعلے تمام اس میں تری دید ہی کے ہیں
میری نگاہ کیوں نہ بھلا آتشیں لگے
انوار اور بھی تو پہنچ میں ہیں اب مری
کیوں کریہ ایک چاند ہی تیری جبیں لگے
میرے لُہو کا حسُن بھی جھلکے بہ حرف و صوت
ہاں اپنے ہاتھ تُجھ سا اگر نازنیں لگے
خوشبُو ہے اس میں رنگ ہیں، ندرت ہے تہ بہ تہ
ماجدؔ کا شعر تیرے بدن کی زمیں لگے
ماجد صدیقی

ہم اِک اُسی کی جستجو لئے نگر نگر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
وُہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اُتر گئے
ہم اِک اُسی کی جستجو لئے نگر نگر گئے
خیال قُرب اُسی کا سر پہ ابر سا جھُکا رہا
میانِ دشتِ روزگار ہم جدھر جدھر گئے
تھیں اُس کے مُڑ کے دیکھنے میں بھی عجب مسافتیں
حدوں سے شب کی ہم نکل کے جانبِ سحر گئے
دُھلے فلک پہ جس طرح شب سیہ کی چشمکیں
پسِ وصال ہم بھی کچھ اِسی طرح نکھر گئے
اُسی کی دید سے ہمیں تھے حوصلے اُڑان کے
گیا جو وہ تو جانئے کہ اپنے بال و پر گئے
وُہ جن کے چوکھٹوں میں عکس تھے مرے حبیب کے
وُہ ساعتیں کہاں گئیں وہ روز و شب کدھر گئے
ماجد صدیقی

لہو میں تلخیٔ شیریں دمِ وصال کی تھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
نظر میں تازگی عُریانیٔ جمال کی تھی
لہو میں تلخیٔ شیریں دمِ وصال کی تھی
طلوع میں بھی مرے شوخیاں تو تھیں لیکن
مزہ تھا اُس میں جو ساعت مرے زوال کی تھی
وگرنہ تجھ سا طرحدار مانتا کب تھا
جو تھی تو اس میں کرامت مرے سوال کی تھی
بدستِ شوق فقط میں ہی تیغِ تیز نہ تھا
حیا کے ہاتھ میں صُورت تری بھی ڈھال کی تھی
فروِغ نُور تھا جس سے شبِ طلُوعِ بدن
سرِ چراغ وُہ سُرخی ترے ہی گال کی تھی
کنارِ شوق تلک شغلِ کسبِ لُطف گیا
کوئی بھی فکر نہ جیسے ہمیں مآل کی تھی
نہ جس سے تھی کبھی درکار مخلصی ماجدؔ
گرفت مجھ پہ وہ کرنوں کے نرم جال کی تھی
ماجد صدیقی

آؤ کہ جسم و جاں کے شگوفے کھلائیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
نِکھری رُتوں کا حسن‘ فضا سے چرائیں ہم
آؤ کہ جسم و جاں کے شگوفے کھلائیں ہم
بیدار جس سے خُفتہ لُہو ہو ترنگ میں
ایسا بھی کوئی گیت کبھی گنگنائیں ہم
رچتی ہے جیسے پھوُل کی خوشبُو ہواؤں میں
اِک دُوسرے میں یُوں بھی کبھی تو دَر آئیں ہم
اِخفا سہی پہ کچھ تو سپُردِ قلم بھی ہو
دیکھا ہے آنکھ سے جو سبھی کو دکھائیں ہم
ہو تُجھ سا مدّعائے نظر سامنے تو پھر
ساحل پہ کشتیوں کو نہ کیونکر جلائیں ہم
منصف ہے گر تو دل سے طلب کر یہ فیصلہ
تُجھ سے بچھڑ کے کون سے زنداں میں جائیں ہم
ایسا نہ ہو کہ پھر کبھی فرصت نہ مل سکے
ماجدؔ چلو کہ فصلِ تمّنا اٹھائیں ہم
ماجد صدیقی

پھرفکر و نظر میں زلزلہ ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
مجھ سے وُہ بچھڑ کے پھر چلا ہے
پھرفکر و نظر میں زلزلہ ہے
بے نطق نہیں نگاہ اپنی
بے تاب لُہو کی یہ صدا ہے
میں آگ تھا پر سُخن نے اُس کے
گلزار مجھے بنا دیا ہے
شیریں ہے ہر ایک بات اُس کی
وہ جو بھی کہے اُسے روا ہے
یہ دل کہ حزیں ہے مدّتوں سے
پُوچھا نہ کسی نے کیوں بُجھا ہے
ممکن نہیں اُس تلک رسائی
اُس شخص کی اور ہی ادا ہے
لکھا ہے یہ اُس کا نام ماجِد
یا پھول سرِورق کھلا ہے
ماجد صدیقی

کسی پہلو تو ذکرِ گل رُخاں ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
مہک ہو یا میانِ لب فغاں ہو
کسی پہلو تو ذکرِ گل رُخاں ہو
زباں سے کُچھ سوا لطفِ بدن ہے
سراپا تم حریر و پرنیاں ہو
تمہارے حق میں کیا جانوں کہوں کیا
سُرورِ چشم ہو تم لطفِ جاں ہو
لپک کر لیں جسے پانی کی لہریں
کنارِ آب وہ سروِ رواں ہو
مرے افکار کی بنیادِ محکم
مرے جذبات کی ناطق زباں ہو
کبھی ماجدؔ کے حرفوں میں بھی اُترو
بڑی مُدّت سے تنہا ضوفشاں ہو
ماجد صدیقی

لُہو میں اِک تلاطم نِت اُٹھانا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
مچلنا، مُسکرانا، رُوٹھ جانا
لُہو میں اِک تلاطم نِت اُٹھانا
وُہی جس کی ہمیں پیہم لپک ہے
وُہی منظر نگاہوں سے چھپانا
ترستی ہے جسے اپنی سماعت
وُہی اک حرف ہونٹوں پر نہ لانا
تمہیں آتا ہے مرغِ آرزُو کے
پروں کو نوچ کر ہر سُو اڑانا
ٹھِٹھکنا قُرب سے فرمائشوں کی
سلیقے بُعد کے ہم کو سکھانا
جو کھنچنا تو رُتوں کو مات کرنا
قریب آنا تو رَگ رَگ میں سمانا
پتہ دیتا ہے ماجدؔ کو ترا ہی
یہ مرغانِ نفس کا چہچہانا
ماجد صدیقی

رگوں میں مچلتی تمازت کبھی تو زباں پر بھی لاؤ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
لبوں کے اُفق پر دمکتا ہُوا کوئی سورج اُگاؤ
رگوں میں مچلتی تمازت کبھی تو زباں پر بھی لاؤ
ہواؤں میں اپنی مہک کب تلک یوں بکھرنے نہ دو گے
حجاب اِس طرح کے ہیں جتنے بھی وہ درمیاں سے اُٹھاؤ
تمہیں کتنی حسرت سے کہتی ہے میری یہ تشنہ سماعت
بھنچے ہیں جو لب تو نگاہوں سے ہی کوئی نغمہ سناؤ
وہی جو گرہ ہے تمہارے مرے عہدِ وابستگی کی
وہ انگشتری بھی کبھی وقت کی انگلیوں میں سجاؤ
یہ تنہا روی ترک کر دو کہ اِس میں فقط ٹھوکریں ہیں
مکّرر جسے جسم چاہے کوئی ضرب ایسی بھی کھاؤ
بُلاتی ہے خود ابر کو دیکھ لو اپنی جانب یہ کھیتی
تمہارا بدن کہہ رہا ہے ’’لُہو میں مرے سر سراؤ‘‘
بُہت سینچ بیٹھے ہو ماجدؔغزل کو نمِ دردِ جاں سے
اگر ہو سکے تو ذرا اِس میں من کے تقاضے بھی لاؤ
ماجد صدیقی

پھُول کھِل کھِل کے مجھے یاد دلائیں تیری

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
لے کے پھرتی ہیں رُتیں شوخ ادائیں تیری
پھُول کھِل کھِل کے مجھے یاد دلائیں تیری
تیرے پیکر کا گماں یُوں ہے فضا پر جیسے
پالکی تھام کے پھرتی ہوں ہوائیں تیری
دَھج ترے حُسن کی جادو نہ جگائے کیونکر
رنگ کرنوں کا ہے خوشبُو کی قبائیں تیری
دل کی دھڑکن کو بھی آہنگ دلائیں تازہ
یہ کھنکتی سی لپکتی سی صدائیں تیری
یہ الگ بات کہ تُو مجھ کو نہ پہچان سکے
ہیں تمنّائیں مری ہی تو ادائیں تیری
میرے جذبات کہ رقصاں ہیں بہ چشم و لب و دل
دیکھ یہ مور بھی لیتے ہیں بلائیں تیری
دُور رہ سکتی ہیں ماجدؔ کے قلم سے کیسے
نقشِ چغتائی سی صبحیں یہ مسائیں تیری
ماجد صدیقی

لفظ مُنہ پر کوئی تو آنے دو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
گنگُ جذبوں کو چہچہانے دو
لفظ مُنہ پر کوئی تو آنے دو
پھینک کر اب کے آخری پتّا
کھیل کو رُخ نیا دلانے دو
سیج پر شاخِ آرزُو سے گری
پتّیاں تُم مجھے بچھانے دو
وقت کے جلترنگ سے نہ ڈرو
اِس کو یہ ساز اب بجانے دو
جن پہ سُورج کبھی نہیں اُبھرا
وُہ اُفق اب کے جگمگانے دو
یہ اعادہ ہی بچپنے کا سہی
کُچھ گھروندے مگر بنانے دو
اشک دے گا پتہ ضرور اپنا
خاک میں یہ نمی سمانے دو
ماجد صدیقی

پگھلے بدن کے ساتھ مجھے تُو کہے گا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
گھِر کر بہ سحرِ قُرب بھلا اب کھنچے گا کیا
پگھلے بدن کے ساتھ مجھے تُو کہے گا کیا
خاموش کیوں ہے دے بھی مُجھے اِذنِ سوختن
شُعلہ نظر سے اور بھی کوئی اُٹھے گا کیا
یہ ولولہ مرا کہ ضیا بار تُجھ پہ ہَے
سُورج ہے گر تو میرے اُفق سے ڈھلے گا کیا
خواہش کا چاند آ ہی گیا جب سرِ اُفق
باقی کوئی حجاب بھلا اب رہے گا کیا
یہ لطفِ دید، یہ ترا پیکر الاؤ سا
منظر نگاہ پر کوئی ایسا کھُلے گا کیا
کرتا ہے کیُوں سخن میں عبث نقش کاریاں
ماجدؔ صلہ بھی کوئی تُجھے کچھ ملے گا کیا
ماجد صدیقی

دیکھو تو بدن ہم دونوں کے کیسے باہم دوچار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
کس اَن ہونی کے ہونے سے یُوں مطلعِٔ صدا انورا ہوئے
دیکھو تو بدن ہم دونوں کے کیسے باہم دوچار ہوئے
کمیاب تھی ساعتِ قرب تری کیا کُچھ نہ ہُوا جب دَر آئی
ہم چاند بنے ہم مہر ہوئے ہم نُور بنے ہم نار ہوئے
سادہ سا وُہ حرفِ اذن ترا اور مہلت پھر یکجائی کی
فرصت تو فقط اِک شب کی تھی پر دور بڑے آزار ہوئے
باوصفِ کرم، جو الجھن تھی وُہ اور کسی ڈھب جا نہ سکی
آخر کچھ وحشی جذبے ہی ہم دونوں کے غمخوار ہوئے
کیا چیت کی رُت اور کیا ساون جب سے دیکھا ہے اساڑھ ترا
سُونا ہے نگاہوں کا آنگن سب موسم اِس پر بار ہوئے
مُدّت سے ترستے تھے دِل میں جو لذّتِ یکدم کو ماجدؔ
تسکین ملے پر وُہ جذبے آخر کیُوں پُراسرار ہوئے
ماجد صدیقی

یوں بھی ہم تُم کبھی مِلا کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
کُھل کے اظہارِ مدّعا کرتے
یوں بھی ہم تُم کبھی مِلا کرتے
مانگتے گر کبھی خُدا سے تمہیں
لُطف آتا ہمیں دُعا کرتے
سج کے اک دُوسرے کے ہونٹوں پر
ہم بھی غنچہ صفت کھِلا کرتے
ہم پئے لُطف چھیڑ کر تُجھ کو
جو نہ سُننا تھا وُہ سُنا کرتے
جگنوؤں سا بہ سطحِ یاد کبھی
ٹمٹماتے، جلا بُجھا کرتے
بہر تسکینِ دیدہ و دل و جاں
رسمِ ناگفتنی ادا کرتے
پُھول کھِلتے سرِ فضا ماجدؔ
ہونٹ بہرِ سخن جو وار کرتے
ماجد صدیقی

جو حرفِ لطف ہے وہی کنجِ دہن میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
کس مہر کا ہے عکس کہ تیرے بدن میں ہے
جو حرفِ لطف ہے وہی کنجِ دہن میں ہے
دیکھے سے جس کے سِحر زدہ ہو ہر اک نگاہ
سربستگی سی کیا یہ ترے پیرہن میں ہے
رنگینیاں تجھی میں چمن کے جمال کی
اور سادگی وہی کہ جو کوہ و دمن میں ہے
ہر اوجِ آرزُو ہے نثار اِس نشیب پر
رفعت نہ جانے کیا ترے چاہِ زقن میں ہے
خنکی تو خیر جسم کی رشکِ چمن سہی
حدّت بھی اس طرح کہ کہاں دشت دبن میں ہے
حسرت سے دیکھتی ہیں سوالی رُتیں تجھے
کیا تازگی یہ تیری نظر کے ختن میں ہے
اُمڈے ہے حرف حرف میں کس شہ پہ اِن دنوں
ماجدؔ یہ لطفِ خاص جو تیرے سخن میں ہے
ماجد صدیقی

کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
سر سے تا پا حجاب سا وُہ
کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ
اُبھرے بھی جو سطحِ آرزُو پر
رُوکے نہ رُکے حباب سا وُہ
خوشبُو سا خیال میں دَر آئے
آنکھوں میں بسے گلاب سا وُہ
سب تلخ حقیقتوں پہ حاوی
رہتا ہے نظر میں خواب سا وُہ
حاصل ہے سرشکِ لالہ رُو کا
محجوب سا‘ دُرِّ آب سا وُہ
چھایا ہے بہ لُطف ہر ادا سے
خواہش پہ مری نقاب سا وُہ
ہُوں جیسے، اُسی کے دم سے قائم
تھامے ہے مجھے طناب سا وُہ
بارانِ کرم مرے لئے ہے
غیروں کے لئے عتاب سا وُہ
ماجدؔ ہو یہ جسُتجو مُبارک
ہاتھ آ ہی گیا سراب سا وُہ
ماجد صدیقی

آغوش سے چاند بن کے ڈھلنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
سورج سا نگاہ میں مچلنا
آغوش سے چاند بن کے ڈھلنا
چھپنا پسِ ابر چاند جیسا
لہروں سا سرِ نظر اُچھلنا
ہیں شاخِ نظر کے یہ تقاضے
یہ برگ نہ ہاتھ سے مسلنا
انمول ہیں سب گِلے یہ تیرے
یہ لعل لبوں سے پھر اُگلنا
مشکل ہے بغیرِ قرب تیرے
اِس رُوح و بدن کا اب سنبھلنا
یہ اذنِ طرب ترے لبوں پر
خوشبو کا کلی سے ہے نکلنا
موزوں ہے سخن تجھے یہ ماجدؔ
پہلو کوئی اور مت بدلنا
ماجد صدیقی

تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
سب سرحدوں سے شوق کی ہم پار ہو گئے
تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے
ہر جنبشِ بدن کے تقاضے تھے مختلف
جذبے تمام مائلِ اظہار ہو گئے
زندہ رہے جو تُجھ سے بچھڑ کر بھی مُدّتوں
ہم لوگ کس قدر تھے جگردار ہو گئے
اپنے بدن کے لمس کی تبلیغ دیکھنا
ہم سحرِ آذری کے پرستار ہو گئے
دو وقت، دو بدن تھے، کہ جانیں تھیں دو بہم
رستے تمام مطلعِٔ انوار ہو گئے
ماجد ہے کس کا فیضِ قرابت کہ اِن دنوں
پودے سبھی سخن کے ثمردار ہو گئے
ماجد صدیقی

چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
زہر اب ہے، مے ہے، انگبیں ہے
چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے
انوار ہی پھُوٹتے ہیں اُس سے
زرخیز بڑی وُہ سرزمیں ہے
جو ناز کرے اُسے روا ہے
وُہ شوخ ہے، شنگ ہے، حسیں ہے
ہالہ ہے کہ اُس کا ہے گریباں
مطلع ہے کہ اُس کی آستیں ہے
کیا ذکر ہو اُس کے آستاں کا
جو لطف ہے جانئے وہیں ہے
نسبت ہے یہی اب اُس سے اپنی
ہم خاتمِ چشم، وہ نگیں ہے
حرفوں سے جو منعکس ہے ماجدؔ
یہ بھی تو جمالِ ہم نشیں ہے
ماجد صدیقی

دل میں کچھ ہو تو اب سُجھاؤں تُجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
راکھ ہی راکھ کیا دکھاؤں تُجھے
دل میں کچھ ہو تو اب سُجھاؤں تُجھے
ہو میّسر کبھی جو قرب ترا
ہر رگِ جاں سے گنگناؤں تُجھے
شوخیٔ لب سے طیش میں لاؤں
اِن نگاہوں سے گدگداؤں تُجھے
تو کہ عنواں ہے چاہتوں کا مری
آ، بہ شاخِ نظر سجاؤں تُجھے
لطف اِن رفعتوں کا لے تو کبھی
آ، دل و چشم میں بساؤں تُجھے
تُو ہے خوشبو تو میں ہوں موجِ صبا
آ، ترا مرتبہ دلاؤں تُجھے
آ، کہ لکھا ہے جو لُہو میں مرے
قصّۂ دردِ جاں سناؤں تُجھے
ماجد صدیقی

پلکوں پہ وُہ جھلمل سے سارے، مری توبہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
رنجش میں پسِ چشم اشارے، مری توبہ
پلکوں پہ وُہ جھلمل سے سارے، مری توبہ
کس درجہ سبکسار کیا، جذبِ جنوں کو
محفل سے وُہ رخصت کیا اِشارے، مری توبہ
اظہارِ تمّنا ہی کیا تھا مگر اُس پر
انداز عتابی وہ تمہارے، مری توبہ
سُرخی سی لب و چشم میں وہ طیش و حیا کی
بپھرے ہوئے دریا کے کنارے، مری توبہ
اک شور سا رَگ رَگ میں، تمازت دل و جاں میں
آثار قیامت کے وُہ سارے، مری توبہ
جو پیکرِ اُمید تھا دل میں وُہی شق تھا
تھیں شوخ نگاہیں کہ وُہ آرے، مری توبہ
ماجدؔ سرِ اغیار جو گزری وُہی لکھے
کیا رُوپ قلم نے ترے دھارے، مری توبہ
ماجد صدیقی

وُہ مہرباں تھا تو کیں ہم نے وحشتیں کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
دمِ وصال پھلانگی گئیں حدیں کیا کیا
وُہ مہرباں تھا تو کیں ہم نے وحشتیں کیا کیا
ہر اِک کے نفس تھا کوئی موجۂ صبا جیسے
لبوں کے بیچ در آئی تھیں کونپلیں کیا کیا
رُوئیں رُوئیں کو زباں بحش دی تھی اُس نے مگر
وضاحتوں میں تھیں پھر بھی قباحتیں کیا کیا
لہُو میں آگ، شرارے نظر میں تھے اپنی
مچل اُٹھی تھیں بدن میں تمازتیں کیا کیا
یہ تن کہ جیسے چٹخنے کو جامِ مے ہو کوئی
لب و نگاہ میں رقصاں تھیں خواہشیں کیا کیا
ہُوا مباح ہمیں جو بھی کچھ کہ تھا ممنوع
ملیں بہ جنبشِ اَبُرد دُہ مہُلتیں کیا کیا
دل و نظر میں ابھی تک ہیں خنکیاں ماجدؔ
نجانے قرب میں تھیں اُس کے لذّتیں کیا کیا
ماجد صدیقی

چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
حُسن اُس کا بحّدِ نہاں دیکھنا
چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا
کیُوں نہ ہم اِس ادا پر ہی مرتے رہیں
چھیڑنا اور اُسے بدگماں دیکھنا
کنجِ لب جیسے کھڑکی کُھلے خُلد کی
قامت و قد کو طوبیٰ نشاں دیکھنا
ہائے وُہ ہاتھ جن کی ہے تحریر وُہ
حرف در حرف مخفی جہاں دیکھنا
اُس کے رُخ پرنظر کا نہ ٹِکنا تو پھر
دفعتاً جانبِ آسماں دیکھنا
اُس کے پیکر سے اپنی یہ وابستگی
گنگُ لمحوں کے منہ میں زباں دیکھنا
آنکھ سے تو شراروں کا جھڑنا بجا
لمس تک سے بھی اُٹھتے دُھواں دیکھنا
نازکی اُس کی اور تشنگی شوق کی
نوک پر خار کی پرنیاں دیکھنا
اس بیاں پر نہ معتوب ٹھہرو کہیں
دیکھنا ماجدِ خستہ جاں دیکھنا
ماجد صدیقی

حشر اِس دل میں اُٹھائے کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
خود کو ہم سے وُہ چھپائے کیا کیا
حشر اِس دل میں اُٹھائے کیا کیا
دمبدم اُس کی نظر کا شعلہ
مشعلیں خوں میں جلائے کیا کیا
ہم نے اُس کے نہ اشارے سمجھے
لعل ہاتھوں سے گنوائے کیا کیا
گلُ بہ گلُ اُس کے فسانے لکھ کر
درد موسم نے جگائے کیا کیا
لفظ اُس شوخ کے عشووں جیسے
ہم نے شعروں میں سجائے کیا کیا
حرف در حرف شگوفے ہم نے
اُس کے پیکر کے، کھلائے کیا کیا
لُطف کے سارے مناظر ماجدؔ
جو بھی دیکھے تھے دکھائے کیا کیا
ماجد صدیقی

دِل میں جو بات ہے ہونٹوں پہ بھی لایا کیجے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
حدّتِ خوں کے تقاضے نہ چھپایا کیجے
دِل میں جو بات ہے ہونٹوں پہ بھی لایا کیجے
سرد مہری سا بُرا وار نہ کیجے ہم پر
جانبِ غیر ہی یہ تِیر چلایا کیجے
یہ جنہیں مطلعِٔ انوار سمجھتے ہیں سبھی
ان لبوں سے کوئی مژدہ بھی سُنایا کیجے
حاصلِ عمر ہے یہ حرف، میانِ لب و چشم
خواہش قرب نہ باتوں میں اُڑایا کیجے
تشنگی جس سے کبھی دیدۂ باطن کی مِٹے
ایسا منظر بھی کبھی کوئی دکھایا کیجے
سامنا پھر نہ کسی لمحۂ گُستاخ سے ہو
دل میں سوئے ہوئے ارماں نہ جگایا کیجے
ہم مصوّر تجھے ٹھہرائیں کہ شاعر ماجدؔ
عکسِ جاناں ہی بہ ہر حرف نہ لایا کیجے
ماجد صدیقی

رات بھر ہم نکھرتے سنورتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
چاہتوں میں نئے رنگ بھرتے رہے
رات بھر ہم نکھرتے سنورتے رہے
اُس سے نسبت تھی جیسے شب و ماہ سی
نِت نئے طور سے ہم نکھرتے رہے
تن بدن اُس کا اِک لوح تھا جس پہ ہم
حرفِ تازہ بنے نِت اُبھرتے رہے
جیسے اُس کی مہک ہی سے سرشار تھے
پاس سے جو بھی جھونکے گزرتے رہے
ہم کو یک جا کیا اُس زرِ خاص نے
ہم کہ سیماب آسا بکھرتے رہے
نشۂ قرب سے جیسے باہم دگر
جان و دل میں، رگوں میں اُترتے رہے
اَب تو اپنا ہے ماجدؔ وُہ جس کے لئے
ہم بصد آرزُو روز مرتے رہے
ماجد صدیقی

ہو ترا کرم اَب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
چاہتے ہیں ہم اَب کے
ہو ترا کرم اَب کے
لُوٹنے کو جی چاہے
لطفِ کیف و کم اَب کے
حبس وُہ لُہو میں ہے
گھُٹ رہا ہے دم اَب کے
مثلِ ماہ و شب ہم بھی
کیوں نہ ہوں بہم اَب کے
کُچھ تو محو ہونے دے
ابروؤں کے خم اَب کے
پوچھتی ہے کیا ماجدؔ
موسموں کی نم اَب کے
ماجد صدیقی

نہ سہی پہ کُچھ تو ترا جواب ہے سامنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
جو نہیں ہے تُو، تو یہ ماہتاب ہے سامنے
نہ سہی پہ کُچھ تو ترا جواب ہے سامنے
ہے رواں لُہو میں ترے ہی لمس کا ذائقہ
شب و روز اک یہی عکسِ خواب ہے سامنے
وُہی جس کی آس مشامِ جاں کو رہی سدا
سرِ شاخِ شب وُہ کھِلا گلاب ہے سامنے
تری دید ہے کہ نظر میں حرف سُرور کے
ترا قرب ہے کہ کھُلی کتاب ہے سامنے
یہی شے تو وجہِ قیام خیمۂ لُطف ہے
یہ جو دو حدوں میں تنی طناب ہے سامنے
ہے تجھی سی پیاس اِسے بھی لختِ زمین جاںِ
یہی جو نظر میں تری سحاب ہے سامنے
وُہی کھو گئی تھی جو تُجھ سے ماجدِ ؔ بے سکوں
وُہی دیکھ! ساعتِ اضطراب ہے سامنے
ماجد صدیقی

مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
جب بھی دیکھوں یہ فلک، اَبر ہٹا کر دیکھوں
مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں
گلشنِ حُسن پہ ہو راج اِسی کا جیسے
ان دنوں مرغِ طلب کو وُہ لگے پر دیکھوں
اوج کے لمس سے پہنچوں بہ سرِ چشمۂ لُطف
پر جو اِیدھر سے اُتر پاؤں تو اُودھر دیکھوں
میری حیرت سے کھلے تُجھ پہ ترا حُسن مگر
آئنوں سا میں جبھی تُجھ کو برابر دیکھوں
لب پہ رقصاں ہے مرے، ہے جو پسِ چشم اُدھر
اِس شرارت میں بپا کتنے ہی محشر دیکھوں
بِین سا سامنے جس کے ترا پیکر گونجے
خواب میں بھی ترے آنگن میں وہ اژدر دیکھوں
شعبدہ ہے، کہ تقاضا یہ تری دید کا ہے
ہر بُنِ مُو میں سمائے ہوئے اخگر دیکھوں
اِک لب و چشم تو کیا اِن کے سوا بھی ماجدؔ
جذبۂ شوق کے کیا کیا نہ کھلے در دیکھوں
ماجد صدیقی

نظر میں کیا یہ الاؤ جلا دئیے تُو نے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
جو سو چکے تھے وُہ جذبے جگا دئیے تُو نے
نظر میں کیا یہ الاؤ جلا دئیے تُو نے
شگفتِ تن سے، طلوعِ نگاہِ روشن سے
تمام رنگ رُتوں کے بھلا دئیے تُو نے
تھا پور پور میں دیپک چھُپا کہ لمس ترا
چراغ سے رگ و پے میں جلا دئیے تُو نے
لباسِ ابر بھی اُترا مِہ بدن سے ترے
حجاب جو بھی تھے حائل اُٹھا دئیے تُو نے
ذرا سے ایک اشارے سے یخ بدن کو مرے
روانیوں کے چلن سب سِکھا دئیے تُو نے
کسی بھی پل پہ گماں اب فراق کا نہ رہا
خیال و خواب میں وہ گُل کھلا دئیے تُو نے
جنم جنم کے تھے سُرتال جن میں خوابیدہ
کُچھ ایسے تار بھی اب کے ہلا دئیے تُو نے
سخن میں لُطفِ حقائق سمو کے اے ماجدؔ
یہ کس طرح کے تہلکے مچا دئیے تُو نے
ماجد صدیقی

رُوح میں تُجھ کو سمایا دیکھوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
تن بدن لُطف سے نِکھرا دیکھوں
رُوح میں تُجھ کو سمایا دیکھوں
اشک در اشک ہوں عنواں تیرے
آئنوں میں تجھے اُترا دیکھوں
فیصلہ یہ بھی سُنا دے مجھ کو
مَیں ٹھہر جاؤں کہ رستہ دیکھوں
دیکھ کر چاند اُفق پر اُبھرا
تُجھ کو دیکھوں ترا ماتھا دیکھوں
ہاتھ پر لمس کی تحریر تری
ان لبوں سے تُجھے چکھا دیکھوں
کیسا موسم ہے یہ دِل پر ماجدؔ
تہ بہ تہ رنگ یہ کیا کیا دیکھوں
ماجد صدیقی

آئنہ جیسے ریگ زاروں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
تو نمایاں ہے یُوں نگاروں میں
آئنہ جیسے ریگ زاروں میں
حُسن سارا وُہ اِک تجھی میں ہے
ڈھونڈتا ہُوں جسے ہزاروں میں
جب سے مہکا ہے تن بدن تیرا
کھلبلی سی ہے اِک بہاروں میں
عالمِ خواب ہے کہ قُرب تِرا
گھر گیا ہوں عجب شراروں میں
پھُوٹتی ہے جو کنجِ لب سے ترے
آگ ایسی کہاں چناروں میں
روز تفسیرِ لطفِ جاں دیکھوں
تیرے مبہم سے اِن اشاروں میں
لہلہاتا ہے مثلِ گلُ تُو ہی
فکرِ ماجدؔ کے کشت زاروں میں
ماجد صدیقی

یہ رنگ بھی آ، تجھے دکھاؤں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
تن میں ترے مشعلیں جلاؤں
یہ رنگ بھی آ، تجھے دکھاؤں
چاہت کا وہِسحر تُجھ پہ پھونکوں
رگ رگ میں قیامتیں مچاؤں
تکمیل کروں کبھی تو اپنی
تجھ کو سرِ جسم و جاں سجاؤں
مخفی پسِ لب کلی کلی کے
جو راز ہے، وُہ تجھے بتاؤں
مَیں خود ہی جواب جن کا ٹھہروں
ایسے بھی سوال کُچھ اُٹھاؤں
غنچوں کی چٹک ہو جس پہ شیدا
وُہ زمزمہ اَب کے گنگناؤں
ہر لُطف ہے اِس میں ہر مزہ ہے
ماجدؔ کی غزل ہے کیوں نہ گاؤں
ماجد صدیقی

پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
پھُول انوار بہ لب، ابر گہر بار ہوئے
پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے
کچھ سزا اِس کی بھی گرہے تو بچیں گے کیسے
ہم کہ جو تُجھ سے تغافل کے گنہگار ہوئے
ہونٹ بے رنگ ہیں، آنکھیں ہیں کھنڈر ہوں جیسے
مُدّتیں بِیت گئیں جسم کو بیدار ہوئے
وُہ جنہیں قرب سے تیرے بھی نہ کچھ ہاتھ لگا
وُہی جذبات ہیں پھر درپئے آزار ہوئے
جب بھی لب پر کسی خواہش کا ستارا اُبھرا
جانے کیا کیا ہیں اُفق مطلعٔ انوار ہوئے
اب تو وا ہو کسی پہلو ترے دیدار کا در
یہ حجابات تو اب سخت گراں بار ہوئے
چھیڑ کر بیٹھ رہے قصّۂ جاناں ماجدؔ
جب بھی ہم زیست کے ہاتھوں کبھی بیزار ہوئے
ماجد صدیقی

رُتوں کے رنگ سبھی ساتھ لیتے جاؤ گے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
بچھڑ چلے ہو تو کیا پھرکبھی نہ آؤ گے
رُتوں کے رنگ سبھی ساتھ لیتے جاؤ گے
بھٹکنے دو گے نہ کب تک اِسے قریب اپنے
مرے خیال کے پر کب تلک جلاؤ گے
فلک پہ قوسِ قزح جس طرح پسِ باراں
افق پہ کیا مرے، تم یوں نہ جھلملاؤ گے
نہ رہ سکیں گے چھپے یہ خطوط لُطف، جنہیں
بہ احتیاط تہ پیرہن چھپاؤ گے
وُہ جس سے جسم میں چنچل رُتوں کے در وا ہوں
وُہ اِذنِ خاص زباں پر کبھی تو لاؤ گے
پسِ خیال لئے شوخیٔ گریز اپنی
ہوئی ہے شام تو اب رات بھر ستاؤ گے
گمان و وہم کی دلدل سے جانے کب ماجدؔ
ہماری جانِ گرفتہ کو تم چھڑاؤ گے
ماجد صدیقی

پھول ہو تم کلی نہ بن جاؤ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
بات سمجھو نہ اور ترساؤ
پھول ہو تم کلی نہ بن جاؤ
چاند سے اِس رُخِ منّور کو
حرفِ انکار سے نہ گہناؤ
ہم سمجھتے ہیں چشم و دل کی زباں
اتنا ناداں ہمیں نہ ٹھہراؤ
مثلِ خوشبُو در آؤ ہر در سے
مثلِ گُل اِس نظر میں لہراؤ
مسکنِ درد ہے یہ تن اِس کو
لمس و لطفِ نظر سے سہلاؤ
یخ ہیں پہلو مرے کبھی اِن کو
حدتِ جسم و جاں سے گرماؤ
ہو مزّین تمہی سے اپنا بدن
اِس کے صفحوں پہ یُوں اُتر آؤ
ماجد صدیقی

کبھی ملو کہ خیابانِ تن میں پھُول کِھلیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
بفیضِ قرب پھریں مستیٔ نظر کی رُتیں
کبھی ملو کہ خیابانِ تن میں پھُول کِھلیں
یہی حجاب تو ہیں وجہِ خامشی، ورنہ
سُنیں تمہاری بھی، کچھ اپنے دل کی بات کہیں
یہ حرفِ گرم، تہِ حلق رُک گیا کیسا
سُلگ اُٹھی ہیں یہ کیونکر لب و زباں کی تہیں
کسی اُفق کو تو ہم تُم بھی دیں جنم آخر
یہ آسمان و زمیں بھی کسی جگہ تو ملیں
کبھی تو دیجئے آ کر اِنہیں بھی اِذنِ کشود
پڑی ہیں خوں میں جو گرہیں کسی طرح تو کھُلیں
یہ شُعلہ ہائے بدن اپنے سامنے پا کر
چراغ کیوں نہ لُہو کے بچشمِ شوق جلیں
وہ دِن بھی آئیں کہ بالطفِ دید ہم ماجدؔ
نظر کے حُسن سے باہم فضا میں رنگ بھریں
ماجد صدیقی

موسم سے یہ خراج کسی دم تو پائیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
باہم طراوتِ شبِ راحت لٹائیں ہم
موسم سے یہ خراج کسی دم تو پائیں ہم
معراج ہے بدن کی یہ ساعت ملاپ کی
ہے پیاس جس قدر بھی نہ کیونکر مٹائیں ہم
جذبوں کی مشعلیں ہوں فروزاں سرِزباں
محفل دل و نگاہ کی یوں بھی سجائیں ہم
دیکھے بہ رشک چاند ہمیں جھانک جھانک کر
یوں بھی بہ لطفِ خاص کبھی جگمگائیں ہم
بپھری رُتوں کے رنگ سبھی دِل میں سینت لیں
تقریب اِس طرح کی بھی کوئی منائیں ہم
کیونکر پئے حُصولِ ثمر مثلِ کودکاں
شاخِ سُرور کو نہ بعجلت ہلائیں ہم
ماجدؔ کبھی تو رشتۂ جاں ہو یہ اُستوار
قوسیں یہ بازوؤں کی کبھی تو ملائیں ہم
ماجد صدیقی

ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
ایک وُہ شخص ہی احوال نہ جانے میرے
ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے
مَیں نہ خوشبُو نہ کرن، رنگِ سحر ہوں نہ صبا
کون آتا ہے بھلا ناز اُٹھانے میرے
ہاں وُہی دن کہ مرے حکم میں تھا تیرا بدن
جانے کب لوٹ کے آئیں وُہ زمانے میرے
چشم و رُخسار، وہ چہرہ، وہ نظرتاب اُبھار
ہیں وُہی شوق کی تسبیح کے دانے میرے
ضرب کس ہاتھ کی جانے یہ پڑی ہے اِن پر
چُور ہیں لُطف کے سب آئنہ خانے میرے
اُس نے تو آگ دکھا کر مجھے پُوچھا بھی نہ پھر
آیا ہوتا وہ الاؤ ہی بجھانے میرے
جب سے کھویا ہے وُہ مہتاب سا پیکر ماجدؔ
سخت سُونے میں نگاہوں کے ٹھکانے میرے
ماجد صدیقی

آ ۔۔۔ اور مری تشنگیٔ جاں میں اُتر جا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
اک بار تو ایسی بھی جسارت کبھی کر جا
آ ۔۔۔ اور مری تشنگیٔ جاں میں اُتر جا
ویرانیٔ دل پر کبھی اتنا تو کرم کر
اِس راہگزر سے نمِ موسم سا گُزر جا
طُرفہ ہیں بُہت میرے دل و جاں کی پھواریں
اس بزم میں آ اور مثالِ گُلِ تر جا
دیکھوں میں طلُوعِ رُخِ انور ترا یُوں بھی
آ ۔۔۔ مثل سحر لمس کی شبنم سے نکھر جا
رہنے دے کسی پل تو یہ اندازِ شہابی
مختار ہے تو ۔۔۔ پھر بھی کوئی دم تو ٹھہر جا
پڑتا ہے رہِ شوق میں کچھ اور بھی سہنا
ماجدؔ نہ فقط خدشۂ رسوائی سے ڈر جا
ماجد صدیقی

میانِ قامت و رُخ جُوں سجے ہیں گال ترے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
افق پہ ذہن کے موزوں ہیں یُوں خیال ترے
میانِ قامت و رُخ جُوں سجے ہیں گال ترے
یہ دشتِ دید ترستا ہے کیوں نظر کو تری
بہ قیدِ چشم ہیں کیوں کر ابھی غزال ترے
گمان‘ برگ و ثمر پر ترا ہی صبح و مسا
خطوطِ حُسن ہویدا ہیں‘ ڈال ڈال ترے
ہرا بھرا ترے دم سے ہے گُلستانِ خیال
بہ کشتِ یاد فسانے ہیں چھال چھال ترے
اُسی سے رقص میں ہے شاخِ آرزوئے وصال
ہیں جس ہوا سے شگفتہ یہ ماہ و سال ترے
نکلنے دیں گے کہاں حلقۂ ضیا سے مُجھے
سحر نما یہ کرشمے ترے، خیال ترے
کبھی یہ شعر بھی ماجدؔ کے دیکھنا تو سہی
نقوش اِن میں بھی اُترے ہیں خال خال ترے
ماجد صدیقی

یہ مشعلیں بھی جلا کے دیکھو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
آنکھوں میں مری سما کے دیکھو
یہ مشعلیں بھی جلا کے دیکھو
ہے جسم سے جسم کا سخن کیا
یہ بزم کبھی سجا کے دیکھو
پیراک ہوں بحرِ لطفِ جاں کا
ہاں ہاں مجھے آزما کے دیکھو
اُترو بھی لہُو کی دھڑکنوں میں
کیا رنگ ہیں اِس فضا کے دیکھو
مخفی ہے جو خوں کی حِدتّوں میں
وہ حشر کبھی اٹُھا کے دیکھو
بے رنگ ہیں فرطِ خواب سے جو
لمحے وہ کبھی جگا کے دیکھو
بہلاؤ نہ محض گفتگو سے
یہ ربط ذرا بڑھا کے دیکھو
ملہار کے سُر ہیں جس میں پنہاں
وُہ سازِ طرب بجا کے دیکھو
طُرفہ ہے بہت نگاہِ ماجدؔ
یہ شاخ کبھی ہلا کے دیکھو
ماجد صدیقی

کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یونہی نہ ہم بھی تمنّائے لعلِ نابِ کریں
کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں
تنے بھی خیر سے زد میں اِسی ہوا کی ہیں
شکست شاخ سے اندازۂ عتاب کریں
لکھے ہیں شعر تو چھپوا کے بیچئے بھی انہیں
یہ کاروبار بھی اب خیر سے جناب کریں
بدل گیا ہے جو مفہوم ہی مروّت کا
تو کیوں نہ ایسی برائی سے اجتناب کریں
ٹھہر سکیں تو ٹھہر جائیں اب کہیں ماجدؔ
ہمِیں نہ پیروئِ جنبشِ حباب کریں
ماجد صدیقی

مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
یہ روز و شب مرے سر ہی عذاب سا کیا ہے
مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے
یہی متاع‘ یہی آرزو ہے دان ترا
یہ میری سطح پہ پھٹتا حباب سا کیا ہے
کہوں نہ کیوں ترے منہ پر جو مجھ پہ گزرے ہے
مجھے یہ باک سا تجھ سے حجاب سا کیا ہے
ہوئی نہ سیر کہیں بھی مری عمق نظری
مری نظر سے گزرتا یہ خواب سا کیا ہے
ملا ہے جو بھی رُتوں سے، پڑے گا لوٹانا
نمو طلب تھے تو اب سے پیچ و تاب سا کیا ہے
قرارِ جاں ہے تو ماجدؔ اُسے تلاش بھی کر
حصولِ یار سے یہ اجتناب سا کیا ہے
ماجد صدیقی

وسعتِ فکر کچھ ایسی ہے کہ تنہا ٹھہرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
یوں تو ہم اِس کے سبب دُنیا میں یکتا ٹھہرے
وسعتِ فکر کچھ ایسی ہے کہ تنہا ٹھہرے
تو کہ تھا موسمِ گُل ہم سے کھنچا ہے کب کا
شاخ اُمید پہ اب کیا کوئی پتّا ٹھہرے
سایۂ ابر تھے یا موجِ ہوا تھے، کیا تھے
ہائے وہ لوگ کہ تھے ہم سے شناسا ٹھہرے
کچھ تو ہو گرد ہی بر دوشِ ہوا ہو چاہے
سر پہ مجھ دشت کے راہی کے بھی سایہ ٹھہرے
پھُول باوصفِ زباں حال نہ پوچھیں میرا
خامشی اِن کی بھی تیرا نہ اشارہ ٹھہرے
نہ ہر اک سمت بڑھا دستِ تمنا ماجدؔ
یہ بھی آخر کو گدائی کا نہ کاسا ٹھہرے
ماجد صدیقی

نظر میں جو بھی ہو منظر نشے میں چُور ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
ہر ایک لمحۂ بے کیف کو سُرور ملے
نظر میں جو بھی ہو منظر نشے میں چُور ملے
کہیں تو کس سے کہ تھوتھا چنا گھنا باجے
ہمیں تو اپنے بھی دل میں یہی فُتور ملے
طلب کو چاہئے آخر فراخئِ دل بھی
یہ منہ رہا تو نہ کھانے کو پھر مسُور ملے
شعُور ہو تو پسِ شاخ، برگ و گُل ہیں بہت
ہر ایک سنگ میں دیکھو تو عکسِ طور ملے
ماجد صدیقی

اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
ہو جائے گا کچھ اور ہرا زخم، نظر کا
اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا
مجھ کو بھی تمازت کی جو پہچان ہوئی ہے
احساں ہے تری راہ کے اک ایک شجر کا
لمحے مجھے صدیاں ہیں، برس ثانیے تجھ کو
کہتے ہیں یہی فرق ہے اندازِ نظر کا
سنتا ہوں تہہِ خاک سے غنچوں کی چٹک بھی
آتا ہے نظر عکس جو قطرے میں گہر کا
شامل ہوئی کس شب کی سیاہی مرے خوں میں
آتا ہی نہیں لب پہ کبھی نام سحر کا
ماجد کہیں اس شہر میں ٹھکرائے نہ جاؤ
تحفہ لئے پھرتے ہو کہاں دیدۂ تر کا
ماجد صدیقی

سحر نما ہے مجھے جو بھی کچھ کہا ہے مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
ہر ایک حرفِ غزل حرفِ مدّعا ہے مرا
سحر نما ہے مجھے جو بھی کچھ کہا ہے مرا
جو بعدِ قتل مرے، خوش ہے تُو، تو کیا کہنے
ترے لبوں کا تبسّم ہی خوں بہا ہے مرا
مرے سوال سے تیرا بھرم نہ کُھل جائے
ترے حضور بھی اب ہاتھ تو اُٹھا ہے مرا
بھلائی جب مرے ہاتھوں نہیں مرے حق میں
کہو گے جو بھی اُسی بات میں برا ہے مرا
کہیں تو خاک بسر ہوں،کہیں ہوں ماہ بدست
بڑا عجیب طلب کا یہ سلسلہ ہے مرا
ماجد صدیقی

کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
ہوا وہ جبر دبانے کو مدعّا اب کے
کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے
وہ کیسا حبس تھا مہریں لبوں پہ تھیں جس سے
یہ کیسا شور ہے در در سے جو اُٹھا ہے اب کے
دَہن دَہن کی کماں اِس طرح تنی نہ کبھی،
بچا نہ تیر کوئی جو نہیں چلا اَب کے
شجر کے ہاتھ سے سایہ تلک کھسکنے لگا
وہ سنگ بارئِ طفلاں کی ہے فضا اب کے
خلاف ظلم سبھی کاوشیں بجا لیکن
سرِ غرور تو کچھ اور بھی اُٹھا اب کے
کوئی یہ وقت سے پوچھے کہ آخرش کیونکر
ہے آبِ نیل تلک بھی رُکا کھڑا اب کے
لبوں پہ خوف سے اِک تھرتھری سی ہے ماجدؔ
دبک گیا ہے کہیں کلمۂ دُعا اَب کے
ماجد صدیقی

کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہیں لب کشا بھی مگر جیسے کچھ کہا ہی نہیں
کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں
بھنور بھی جھاگ سی بس سطحِ آب پر لایا
جو تہہ میں ہے وُہ ابھی تک اُبھر سکا ہی نہیں
ہمیں جو ہوش میں لائے تو زلزلہ ہی کوئی
وہ بے حسی کا نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
یہ کیسا عام ہے اعلانِ صحتِ یاراں
ہمیں جو روگ تھا وہ تو ابھی گیا ہی نہیں
شکستِ دل بھی شکستِ حباب تھی جیسے
فضائے دہر میں اُٹھی کوئی صدا ہی نہیں
کسی پہ حال ہمارا عیاں ہو کیا ماجدؔ
کھُلا کسی پہ کبھی حرفِ مدّعا ہی نہیں
ماجد صدیقی

دام کے زیرِ قدم ہونے کا اندازہ نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
وار تو حالات نے جو بھی کیا تازہ نہ تھا
دام کے زیرِ قدم ہونے کا اندازہ نہ تھا
کچھ نہ کچھِاس میں کرشمہ ناز کا بھی تھا ضرور
منہ کی کھانا خام فکری ہی کا خمیازہ نہ تھا
چہرہ چہرہ عکس سا سمجھا گیا جو پیار کا
وہ تمازت تھی اُبلتے خون کی غازہ نہ تھا
آ گئے ہوتے مثالِ خس نہ یوں گرداب میں
سیل جو اب کے اُٹھا اُس کا کچھ آوازہ نہ تھا
پل میں جو ماجدؔ بدل کر دھجّیوں میں رہ گئی
اُس کتابِ فکر کا ایسا تو شیرازہ نہ تھا
ماجد صدیقی

لپک کے موج کناروں کو جیسے چھُو آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
وُہ حسن پاس مرے یوں پئے نمو آئے
لپک کے موج کناروں کو جیسے چھُو آئے
درِ سکون پہ جوں قرض خواہ کی دستک
کبھی جو آئے تو یوں دل میں آرزو آئے
نہیں ضرور کہ الفاظ دل کا ساتھ بھی دیں
یہ ذائقہ تو سخن میں کبھو کبھو آئے
نہیں ہے اہل ترے، میری خانہ ویرانی
خدا کرے مرے گھرمیں کبھی نہ تو آئے
بھنور میں جیسے ہم آئے مثالِ خس ماجدؔ
کوئی نہ یوں کسی آفت کے روبرُو آئے
ماجد صدیقی

بنی ہے تتلی مری خواہشوں کے پھولوں کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
وہی کہ جس کی مجھے جستجو تھی برسوں کی
بنی ہے تتلی مری خواہشوں کے پھولوں کی
سفر میں گرچہ دُعائیں بھی کچھ تھیں شاملِ حال
نگاہِ بد بھی ہمِیں پر لگی تھی لوگوں کی
بھگوئے رکھتے ہیں یوں ریگِ آرزو ہم بھی
کہ جیسے شغل ہی تعمیر ہو گھروندوں کی
پڑاؤ ہو تو کہیں ہم بھی تازہ دم ہو لیں
ہُوا لباس ہی جیسے یہ گرد رستوں کی
ملے گا اب کسی طوفاں کے بعد ٹھہراؤ
بہت دنوں سے مکّدر فضا ہے شہروں کی
کچھ ایسے رُک سا گیا عہدِ بے بسی جیسے
جمی ہے لمحوں کے چہروں پہ گرد صدیوں کی
بیان کیا ہو کہ ماجدؔ جھلک تھی کیا اس کی
وہ تازگی تھی کہ کھیتی ہو جیسے سرسوں کی
ماجد صدیقی

جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
نِت یکجا ہوتا ہوں، روز بکھرتا ہوں
جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں
استعمال سے اِن کے پھل بھی پاتا ہوں
میں جھولی میں پہلے کنکر بھرتا ہوں
سچ بھی جیسے اک ناجائز بچّہ ہے
میں جس کے اظہار سے ابتک ڈرتا ہوں
دہ چندا ہو ابر ہو یا ہو موجۂ مے
جو دم توڑے ساتھ اُسی کے مرتا ہوں
سوچُوں تو اک یہ صورت بھی ہے میری
میں سورج کے ساتھ بھی روز ابھرتا ہوں
باہم شکل بدلتے تخم و شجر سا میں
ہر پچیس برس کے بعد نکھرتا ہوں
دیکھ تو لُوں ماجدؔ ہے مقابل کون مرے
جور و جفا کی تہمت کس پر دھرتا ہوں
ماجد صدیقی

پہچان موسموں کے دئیے پیرہن سے ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
نسبت شجر شجر کو اگرچہ چمن سے ہے
پہچان موسموں کے دئیے پیرہن سے ہے
پہلو میں میرے جس کی طراوت ہے موج موج
یہ لب شگفتگی اُسی تازہ بدن سے ہے
ہر آن اشک اشک جھلکتی رہی تھی جو
دبکی ہوئی وہ آگ بھڑکنے کو تن سے ہے
کھٹکا ہی کیا بھنور کا، گُہرجُو ہوئے تو پھر
اب نت کا واسطہ اِسی رنج و محن سے ہے
تیرا رقیب ہو تو کوئی بس اِسی سے ہو
ماجدؔ تجھے جو ربط نگارِ سخن سے ہے
ماجد صدیقی

گرفت کون سے لمحے پہ اپنی جتلائیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
نفس نفس ہے رہینِ الم کدھر جائیں
گرفت کون سے لمحے پہ اپنی جتلائیں
ہمیں ملی ہیں یہ کیا کامرانیاں اب کے
کہ جن کا ذکر بھی چھیڑیں تو خود ہی شرمائیں
جب اپنے نام کی سب چاہتیں دلائیں اُنہیں
تو غیر مات پہ کیونکر نہ اپنی اِترائیں
جو فرق عکسِ شباہت میں ہے انہی سے ہے
بہ ضربِ طیش اِنہی آئنوں کو چٹخائیں
وہی بعجز و ندامت ہیں نسبتیں جس کی
چلو کہ طوق وہی پھر گلے میں لٹکائیں
جو وُوں نہیں تو یہ اعزاز یوں بھی ممکن ہے
حماقتوں کے عَلَم شہر شہر لہرائیں
کسی بھی حرف کی ماجدؔ نہیں جو شنوائی
تو پھر یہ ہاتھ دُعا کے ہی کیوں نہ کٹ جائیں
ماجد صدیقی

گھرے ہیں لوگ طلسماتِ آرزو میں ابھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
نظر نظر ہے مرادوں کی جستجو میں ابھی
گھرے ہیں لوگ طلسماتِ آرزو میں ابھی
وہ بات جس کو جھلکنا تھا ہر جبیں سے یہاں
رکی ہے پھانس سی بن کر گلو گلو میں ابھی
ابھی لبوں پہ کہاں حرفِ مدّعا کے نشاں
دبی ہے اصل صدا دل کی ہاؤ ہُو میں ابھی
عجب نہیں کوئی بادل اسی پہ گھر آئے
نمی سی ہے جو یہ اک ریگِ آبجو میں ابھی
کبھی جو تجھ پہ زبان و نگاہ سے نہ کھلی
مچل رہی ہے شرارت وہی لہو میں ابھی
دل و نظر ہی پہ کچھ بس نہیں ہے لطفِ بہار
تہیں بہت ہیں پلٹنے کو رنگ و بو میں ابھی
کتابِ زیست مکمل ہو، جانے کب ماجدؔ
ہے انتشار سا اوراقِ آبرو میں ابھی
ماجد صدیقی

بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
نہ باز آئے یہ لُو اور نہ تن سے جاں نکلے
بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے
ہمیں بہار کے ہونٹوں کی نرمیوں کے امیں
ہمیں وہ برگ کہ پیغمبرِ خزاں نکلے
جہاں گلاب سخن کے سجائے تھے ہم نے
شرر بھی کچھ اُنہی حرفوں کے درمیان نکلے
زخستگی لبِ اظہار کا تو ذکر ہی کیا
کشش سے جیسے قلم کی بھی اب دھواں نکلے
ہمارا حال جبیں سے ہی جاننا اچھا
زباں سے کیا کوئی اب کلمۂ گراں نکلے
حضورِ یار ہیں وہ جاں سپار ہم ماجدؔ
ہو حکمِ قتل بھی اپنا تو منہ سے ہاں نکلے
ماجد صدیقی

کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
نسبت وہ سخن سے ہو اِک نطق رواں ٹھہروں
کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں
ایسا بھی کوئی منظر دکھلائیں تو دُنیا کو
تو گل بکنارِ جو، میں آبِ رواں ٹھہروں
اتنی تو مجھے آخر، اظہار کی فرصت دے
تو راز ہو سربستہ، میں تیرا بیاں ٹھہروں
ہر دم‘ دمِ عیسٰی ہے اپنا بھی، جو پہچانوں
ہوں عہد نئے پیدا، پل بھر کو جہاں ٹھہروں
یہ شہر تو اب جیسے اک شہرِ خموشاں ہے
کس در سے گزر جاؤں، ٹھہروں تو کہاں ٹھہروں
صورت مرے جینے کی ماجدؔ ہو صبا جیسی
نس نس میں گُلوں کی مَیں، اُتری ہوئی جاں ٹھہروں
ماجد صدیقی

بھلا لگتا ہے کیوں ہر حادثے سے بے خبر ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
نہیں اچّھا فنا کا اِس قدر بھی دل میں ڈر ہونا
بھلا لگتا ہے کیوں ہر حادثے سے بے خبر ہونا
سرِ راہ کے شجر تھے سنگباری ہم پہ لازم تھی
نہفتہ کس طرح رہتا ہمارا باثمر ہونا
بنامِ تازگی تاراج کیا کیا کچھ نہ کر ڈالا،
کسے حاصل ہے مانندِ ہوا یوں باہنر ہونا
سراغِ راہِ منزل تو کبھی کا ہم لگا لیتے
لئے بیٹھا ہے اپنے ہمرہوں کا کم نظر ہونا
دُھلی نظروں سے اُس کی دید ہم پر فرض تھی گویا
پسند آیا اِسی خاطر ہمیں با چشمِ تر ہونا
پسِ خوشبو بھی مرگِ گل کا منظر دیکھتے ہیں ہم
بہت مہنگا پڑا ماجدؔ ہمیں اہلِ نظر ہونا
ماجد صدیقی

نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
نگاہ ہم پہ جو وہ گاہ گاہ کرتے رہے
نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے
تھے اُن کے ناز نظر میں، نیاز تھے اپنے
بیاں حکایتِ محتاج و شاہ کرتے رہے
بھٹکنے دی نہ نگہ تک کسی کی پاس اپنے
یہی وہ جبر تھا جو اہلِ جاہ کرتے رہے
ہر ایک شب نے دئیے زخم جو ہمیں، اُن پر
ستارۂ سحری کو گواہ کرتے رہے
ہمیں سے پوچھئے اِس ربط میں مزے کیا ہیں
کہ رفعتوں سے ہمیں رسم و راہ کرتے رہے
چمن میں برق نے پھر کی ہے کوئی صنّاعی
ہوا کے ہونٹ جبھی واہ واہ کرتے رہے
کرم غیاب میں کچھ اُس سے تھا جُدا ماجدؔ
ہمارے سامنے جو خیر خواہ کرتے رہے
ماجد صدیقی

چَپک کے رہ گئے ہونٹوں سے سب سوال اپنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
نظر میں رنج ہے سہلا رہا ہوں گال اپنے
چَپک کے رہ گئے ہونٹوں سے سب سوال اپنے
اجُڑ گئے کسی بیوہ کے گیسوؤں کی طرح
وہ جن پہ ناز تھا، ہاں ہاں وہ ماہ و سال اپنے
ہوا کی کاٹ بھی دیکھ اور اپنی جان بھی دیکھ
جنوں کے مُرغ! نہ تو بال و پر پر نکال اپنے
اِدھر تو کاہِ نشیمن نہ چونچ تک پہنچا
اُٹھا کے دوش پہ نکلے اُدھر وہ جال اپنے
اُڑان ہی سے تھے فیضان سارے وابستہ
پروں کے ساتھ سمٹتے گئے کمال اپنے
دبا نہ اور ابھی تُو گلوئے ہم جِنساں
یہ سارے بوجھ خلاؤں میں اب اُچھال اپنے
بہ شاخِ نطق ہیں پہرے اگر یہی ماجدؔ
کوئی خیال نہ لفظوں میں تو بھی ڈھال اپنے
ماجد صدیقی

وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
نہ پُوچھ مجُھ سے بھَلا میں کہاں سُنورتا ہُوں
وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں
نظر ملے تو کبھی سُوئے اوج بھی دیکھوں
میں کور چشم نشیبوں میں ہی اُترتا ہُوں
بہ ایں بساط روانی کہاں مرے بس میں
کنارِ آب فقط جھاگ سا اُبھرتا ہُوں
ہوائے زرد وہیں مجھ کو آن لیتی ہے
رُتوں کے لُطف سے جَب بھی کبھی نکھرتا ہُوں
جو فرق فہم میں اپنے ہے اُس سے مُنکر ہُوں
نہ جانے تہمتیں کیوں دوسروں پہ دھرتا ہُوں
عجیب شخص ہُوں شہ رگ کٹے پہ بھی اکثر
بطرزِ خاص سرِ عام رقص کرتا ہُوں
لبوں پہ کرب اُمڈتا ہے اِس قدر ماجدؔ
چھپی رہے نہ وُہی بات جس سے ڈرتا ہوں
ماجد صدیقی

ملے جو ہم تو لبوں پر سوال کیا کیا تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
نظر میں واہمے، دل میں خیال کیا کیا تھے
ملے جو ہم تو لبوں پر سوال کیا کیا تھے
وُہ کرکے وار چلے تو غرور سے لیکن
قدم اُنہیں بھی اُٹھانے محال کیا کیا تھے
زمیں اجاڑ، فضا پُر شرر، فلک عریاں
پئے عذاب نظر کو وبال کیا کیا تھے
مہک ہماری لگی بھی تو ہاتھ صرصر کے
کسے جتائیں کہ اپنے کمال کیا کیا تھے
چٹک گلوں کی کہیں دُھول کا سکوت کہیں
رُتوں کے رنگ سجے ڈال ڈال کیا کیا تھے
بہ شکلِ خواب تھا امکانِ وصلِ یار سدا
عُروج کیا تھے ہمارے زوال کیا کیا تھے
رُتوں نے عہد سبھی محو کر دئیے، ورنہ
حروفِ ربط لکھے چھال چھال کیا کیا تھے
تھا ابتدا سے یہی حبس، ہے جو اَب ماجدؔ
نہ پوچھ مجھ سے مرے ماہ وسال کیا کیا تھے
ماجد صدیقی

بیٹھا ہوں میں بھی تاک لگائے مچان پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
مجھ پر بنے گی گر نہ بنی اُس کی جان پر
بیٹھا ہوں میں بھی تاک لگائے مچان پر
حیراں ہوں کس ہوا کا دباؤ لبوں پہ ہے
کیسی گرہ یہ آ کے پڑی ہے زبان پر
کیا سوچ کر اُکھڑ سا گیا ہوں زمیں سے میں
اُڑتی پتنگ ہی تو گری ہے مکان پر
اُس سے کسے چمن میں توقع امان کی
رہتا ہے جس کا ہاتھ ہمیشہ کمان پر
شامل صدا میں وار کے پڑتے ہی جو ہُوا
چھینٹے اُسی لہو کے گئے آسمان پر
پنجوں میں اپنے چیختی چڑیا لئے عقاب
بیٹھا ہے کس سکون سے دیکھو چٹان پر
کیونکر لگا وہ مارِ سیہ معتبر مجھے
ماجدؔ خطا یہ مجھ سے ہوئی کس گمان پر
ماجد صدیقی

عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
مکتبِ تخلیقِ فن میں حال یہ اپنا ہوا
عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا
بہرِ ردِ عذر ہے بادِ خنک لایا ضرور
ابر کشتِ خشک تک پہنچا ہے پر برسا ہُوا
سرو سا اُس کا سراپا ہے الف اظہار کا
ہے جبینِ خامشی پر جو مری لکھا ہُوا
رنگ میں ڈوبا ہوا ہر دائرہ اُس جسم کا
پیرہن خوشبو کا ہے ہر شاخ نے پہنا ہوا
ہر نظر شاخِ سخن ہے پھول پتّوں سے لدی
ہے خمارِ آرزُو کچھ اِس طرح چھایا ہُوا
تجھ پہ بھی پڑنے کو ہے ماجدؔ نگاہِ انتخاب
ہے ترا ہر لفظ بھی اُس جسم سا ترشا ہُوا
ماجد صدیقی

بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
مثالِ برگِ خزاں اپنا ماجرا کہئیے
بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے
بہ دامِ موج وُہ اُلجھا گیا ہے کیا کہئیے
نہنگ جانئیے اُس کو کہ ناخدا کہئیے
ہمارے دم سے سہی اَب تو سربلند ہے وُہ
اسے بھی عجز کا اپنے ہی اِک صلا کہئیے
جھڑی ہے دُھول شجر سے اگر بجائے ثمر
تو کیوں نہ وقت کی اِس کو بھی اِک عطا کہئیے
زباں کے زخم پُرانے یہی سُجھاتے ہیں
کہ اب کسی سے بھی دل کا نہ مدّعا کہئیے
بہ شاخِ نطق یہ بے بال و پر پرندے ہیں
نہ شعر کہئیے اِنہیں حرفِ نارسا کہئیے
نگاہ رکھئے زمینِ چمن پہ بھی ماجدؔ
خزاں کو محض نہ آوردۂ صبا کہئیے
ماجد صدیقی

بڑے قریب سے وہ شخص یاد آنے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
لہُو کے ساتھ رگوں میں بھی سر سرانے لگا
بڑے قریب سے وہ شخص یاد آنے لگا
عجیب سادہ و معصوم و دلنواز تھا وُہ
کہ ساتھ کھِلتے شگوفوں کے یاد آنے لگا
یہ اُس کی یاد ہے دل میں کہ واہمہ ہے کوئی
اُجاڑ گھر میں دیا سا ہے جھلملانے لگا
بغیرِ مُزد ملا اور پھر گیا بھی یونہی
گہر وہ ہاتھ مرے جانے کس بہانے لگا
اجاڑ پن سے ٹھٹک کر گیا تو پھر کیسے
غزال دشت میں دل کے مرے وہ آنے لگا
مجھے بھی کام ہے درپیش اب اُسی جیسا
وہی نہیں ہے مجھے جی سے کچھ بھُلانے کا
بچھڑ بھی جاؤں اُسے یاد بھی رہوں ماجدؔ
یہ سارے ناز مرے وہ کہاں اُٹھانے لگا
ماجد صدیقی

جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
لطفِ باہم سے ہوئے وصل میں سرشار بہت
جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت
شخص و ناشخص کی پُرسش کا نشانہ ٹھہرے
ہم کہ کرتے رہے ہر درد کا پرچار بہت
خاک سے مہرِ سرِ حشر کرے ہے پیدا
آج کے دَور کا انسان ہے بیدار بہت
آخر اُس کو بھی ہمیں سی ہے تُفِ گرد ملی،
تھے بہم شاخِ شگفتہ کو بھی شہکار بہت
کھول کر رکھ گئی ہر راز، شد و بودِ حباب
ہم کو تسلیمِ حقیقت سے تھا انکار بہت
ہے کہاں رفعتِ فن، شرطِ ستائش ماجدؔ
وہی فنکار ہے جس کے ہیں طرفدار بہت
ماجد صدیقی

اب کے پت جھڑ ایسی آئی ہم بھی ہوئے ملول میاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
گلشن گلشن گرد برستی کرنی پڑی قبول میاں
اب کے پت جھڑ ایسی آئی ہم بھی ہوئے ملول میاں
کیوں اُس بات کے کھوجی ٹھہرے تم میری رسوائی کو
میں جو بات چھپانا چاہوں بات کو دے کر طول میاں
کام کی بات تلاش کرو تو ریت میں سونے جیسی ہے
کہنے کو لوگوں نے کہا ہے کیا کیا کچھ نہ فضول میاں
ہم جوگی۔ ہم روگی خود ہی اپنے روگ مٹا لیں گے
جان کے درد ہمارے تم کیوں ہونے لگے ملول میاں
میں شہروں کا قیس ہوں میرے گلشن بھی ہیں صحرا سے
ذہنوں سی زرخیز زمیں میں دیکھوں اُگے ببول میاں
ماجدؔ کیسے ہاتھ لگا ہے میرؔ سا یہ اندازِ سخن
سوچی ہیں یا اِن باتوں کا دل پر ہوا نزول میاں
ماجد صدیقی

روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
گھِر گئی ہے رُوح اپنی جانے کس گرداب میں
روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں
یاس کی خشکی، نمِ اُمید کی بہتات سے
ایک کائی سی جمی ہے دیدۂ بے خواب میں
میں کہ تنہائی میں تھا بے در حویلی کی طرح
بند کمرہ سا بنا بیٹھا ہوں اب احباب میں
دل کہ باغی لہر تھا اب پیرہن ذرّوں کا ہے
ڈھل گیا ہے یہ بھی آخر زیست کے آداب میں
اُکھڑے حرفوں کی کتابِ زیست کے اوراق پر
چیونٹیاں سی کسمساتی ہیں سکوں کے باب میں
کچھ ہَوا یا دھوپ ہی ماجدؔ مرے درپے نہ تھی
جانے کیا کچھ اور بربادی کے تھا اسباب میں
ماجد صدیقی

سارا پیکر اُجاڑ بن ہے مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
گرد ہی گرد پیرہن ہے مرا
سارا پیکر اُجاڑ بن ہے مرا
پیرہن میں یہیں بہاروں کا
اور عریاں یہیں بدن ہے مرا
شاخِ پیوستۂ شجر ہوں ابھی
سارے موسم مرے، چمن ہے مرا
وار سہہ کر خموش ہوں ماجدؔ
ہاں یہی تو جیالا پن ہے مرا
ماجد صدیقی

پڑے ہیں منہ پہ تھپیڑے اُسی ہوا کے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
گئی جو چھوڑ کبھی شاخ پر سجا کے مجھے
پڑے ہیں منہ پہ تھپیڑے اُسی ہوا کے مجھے
ہُوا ہے جو بھی خلافِ گماں ہُوا اُن کے
بہت خفیف ہوئے ہیں وہ آزما کے مجھے
ہے میرے ظرف سے منصف مرا مگر خائف
مزاج پوچھ رہا ہے سزا سُنا کے مجھے
ابھی ہیں باعثِ ردِّ تپّش یہی بادل
بہم جو سائے بزرگوں کی ہیں دُعا کے مجھے
سُنا یہ ہے رہِ اظہارِ حق میں دار بھی ہے
چلے ہیں آپ یہ کس راہ پر لگا کے مجھے
زمیں کے وار تو اک ایک سہہ لئے میں نے
فلک سے ہی کہیں اب پھینکئے اُٹھا کے مجھے
سرِ جہاں ہوں وہ بیگانۂ سکوں ماجدؔ
پڑے ہیں جھانکنے گوشے سبھی خلا کے مجھے
ماجد صدیقی

جس کے کندھوں پر ابھی تک بوجھ ہے اجداد کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
کیا ادا کر پائے گا وہ شخص حق اولاد کا
جس کے کندھوں پر ابھی تک بوجھ ہے اجداد کا
جاں سے جانے میں تو کچھ ایسی کسر باقی نہ تھی
اتفاقاً وار ہی اوچھا پڑا صّیاد کا
لٹ چکی شاخوں کے زیور اُن کو لوٹائے گا کون
لاکھ اب مونس سہی موسم یہ ابر و باد کا
رتبۂ پیغمبری سے ہو تو ہو اِس کا علاج
ورنہ مشکل ہے سِدھانا پیٹ سے شدّاد کا
آج کی اِک پل بھی کر لو گے جو پابندِ قلم
مرتبہ پاؤ گے ماجدؔ مانی و بہزادؔ کا
ماجد صدیقی

دل و جاں پہ کوئی تو وار ہو ترے شہر کے در و بام سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
کوئی تیر چھوٹے کمان سے کوئی تیغ نکلے نیام سے
دل و جاں پہ کوئی تو وار ہو ترے شہر کے در و بام سے
بکمال شوخی و شر جسے مرے واسطے تھا بُنا گیا
میں نکل کے پھر مرے قاتلو! ہُوں کھڑا ہُوا اُسی دام سے
مرے آشناؤں کو دیکھئے ذرا چھیڑ کر مرے بعد بھی
پس و پیش میرے، دلوں میں ہیں بڑے وسوسے مرے نام سے
ہے رقم بہ فتح و ظفر ازل سے ورق ورق مرے دوش کا
نہ اُتار پاؤ گے یہ نشہ جسے نسبتیں ہیں دوام سے
ہے عزیز اپنی متاعِ جاں تو نہ ٹھہرئیے مرے سامنے
کہ ہوا کے رخش کو روکنے پہ تُلے ہیں آپ لگام سے
ماجد صدیقی

دیا ہے بادِصبا نے مزہ خمار آسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
کرن کرن ہے سحر کی نگاہِ یار آسا
دیا ہے بادِصبا نے مزہ خمار آسا
بہ نطق و فکر ہے وہ لطفِ تازگی پیدا
نفس نفس ہے مرا اِن دنوں بہار آسا
مرے وجود سے پھوٹی وہ خَیر کی خوشبو
کہ چبھ رہا ہوں دلِ شیطنت میں خار آسا
وہ ابر ہوں کہ کھڑا ہوں تُلا برسنے کو
ہر ایک درد ہے اب سامنے غبار آسا
میں اس میں اور وہ مجھ میں ہے جسکا سودا تھا
نہیں ہے روگ کوئی دل کو انتظار آسا
سخن سے طے یہی نسبت ہے اب تری ماجدؔ
کہ ہو گیا تجھے موزوں گلے میں ہار آسا
ماجد صدیقی

کہ تھی زمینِ تمنّا ہی اپنی بارانی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کبھی تھا قحط تو درپے کبھی تھی طغیانی
کہ تھی زمینِ تمنّا ہی اپنی بارانی
میں آج رات بھی بے آشیاں گزاروں گا
ہے لاعلاج چمن میں مری تن آسانی
کھلے دروں وہ بصد لطف رات بھر سویا
جسے سپرد مرے گھر کی تھی نگہبانی
بہائے کاوشِ اسلاف کو بھی لے ڈوبی
بہ عہد نو مرے ناموس کی یہ ارزانی
جو مر چکے ہیں قصیدے لبوں پہ اُن کے ہیں
مرے سپرد ہے زندوں کی مرثیہ خوانی
غضب کہ رن میں جو آنکھیں نہ چار کرتے تھے
وہ بھیجتے ہیں مجھے تحفہ ہائے نسوانی
کسی سے کلمۂ تحسیں تو کیا ملے ماجدؔ
ہے تہمتوں کی مرے نام پر فراوانی
ماجد صدیقی

کوئی ہنر، کوئی داؤ کہ سادہ دِل ہوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
کوئی فریب سکھاؤ کہ سادہ دِل ہوں میں
کوئی ہنر، کوئی داؤ کہ سادہ دِل ہوں میں
یہ تہمتیں تو مرے روگ کا علاج نہیں
مجھے نہ مجھ سے ڈراؤ کہ سادہ دل ہوں میں
تمہیں بھی لوگ کھلونا سمجھ نہ لیں آخر
مرے قریب نہ آؤ کہ سادہ دل ہوں میں
تمہاری آنکھ بھی بنجر نہ ہو کے رہ جائے
نظر نہ مجھ سے ملاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
ملاہے اوج اگر باتمام عجز تمہیں
یہ گُر مجھے بھی سکھاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
نہ اشکِ خون‘ نہ ہوں لعلِ ناب ہی ماجدؔ
کہیں تو مجھ کو سجاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
ماجد صدیقی

فرطِ محرومی سے اپنے آپ کو رسوا کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
کس لئے غیروں کی کشتِ صید میں جھانکا کروں
فرطِ محرومی سے اپنے آپ کو رسوا کروں
ایک ننّھا ہے مرے جی میں بھی شوخ و شنگ سا
پا سکوں فرصت تو اُس کا حال بھی پوچھا کروں
محوِ خوابِ استراحت شہر کا والی رہے
رات بھر اندیشۂ دُزداں سے میں کھانسا کروں
ذوق پابند وسائل ہے جو اتنا ہی تو پھر
کیوں نہ چھلکے بھی پھلوں کے ساتھ اب کھایا کروں
حیف ہے اُس شوخ کی موجودگی میں بھی اگر
خشکئِ آب و ہوائے دہر کا شکوہ کروں
گُل کھلا دیکھوں کوئی ماجد تو جُوں بادِ سحر
کیوں نہ سارے گلستان میں اُس کا میں چرچا کروں
ماجد صدیقی

آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
کھُلتے ہوئے لگتے ہیں دریچے جو نظر کے
آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے
صُورت کوئی صّیاد نے چھوڑی ہی نہ باقی
میں سوچ رہا تھا ابھی امکان مفر کے
ہاں بھیک بھی پاؤگے تو ٹھوکر بھی کہیں سے
مصرف ہیں ابھی اور کئی کاسۂ سر کے
پھل ضربِ سرِ پا سے گرے صُورتِ باراں
اُترا تو مرے حصے میں پتّے تھے شجر کے
پہنچیں گے تہِ دام جو نکلے ہیں گُرِسنہ
منزل کا پتہ دیتے ہیں انداز سفر کے
کنکر وہ گرائے ہیں ابابیلِ جنوں نے
عاجز ہوئے انبوہ سبھی اہلِ خبر کے
کچھ دیکھ تو لینا تھا یہ کس شہر میں ماجدؔ
خالق ہُوئے تم شعر و سخن ایسے ہُنر کے
ماجد صدیقی

سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
کاش در آتا ہمیں ایسا بھی اِک لمحہ کوئی
سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی
ایک مدّت سے یہی نسبت ہے فرشِ خاک سے
ڈولتا جس طرح سطحِ آب پر تختہ کوئی
چاہتوں سے یہ روایت بھی کبھی کی چھن چکی
بام پر بیٹھا نہیں کرتا ہے اب کّوا کوئی
زندگی کر دے گی پیدا پھر کوئی رستے کا سانپ
سامنے آیا بھی اِس لُڈّو کا گر زینہ کوئی
ہو کے رہ جاتا ہوں کیوں غرقِ تہِ پاتال میں
جب کبھی جھڑتا ہے نکھری شاخ سے پتّا کوئی
ہم ہیں اور ماجدؔ تمّنا کا طلسمی غار ہے
ظاہراً باہر نکلنے کا نہیں رستہ کوئی
ماجد صدیقی

طلب ہمیں بھی اُسی شوخ گلبدن کی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
کلی کلی کو لپک جس کے بانکپن کی ہے
طلب ہمیں بھی اُسی شوخ گلبدن کی ہے
ہزار بھنوروں سا اُس کا کریں احاطہ ہم
بدن میں اُس کے بھی خُو بُو بھرے چمن کی ہے
مقامِ شکر ہے وجدان مطمئن ہے مرا
یہی بہا، یہی قیمت مرے سخن کی ہے
ہر اک نظر پہ عیاں ہو بقدرِ حَظ طلبی
تمہیں یہ قید سی کاہے کو پیرہن کی ہے
کھُلی ہے دعوتِ نظارۂِ جمال یہاں
زباں دراز قباؤں کی ہر شکن کی ہے
ترا سلوک تو ماجدؔ بجا ہے جو کُچھ ہے
اُسے بھی جانچ کہ نیّت جو انجمن کی ہے
ماجد صدیقی

تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
قفس دیکھئے بال و پر دیکھئے
تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے
ذرا میری صورت تو پہچانیۓ
ذرا میرے دیوار و در دیکھئے
اُدھر دیکھئے اُن کے جور و ستم
اِدھر آپ میرا جگر دیکھئے
جو مدّت سے ماجدؔ مرے دل میں ہے
وہی خامشی در بہ در دیکھئے
ماجد صدیقی

برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
فلک پہ چھائے ہوئے بکھرے بادلوں جیسا
برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا
نہ ہوں گے محو کبھی ذہن سے مرے اجداد
گئے ہیں چھوڑ یہ ورثہ جو رتجگوں جیسا
اُسی کلامِ منّور کی جستجُو ہے ہمیں
ضیا میں جس کی تحرّک ہو جگنوؤں جیسا
یہ تم ہنسے ہو کہ گردش میں ہے لہو اپنا
اٹھا کہاں سے چھناکا یہ پائلوں جیسا
یہ کیوں تمہارا تعاقب ہی ہر نگاہ کو ہے
برس لگا ہے یہ کیا تازہ موسموں جیسا
جگا رہاہے نگاہوں میں ذائقے کیا کیا
بدن تمہارا کہ ہے رس بھرے پھلوں جیسا
بجاکہ ایک تُنک خو ہو تُم ہزاروں میں
ملا ہے ظرف ہمیں بھی سمندروں جیسا
کچھ ایسی چاہ ہمیں ہی نہیں ہے بھنوروں سی
بدن ملا ہے تمہیں بھی تو گلشنوں جیسا
نہ سست رو کبھی دیکھا ترا قلم ماجدؔ
اِسے دیا ہے یہ رَم کس نے آہوؤں جیسا
ماجد صدیقی

گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
فضائے تار میں تنہا نفس سفر کرتے
گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے
ہے اختلافِ نظر وجہِ خاموشی، ورنہ
ہم اُس کے پیار کا چرچا نگر نگر کرتے
یہ بات قرب کے منصب پہ منحصر تھی ترے
بچا کے رکھتے کہ دامن کو ہم بھی تر کرتے
درِ قفس پہ رُتیں دستکیں تو دیتی رہیں
ہُوا نہ ہم سے کہ ہم فکرِ بال و پر کرتے
جو تو نہیں تھا تو جل جل کے خود ہی بجھتے رہے
ہم اور نذر کسے شعلۂ نظر کرتے
تری نظر کا اشارہ نہ مل سکا، ورنہ
وہ اوج کون سا تھا ہم جسے نہ سر کرتے
ابھی تلک تو نہ مخدوم ہم ہوئے ماجدؔ
اگرچہ عُمر ہوئی خدمتِ ہنر کرتے
ماجد صدیقی

میں سخت اُداس ہو چلا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
فرہاد کی آس ہو چلا ہوں
میں سخت اُداس ہو چلا ہوں
ہجرت پہ گئے ہوں جس کے باسی
اُس صحن کی گھاس ہو چلا ہوں
جس کی نہ اُٹھے کبھی عمارت
اُس گھر کی اساس ہو چلا ہوں
شاخوں سے جھڑے ہوئے گُلوں کی
بکھری ہوئی باس ہو چلا ہوں
ٹانکے کوئی مجھ کو بادلوں میں
میں دشت کی پیاس ہو چلا ہوں
ماجدؔ مجھے جانے کیا ہوا ہے
برحق تھا قیاس ہو چلا ہوں
ماجد صدیقی

اور کبھی بندِ قبا دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
غنچہ پس شاخ کھِلا دیکھنا
اور کبھی بندِ قبا دیکھنا
دیکھنا اُس کو ذرا محوِ کلام
اوج پہ ہے رقصِ صبا دیکھنا
پھر یہ کہاں لطفِ ہجومِ نگاہ
ہو کے ذرا اور خفا دیکھنا
چھیننا مجھ سے نہ یہ آب بقا
دیکھنا ہاں نامِ خدا دیکھنا
دل کہ ترے لطف سے آباد تھا
شہرِ تمّنا یہ لُٹا دیکھنا
خار ہیں اب جس پہ اُسی راہ پر
فرش گلوں کا بھی بچھا دیکھنا
چاہئے ماجدؔ سرِ شاخِ نظر
روز نیا پھول کھِلا دیکھنا
ماجد صدیقی

کورے ورق پہ کچھ تو لکھا جانا چاہئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
شیشے پہ دل کے بال کوئی آنا چاہئے
کورے ورق پہ کچھ تو لکھا جانا چاہئے
پتّھر کی اوٹ ہو کہ شجر کی پناہ ہو
سایہ ملے تو اب کہیں سستانا چاہئے
پیوست جس سے ہے وہ شجر سبز ہے تو پھر
چلتی ہوا میں شاخ کو لہرانا چاہئے
فریاد سے نہ باز رہے گا یہ دل اِسے
دے کر کوئی فریب ہی بہلانا چاہئے
وہ مہرباں تھا ہم پہ مگر کتنی دیر کو
پہلی کے چاند سے اُسے سمجھانا چاہئے
ماجدؔ شبابِ فن ہے تو سطحِ خیال پر
از خود ہی حرف حرف اُبھر آنا چاہئے
ماجد صدیقی