اک دُھند ہے‘ اک کُہر ہے‘ اک بدلی ہے
شرمندہِ اغیار رہے ہیں برسوں
اَوہام کے بت توڑ رہے ہیں ٹھہرو
بھر جائے گی پھولوں سے شفق کی جھولی
رُک رُک کے سفینہ بہ رہا ہو جیسے
پتوں پہ ٹپکتی ہوئی شبنم کی چاپ
توبہ نے لچک کر یہ کہا ہے ساقی
تقدیسِ شباب سے شرارے پھوٹے
جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے
آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے
وہ رسمِ عنایات نہیں ہے پھر بھی
آلام کا اظہار بھی منظور نہیں
خوابیدہ کراہوں کی صدا آتی ہے
چاندی کے کٹوروں میں فوارے چھوٹے
انگ انگ میں بہتے ہوئے مہ پارے ہیں
مے خانہ بدوش یہ گُلابی آنکھیں
آغوش میں ظلمت کی سُلاتے ہو انھیں
تقلید کے بت توڑ کے رکھ دیتے ہیں
احساسِ غمِ سودوزیاں سے کیا کام
ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتا ہوں میں
نظروں میں نیا زمانہ ڈھلتا ہے حضور
جذبہِ خام تو نہیں ہم لوگ
گفتار کہَرخشندہ ستاروں کا تبسّم
منھ سے لگا کے چھوڑ دیا بادہِ نشاط
یہ مرے دوست یہ معصوم سے لوگ
اس طرح رات کے دھندلکے میں
کیسی پُرخار ہیں مری راہیں
چُوڑیاں بج رہی ہیں کانوں میں
سبزہ زاروں میں روشنی کی کرن
جنھیں نصیب ہیں آسایشوں کے رنگ محل
ملاجو مژدہِ عیدِ سعید غربت میں
نگارِ عید جو آئی مرے خیالوں میں
وسوسے دل کے بڑھتے جاتے ہیں
ہر محبّت کی بات کو تم نے
جِذبہِ اقتدار ہی تیرا
تیرے حالات اور ہی کچھ ہیں
عشق کا احترام ہے لازم
ہم سے روشن ہیں محفلوں کے چراغ
رات بھر کروٹیں بدلتا ہوں
چاند تارے ترے تبسّم سے
کِھل گئے پُھول دیکھ کر ان کو
چاندنی رات اور یہ نظّارے
ایک غیرت شعار مفلس پر
شبِ تاریک بیت جائے گی
دوستی کے لطیف پردے میں
اتنی بے لوث تو نہیں دنیا
کیسے مُخلص انھیں سمجھ لوں میں
آدمی میں اگر خُلوص نہ ہو
ہے ابھی تو خلوص دنیا میں
اس قدر بُغض کیوں ہے آپس میں
میری نادان آرزوؤں نے
یاسیت کی مُہیب راتوں میں
عہد و پیمان عشق و اُلفت کے
دل میں بے شک ہیں خواہشوں کے ہجوم
اہلِ غربت کی چاندنی راتیں
زندگی کے گھنے اندھیرے میں
اس طرح رنج کے دُھندلکے میں
ہراساں ہیں تیز آندھیوں کے تھپیڑے
جب بھی ان سے نگاہ ملتی ہے
ان کو خودبیں بنا دیا میں نے
تیرے دو دن کے پیار پر ہمدم
یاد آؤ نہ اتنی رات گئے
یہ حقیقت ہے چُھپ نہیں سکتی
موت سے کس لیے ڈراتے ہو
یہ حقیقت ہے جس قدر اُلجھیں
زندگانی کے ہاتھ سے ہمدم
میرے ہمراہ وہ اگر چلتے
ہر خوشی وقفِ اضطراب ہوئی
آج کی بات دوست کل پہ نہ ٹال
مٹ گیا غم دیارِ غربت کا
مسکراہٹ لَبوں پہ پھیکی سی
جانے کیوں ان کے سبز آنچل پر
چاندنی راتیں مجھے کرتی ہیں تلقینِ گناہ
جگر میں سوزِ نہاں ، لب پہ مسکراہٹ ہے
عیدِ وطن
اس طَوراب کے گزری ہے اہلِ چمن کی عید
جیسے وطن سے دور غریبُ الوطن کی عید
دستِ جمیل رنگِ حنا کو ترس گئے
بوئے سَمن کو ڈھونڈتی ہے پیرَہَن کی عید
عارض ہیں زخم زخم تو آنکھیں لَہو لَہو
دیکھی نہ ہو گی دوستو اس بانکپن کی عید
گُل رنگ قہقہوں کی فصیلوں سے دور دور
نالہ بہ لب گزر گئی غُنچہ دہن کی عید
اے ساکنانِ دشتِ جنوں کس نشے میں ہو
شعلوں کی دَسترَس میں ہے سَرو و سَمن کی عید
گیت
بہاروں کی ملکہ یہ بھونروں کی رانی
گلابی ادائیں ‘ شگفتہ جوانی
’’کوئی سن لے اَمرت نگر کی کہانی‘ ‘
یہ پیاسی امنگیں ‘ یہ نیناں رسیلے
’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘
یہ گل رنگ مکھڑا کہ چندا لجائے
شگوفوں کو ڈھانکے، پَھبَن کو چھپائے
’’کوئی مجھ کو دیکھے مرے گیت گائے‘ ‘
یہ پیاسی امنگیں ‘ یہ نیناں رسیلے
’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘
یہ پھولوں کی مالا‘ یہ بانہوں کے جُھولے
یہ رنگین کونپل شفق جیسے پُھولے
’’کوئی ان میں مچلے کوئی ان کو چُھولے‘ ‘
یہ پیاسی اُمنگیں یہ نیناں رسیلے
’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘
اُمنگوں پہ غالب ہے صیّاد کا ڈر
مگر گنگناتا ہے پیروں کا زیور
’’کوئی دل میں آئے زمانے سے چُھپ کر‘ ‘
یہ پیاسی اُمنگیں ‘ یہ نیناں رسیلے
’’مدُھرتا کے رسیا مدُھرتا کو پی لے‘ ‘
شہیدِ اعظم
نہ زلزلوں سے ہراساں ، نہ آندھیوں سے ملول
مثالِ کوہ تھے دشتِ بلا میں سبطِ رسولؐ
وہ زخمِ پاے مبارک، وہ برچھیاں ‘ وہ ببُول
وہ العَطَش کی صدائیں ‘ وہ تپتی ریت‘ وہ دُھول
شہید خاک پہ تڑپیں ‘ رِدائیں چھن جائیں
یہ امتحاں بھی گوارا‘ وہ امتحاں بھی قبول!
زمینِ کرب و بلا تجھ کو یاد تو ہو گی
لُہو میں ڈوب کے نکھری تھی داستانِ حُسینؑ
ہزار ظلم و تشدّد کی آندھیاں آئیں
کسی طرح نہ مٹا دہر سے نشانِ حُسینؑ
لَبوں پہ کلمہِ حق ہے دلوں میں ذوقِ جہاد
جہاں میں آج بھی رہتے ہیں ترجمانِ حُسینؑ
اگر حُسینؑ نہ دیتے سراغِ منزلِ حق
زمانہ کُفر کی وادی میں سو گیا ہوتا
جہاں پہ چھاگئے ہوتے فنا کے سنّاٹے
شعورِ زیست اندھیروں میں کھو گیا ہوتا
شعلہِ دل
کبھی کبھی تو سرِ راہ دیکھ کر ہم کو
تمھارے سر سے بھی آنچل سرک ہی جاتا ہے
تمھاری عنبریں زُلفوں کی تیز لپٹوں سے
ہمارا سینہِ ویراں مہک ہی جاتا ہے
کوئی تو بات ہے جو ہم کو مُلتفت پآ کر
بصد غرور کبھی مسکرا بھی دیتی ہو
اداے خاص سے لہرا کے، رقص فرما کے
ہمارے شعلہِ دل کو ہوا بھی دیتی ہو
کبھی بہ پاسِ تقدّس، ہماری نظروں سے
اُلجھ کے ٹوٹ گئی ہے تمھاری انگڑائی
قسم خدا کی بتاؤ بوقتِ آرایش
حضورِ آئنہ تم کو حیا نہیں آئی
ہماری شورشِ جذبات کے تخاطب پر
تمھارے ہونٹ یقینا پھڑکنے لگتے ہیں
وُفورِ شوق کی رِم جِھم سے شوخ سینے میں
کبھی کبھی تو کئی دل دھڑکنے لگتے ہیں
اب اپنے نیم تغافل سے باز آجاؤ
تمھیں غرور ہی لازم ہے سرکشی تو نہیں
ہمارے ذوقِ طلب کے جواب میں حائل
ذرا سی شرم و حیا ہے ستم گری تو نہیں
نظر ملا کے محبّت کا اعتراف کرو
جو کرسکو تو حقیقت سے انحراف کرو
غازی کا ترانہ
میں غازی ہوں مجھے عزم و یقیں کا شہر کہتے ہیں
مرے ہر وار کو دشمن خدا کا قہر کہتے ہیں
مجھے شعلوں کا دریا‘ بجلیوں کی نہر کہتے ہیں
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
عُقابی ہیں مری آنکھیں چمک جن میں شراروں کی
مرے ہی بازوؤں میں ہے صلابت کوہ ساروں کی
مری ہیبت سے لرزاں ہیں فضائیں کارزاروں کی
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
مری تکبیر کے آگے بموں کی گھن گرج کیا ہے
وہ ٹینکوں کی قطاریں لے کے آجائیں حرج کیا ہے
میں ہوں خیبرشکن‘ میرے یے دیوارِ کَج کیا ہے
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں ‘ قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
پسینہ جس جگہ میرا گرے بارُود بُجھ جائے
اگر چاہوں قمر کی مشعلِ بے دُود بُجھ جائے
بدن کی خاک جھاڑوں آتشِ نمرود بُجھ جائے
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
ستونِ آہنی ہو کر ہَوا کی چال رکھتا ہوں
رگ و پَے میں رواں اک شعلہِ سیّال رکھتا ہوں
فرشتوں کی کمک اور آسماں کی ڈھال رکھتا ہوں
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
میں اعدا کو فنا کر کے ہی اب شمشیر ڈالوں گا
اگر بھاگے گا دشمن پاؤں میں زنجیر ڈالوں گا
میں پربت کاٹ ڈالوں گا سمندر چیر ڈالوں گا
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
شہادت زندگی کا میری اصلِ مُدّعا ٹھہری
مرے مقصد کی سچّائی مری وجہِ بقا ٹھہری
متاعِ خلد میری جاں نثاری کا صلہ ٹھہری
سدا بڑھتا ہوں آگے پیٹھ دکھلانا نہیں آتا
میں غازی ہوں قضا سے مجھ کو گھبرانا نہیں آتا
الجیریا کے نام
کاکل ترے زرکار تھے
عارض شگوفہ زار تھے
ابر و اپی تلوار تھے
اے خستہِ تیغِ جفا
الجیریا … الجیریا
پاؤں میں تیرے بیڑیاں
چہرے پہ زخموں کے نشاں
دل میں گڑی ہیں سُولیاں
اب ہے سماں ہی دوسرا
الجیریا … الجیریا
تشنہ دَہاں تیرے سُبو
ارزاں ہے جِنس آبرو
مقتل سجے ہیں چار سُو
ہر اک ستم تجھ پر رَوا
الجیریا … الجیریا
بپھرا ہوا ہے سیلِ خُوں
صحرا بہ صحرا لالہ گوں
لرزاں ہے کوہِ بے سُتوں
بندِ مصائب تا کجا؟
الجیریا … الجیریا
پچھلا پَہَر ہے رات کا
ٹوٹیں گے تارے جا بجا
جلتی رہے شمعِ وفا
چمکے گا سورج دیکھنا
الجیریا … الجیریا
سراب
……… 1 ………
مدتوں کنجِ قفس میں ہم نے
آشیانے کے لیے خواب بُنے
چاندنی رات کی مہکاروں میں
گنگنانے کے لیے خواب بُنے
اپنے تاریک شَبستانوں کو
جگمگانے کے لیے خواب بُنے
……… 2………
بزمِ ہستی میں اندھیرا ہی رہا
ماہ پَاروں کا فُسوں ٹوٹ گیا
جن سے غنچوں نے ہنسی مانگی تھی
ان بہاروں کا فُسوں ٹوٹ گیا
یا تو گرداب سے ابھرے ہی نہ تھے
یا کِناروں کا فُسوں ٹوٹ گیا
……… 3 ………
تُند موجوں سے اَماں مل نہ سکی
تیز دھاروں میں بھٹکتے ہی رہے
سایہِ گُل کے طلب گار تھے ہم
خارزاروں میں بھٹکتے ہی رہے
رہ نماؤں کا کرم کیا کہیے
رہ گزاروں میں بھٹکتے ہی رہے
……… 4 ………
تلخیِ زیست وہی ہے اب تک
وہی غم ہیں ‘ وہی تنہائی ہے
جب بھی فنکار نے لَب کھولے ہیں
ایک زنجیر سی لہرائی ہے
صبحِ آزادیِ گلشن تو نہیں
شبِ غم بھیس بدل آئی ہے
بہ یادِ قائدِ اعظم
کفِ صبا پہ مہکتا ہوا گلاب تھا وہ
رَوش رَوش تری خوشبو سے مُشک بار ہوئی
کرن کرن ترے پَرتو سے تاب دار ہوئی
کفِ صبا پہ مہکتا ہوا گلاب تھا وہ
نگارِ موسمِ گُل کی جبیں کا داغ ہیں ہم
ہمیں سے لالہ و گُل کی قبا رفُو نہ ہوئی
ہمیں سے زحمتِ تائیدِ رنگ و بُو نہ ہوئی
نگارِ موسمِ گُل کی جبیں کا داغ ہیں ہم
مہ و نجوم کے جَھرنوں پہ نوحہ خواں ہوتے
تجھے جو خضر سمجھتے تو ہم یہاں ہوتے؟
فریادی
کوئی نہیں ہے جو بُجھتی آنکھوں میں زندگی کے دیے جلادے
کوئی نہیں ہے جو دل کے دریا میں حسرتوں کے کنول کھلا دے
لبوں کی پگڈنڈیوں پہ آہوں کے گرم رَو قافلے رواں ہیں
کٹیلی آنکھیں لہُو لہُو ہیں ‘ ہلالی ابرُو دھواں دھواں ہیں
نظر پہ پَت جَھڑکی زردیوں کے مُہیب سایے بہت گراں ہیں
چمکتے تاروں کی آبِ جُو میں دُھلے ہوئے سائباں کہاں ہیں
نکیلی پلکوں کی سُولیوں پر حنائی اشکوں کے سرد لاشے
نہ جانے کب سے ٹنگے ہوئے ہیں نہ جانے کب تک ٹنگے رہیں گے
سمے کے جنگل میں شب کی ناگن لپکتی پھرتی ہے پَھن اٹھائے
سُلگتے داغوں کی روشنی کو کہیں یہ ڈس کر چلی نہ جائے
قدم قدم پر ستارے ٹوٹیں رَوش رَوش پر ہوا ڈرائے
اُجاڑ راہوں میں دل کی دھڑکن کسے پکارے‘ کسے بلائے
کوئی نہیں ہے جو بُجھتی آنکھوں میں زندگی کے دیے جلادے
کوئی نہیں ہے جو دل کے دریا میں حسرتوں کے کنول کھلادے
غمِکوہکن
چار سُو آگ تھی نفرت کی لگائی ہوئی آگ
ہاں وہ آتش کدہِ‘ غیر سے لائی ہوئی آگ
جس نے کعبوں کو‘ کنشتوں کو بَھسَم کر ڈالا
جسم اور رُوح کے رشتوں کو بَھسَم کر ڈالا
میں نے اس آگ کو گُل زار بنانے کے لیے
دامنِ گُل کو شراروں سے بچانے کے لیے
دیدہِ شوق میں اشکوں کے سمندر پالے
قلبِ نادار میں داغوں کے نگینے ڈھالے
نہ ہوئے پر نہ ہوئے سرد جہنم کے شرار
مسکراتے رہے ذہنوں میں دھو ئں کے مینار
درمیانِ دل و جاں آگ کی دیوار رہی
زندگی کس کے لیے برسرِ پیکار رہی؟
اے سرزمینِ الجزائر
چپّے چپّے سے اُبلتے ہوئے خُوں کے چشمے
تیری مظلومیِ بے حد کا پتہ دیتے ہیں
کتنے جابر ہیں نئے دور کے سلطاں زادے
تیری معصوم اُمنگوں کو سزا دیتے ہیں
جب بھی جولانیاں کرتا ہے ترا عزمِ جمیل
تیرے گرد اک نئی دیوار اٹھا دیتے ہیں
آگ محرومی کی روشن ہے جو تیرے دل میں
اپنے دامن سے اسے اور ہوا دیتے ہیں
—–
اس سے پہلے بھی یوں ہی جھلسے گئے دیدہ و دل
جسم روندے گئے تپتے ہوئے صحراؤں میں
تشنگی کاسہ بدست آئی تو شبنم نہ ملی
زہر گھولا گیا بہتے ہوئے دریاؤں میں
گرمیِ شوق نے جب انجمن آرائی کی
فصد کھولی گئی تیروں کی گھنی چھاؤں میں
خوں چکاں لاشوں پہ تعمیر ہوئے راج محل
روز اوّل سے یہی رسم ہے آقاؤں میں
خسرو و جَم نے تشدّد کا سہارا ڈھونڈا
ورنہ انسان تھے وہ کیسے خدائی کرتے؟
—–
چِلچلاتی ہوئی دھوپوں میں بھٹکتے پھرتے
سایہِ زُلف میں کیوں نغمہ سرائی کرتے؟
ان کی لغزش بھی سرِ راہ اُچھالی جاتی
لوگ ہر گام پہ انگشت نمائی کرتے!
دانے دانے پہ تھی محنت کش و جمہور کی مُہر
اپنی نسلوں کے لیے خاک کمائی کرتے
—–
یہ ہے وہ موڑ مگر رَہ گزرِ ہستی کا
کہ بہکتے ہوئے قدموں کو سنبھلنا ہو گا
ملک گیری کا تصوّر ہے لہو میں غلطاں
مُسکراتی ہوئی اقدار پہ چلنا ہو گا
امنِ عالم خس و خاشاک کا خرمن ہی تو ہے
سر اٹھاتے ہوئے شعلے کو کُچلنا ہو گا
کوئی ذرّہ ہو کہ صحرا‘ کوئی پتّھر کہ پہاڑ
تودہِ برف کے مانند پگھلنا ہو گا
عید
اونچے محلوں میں پائل چھنکاتی ہے عید
میری گلی میں آتے ہوئے شرماتی ہے عید
پاس آئی تو جیسے مٹّی بن جائے گی
دُور ہی دُور سے اپنی چَھب دکھلاتی ہے عید
جلتے زخموں میں اور آگ سی بھردیتی ہے
دُکھی دلوں کو اور دُکھی کرجاتی ہے عید
تن پر اُجلے کپڑے اور نہ جھولی میں لعل
ہم کنگالوں سے کیا لینے آتی ہے عید
زرّیں کنگن کیسے پہنائیں خوشیوں کو
من کو نت نئی سوچوں میں اُلجھاتی ہے عید
موجِ خرامِ عید
عید آئی تو یاد آنے لگے
دُور کے چاند‘ روشنی کے داغ
پیار کے پُھول‘ دوستی کے داغ
ہجر کے گیت‘ خامُشی کے داغ
نِت نئے زخم مُسکرانے لگے
زخم ناداریِ گُلستاں کے
زخم پُرکاریِ نگہباں کے
زخم غم خواریِ بیاباں کے
سیکڑوں تیِر اک رگِ جاں ہے
عِید بھی کیا بہار ساماں ہے
شعورِ آزادی
بہشتِ شوق میں ڈھالیں گے خاکدانِ وطن
تلاشِ حُسن میں گرداں ہیں عاشقانِ وطن
دھواں دھواں ہی سہی کوچہِ بتانِ وطن
جبیں کے پاس تو ہے سنگِ آستانِ وطن
عیاں ہیں خونِ شہیداں کی عظمتوں کے نقُوش
زبانِ لالہ و گُل پر ہے داستانِ وطن
نسیمِ صبح کے جھونکے ذرا سہارا دے
اُبھر رہے ہیں اندھیروں سے خستگانِ وطن
وہ منتہیٰ نہ سہی کوئی سنگِ میل سہی
کسی مقام پہ پہنچا تو کاروانِ وطن
ہر ایک کُنج یہاں قابلِ نظارہ ہے
بس ایک گوشے پہ کیوں کیجیے گمانِ وطن
ہجومِ تشنہ لَباں دیکھتا ہے حسرت سے
غریقِ بادہ و ساغر ہیں خواجگانِ وطن
ہوا چلے تو فضائیں دمکنے لگتی ہیں
تہی نہیں ہے شراروں سے خاکدانِ وطن
اسے جسارت بے جا نہیں تو کیا کہیے
جنوں سے آنکھ ملاتے ہیں خسروانِ وطن
سدا دبی نہ رہے گی ضمیر کی آواز
یہ ایک مات بھی کھائیں گے شاطرانِ وطن
ابھی تو اور بڑھے گا شعورِ آزادی!
ابھی تو خواب سے چونکے ہیں ساکنانِ وطن
طلوعِ سحر
فروغِ سُنبل و ریحاں کا وقت آپہنچا
اُٹھو کہ جشنِ بہاراں کا وقت آپہنچا
پگھل رہے ہیں گراں بار شب کدوں کے ستون
طلوعِ مہرِ درخشاں کا وقت آپہنچا
کوئی حسین سی تعبیر ڈھونڈ کر لاؤ
شکستِ خوابِ پریشاں کا وَقت آپہنچا
شبِ فراق کٹھن تھی مگر تمام ہوئی
وصالِ مہر جبیناں کا وقت آپہنچا
چلو چلو کہ بگولوں کا رقص ختم ہوا
طوافِ کوُچہِ جاناں کا وقت آپہنچا
دلوں کے داغ چھپاؤ‘ ہنسی کو عام کرو
شکستِ کُلفتِ دَوراں کا وقت آپہنچا
مرے رفیقو! ہنسو اور خوب کُھل کے ہنسو
نمایش لب و دنداں کا وقت آپہنچا
صنم کدوں کے درو بام سر بہ سجدہ ہیں
عُروجِ حضرتِ انساں کا وقت آپہنچا
نشانِ عظمتِ جمہور پھر بلند کرو
زوالِ سطوتِ شاہاں کا وقت آپہنچا
انتظارِ بہار
کہاں سے آئی کدھر کو گئی نگارِ بہار
کہ گُلستاں میں ابھی تک ہے انتظارِ بہار
شگوفہ زار ہی مہکے نہ کو نپلیں پُھوٹیں
چمن میں پھر بھی منائی ہے یادگارِ بہار
یہی ہے قافلہِ رنگ و بُو کا حُسنِ خرام
کہ چُھپ گئی ہے بگولوں میں رہ گزارِ بہار
نہ چہچہے‘ نہ ترنّم‘ نہ زمزمے‘ نہ سرود‘
یہ بات کیا ہے کہ گُم صُم ہیں نغمہ کارِ بہار
کسی رَوش میں کوئی پُھول کِھل گیا تو کیا
قفس سے دشت و جبل تک ہو رہ گزارِ بہار
خزاں کی رات کٹھن ہے تو جاگ کر کاٹو
کہ زیرِ دار ہی سوتے ہیں جاں نثارِ بہار
جوالا مکھی
کروٹیں خود بھی بدلتا ہے جہاں کا محور
جب زمیں گردشِ ایّام سے تھک جاتی ہے
جسم چھل جاتا ہے دھرتی کا رگڑ کھا کھا کر
لاکھ سنگین سہی جلد مَسک جاتی ہے
………………
سنگ اَندام شگافوں سے دھواں رِستا ہے
بطنِ گیتی سے بُخارات اُبل پڑتے ہیں
ملگجی دُھند سی آفاق پہ چھا جاتی ہے
تیرہ انداز گھٹاؤں سے شرر جھڑتے ہیں
………………
ایک بجلی سی تڑپتی ہے زمیں کے اندر
چادرِ خاک بہر سِمت سمٹ جاتی ہے
شعلے اٹھنے کے لیے راہ بنا لیتے ہیں
کوہساروں کے چٹخنے کی صدا آتی ہے
………………
زلزلوں کی وہ گراں بار بھیانک ضربیں
گنبدِ عرش کی بُنیاد ہلا دیتی ہیں
پنجہِ قہر کی مضبوط کمندیں اکثر
ایک جھٹکے سے پہاڑوں کو گرالیتی ہیں
………………
کچّی دھاتوں کے جراثیم لیے دامن میں
آتشیں لاوے کا سیلاب اُمنڈ آتا ہے
پھیل جاتے ہیں بہر سمت رقیق انگارے
کُرہِ ارض حرارت سے پگھل جاتا ہے
………………
خُوں اُگلتی ہیں فضائیں تو زمیں روتی ہے
آہِ مظلوم میں تاثیر یہی ہوتی ہے
سلام
دلوں میں درد سا اُٹّھا‘ لیا جو نامِ حسینؑ
مثالِ برق تڑپنے لگے غلامِ حسینؑ
لَبِ فرات جو پیاسے رہے امامِ حسینؑ
خدا نے بھر دیا آبِ بقا سے جامِ حسینؑ
رضا و صبر میں ان کا جواب کیا ہو گا
کہ جب بھی تیر لگا‘ ہنس دیے امامِ حسینؑ
غرورِ تیرگیِ شب کو توڑنے کے لیے
تمام رات دہکتے رہے خیامِ حسینؑ
فنا کا ہاتھ وہاں تک پہنچ نہیں سکتا
اَبَد کی لَوح پہ کَندہ رہے گا نامِ حسینؑ
کسی شہید کا خوں رایگاں نہیں جاتا
جہانِ نو کے یزیدو! سنو، پیامِ حسینؑ
عظمتِ آدم
آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے
گھر گھر میں نئے دِیپ اُجالے ہم نے
تاریک خرابوں کو نیا نُور دیا
ظُلمات سے آفتاب ڈھالے ہم نے
—–
جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے
تیزابیِ خورشید کو شرماتی ہے
بپھری ہوئی نظروں کی تمازت کی قسم
پتّھر کی چٹان موم ہوجاتی ہے
—–
فانُوس کی لَو میں جھلملاتے ہیں کبھی
تاروں کی جبیں کو جگمگاتے ہیں کبھی
آنکھوں میں نُور بن کے رہتے ہیں ہم
سُورج کی کِرن میں مُسکراتے ہیں کبھی
—–
ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتے ہیں ہم
ناکامیوں پر بھی مُسکراتے ہیں ہم
اللہ کی قدرت کے تو قائل ہیں مگر
اپنی تقدیر خود بناتے ہیں ہم
—–
نظروں میں نیا زمانہ ڈَھلتا ہے حُضور
آغوش میں انقلاب پَلتا ہے حُضور
حالات کے سانچے مجھے کیا بدلیں گے
ماحول مِرے جَلو میں چلتا ہے حضور
خانہ بدوش
یہ جنگل کے آہو، یہ صحرا کے راہی
تصنّع کے باغی، دلوں کے سپاہی
فقیری لبادے تو انداز شاہی
یہ اکھڑ ‘ یہ انمول‘ بانکے سجیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
مصائب سے کھیلے حوادث کے پالے
ہیں روشن جبیں ‘ گو ہیں پاؤں میں چھالے
یہ پیتے ہیں ہنس ہنس کے تلخی کے پیالے
کہ جیسے کوئی مَدھ بھرا جام پی لے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
طلب آشیاں کی نہ فِکرِ قفس ہے
نہ دولت کی پروا‘ نہ زر کی ہوس ہے
زباں میں گھلاوٹ نگاہوں میں رس ہے
ہیں جینے کے انداز میٹھے رسیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
زمانے کو چھوڑا صداقت نہ کھوئی
محبّت ہی کاٹی، محبّت ہی بوئی
نہ حاکم ہے کوئی، نہ محکوم کوئی
اُصولوں کے بندھن مگر ڈھیلے ڈھیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
ہے پھولوں کا بستر کبھی بَن میں ڈیرا
نہ تفریق کوئی‘ نہ تیرا نہ میرا
جہاں سب نے چاہا وہیں پر بسیرا
وہ صحرا کے گُل بن‘ وہ وادی کے ٹیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
ہر اک اپنی اپنی جگہ پر مگن ہے
نہ دیوارِ زنداں نہ حدِّ چمن ہے
یہاں بھی وطن ہے وہاں بھی وطن ہے
کوئی اِن سے تعلیمِ آوارگی لے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
آفتاب ہو تم
سَحر کدے کا تقدّس قمر کی آب ہو تم
ہجومِ نُور ہو‘ شعلہ ہو‘ آفتاب ہو تم
یہ روشنی کا تمّوج‘ یہ شوخیوں کے شرار
نگارِ برق ہے رقصاں کہ بے نقاب ہو تم
ہے گوشہ گوشہ منوّر تو کُنج کُنج نکھار
دیارِ حسن ہو تم وادي شباب ہو تم
صبا کا لَوچ گُلوں کی پَھبن خمیر میں ہے
چمن کی رُوح بہاروں کا انتخاب ہو تم
نظر کہ جامِ صبوحی‘ چلن کہ مستیِ رقص
حریمِ بادہ ہو تم‘ پیکرِ شراب ہو تم
نَفَس نَفَس میں ترنّم کی جَوت جاری ہے
غزل کا شعر ہو تم نغمہ و رُباب ہو تم
یہ نغمگی‘ یہ بہاریں ‘ یہ رنگ و نُور‘ یہ رُوپ
خدائے حسن کی تصویرِ کامیاب ہو تم
یہ شورشیں ‘ یہ تکلّف‘ یہ لغزشیں ‘ یہ خرام
بہر ادا یہ حقیقت ہے لاجواب ہو تم
نہیں نہیں کہ حقیقت گراں بھی ہوتی ہے
سَحر شکار اُمنگوں کا کوئی خواب ہو تم
کھنڈر
بادِ خزاں سے گلشنِ ہستی ہے ہم کنار
ویرانیوں کا رقص ہے اب ڈھل چکی بہار
کلیاں جُھلس چکی ہیں ‘ خزاں کا نُزول ہے
پُر ہَول خامشی ہے‘ بگولے ہیں ‘ دُھول ہے
وہ کج رَوی ہے اور نہ اب وہ غرور و ناز
گُنبد زمیں پہ بیٹھ گئے ہیں بصد نیاز
ابرو میں وہ تناؤ نہ آنکھوں میں کوئی رَس
محراب ہے نہ طاق نہ سینے پہ وہ کَلَس
نقش و نگار مسخ تو چہرے پر جھرّیاں
ہل کی اَنی سے پڑ گئیں کھیتوں میں دھاریاں
ہے یہ بدن پہ کھال کا سمٹا ہوا غلاف
ڈالے ہیں زلزلے نے عمارت میں کیا شگاف
نیلی رَگوں کے جسم پہ بکھرے ہیں جال سے
جیسے کہ رینگتے ہوئے کیڑوں کے سلسلے
ہر دم کمالِ ضُعف سے یوں کانپتا ہے سر
جیسے لرز رہا ہو سفینہ بہاؤ پر
خشکی جمی ہوئی لبِ سادہ پہ اس طرح
روغن اتر رہا ہو دریچے کا جس طرح
آنکھوں کی پُتلیوں پہ پپوٹوں کے سائباں
جیسے کسی مکان کی دربستہ کھڑکیاں
بینائی پر ہے دُھند کا پردہ پڑا ہوا
جیسے کہ رَوزنوں پہ ہو جالا تنا ہوا
بکھرے ہوئے یہ بال‘ یہ اُلجھی ہوئی لَٹیں
جیسے کسی درخت کی سُوکھی ہوئی جڑیں
ماتھا ہے ملگجی سا کہ پگھلا ہوا ہے رانگ
ٹوٹی ہوئی کڑی ہے کوئی یا شکستہ مانگ
سبزہ ہے رُخ پہ یا کہ ہے کانٹوں کی کوئی باڑ
بازو ہیں نیم وَا کہ ہیں اترے ہوئے کواڑ
اعصابِ مُردہ‘ جسم کا ہر حصّہ بے سَکت
آغوش جس طرح کوئی بیٹھی ہوئی سی چھت
یوں ضُعف سے درازیِ قامت ہے سَرنِگوں
بارہ دری کا جیسے خمیدہ سا اک ستوں
پُشت آبلہ نما تو کمر نصف دائرہ
مینار گویا اپنے ہی قدموں پہ آگرا
سینے پہ زندگی کے شکستہ سے بام و در
ڈھانچا ہے ہڈّیوں کا کہ اُجڑا ہوا نگر
کیا کیا نہ ظلم و جَور حَسیں جسم پر ہوئے
اُف وہ محل‘ جو وقت سے پہلے کھنڈر ہوئے
زنجیریں
دم بخود سارے شگوفے تھے مہک سے محروم
نکہتِ گُل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے
چمپئی بیل کی سیّال نمُو پر قدغن
سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے
غم کے تاریک لبادوں میں سمن زار اسیر
تیرگی پوش چناروں پہ کڑے پہرے تھے
گیت محبوس عنادل کے لبوں پر تالے
اس گھڑی زمزمہ کاروں پہ کڑے پہرے تھے
پھر ہوا شور کہ وہ طوق و سِلاسل ٹوٹے
تیرہ و تار دریچوں سے اُجالے پھوٹے
اک مسرّت کی کرن تیر گئی گلشن میں
اب شعاعِ گُل و انجم پہ کوئی قید نہیں
لالہِ وقت کے ہونٹوں پہ ستارے ابھرے
پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں
بند کلیوں کے چٹکنے کی کھنک لہرائی
جس طرح اذنِ تکلّم پہ کوئی قید نہیں
گھنگھرو باندھ کے پاؤں میں صبا اٹھلائی
جس طرح رقص و ترنّم پہ کوئی قید نہیں
لیکن افسوس کہ زنجیر صدا دیتی ہے
ہر اُبھرتی ہوئی آواز دبا دیتی ہے
ہلالِ عید
یہ ہلالِ عید ہے قوسِ افق پر ضَو فگن
نیلگوں خیمے میں یا بیٹھی ہے کوئی سیم تَن
پُر تکلّف موڑ ہو جس طرح، جُوے شیر میں
یا ذرا خم آگیا ہو شاہدِ تنویر میں
مانگ ہو افشاں کی جیسے سنگِ مرمر کی کماں
جیسے انگشتِ سلیماں پر انگوٹھی کا نشاں
جس طرح برقاب خنجر، جیسے چاندی کی کٹار
یا کسی معصوم دوشیزہ کے سینے کا اُبھار
اس قدر نازک ادا جیسے کلائی حُور کی
اس قدر شفاف جیسے قاش ہو بِلُّور کی
نُورِ پیغامِ مسرّت ہر کرن سے ضَوفشاں
مطلعِ انوارِ عشرت ہیں زمین و آسماں
جس کو دیکھو آج اسی کو اشتیاقِ دید ہے
کوئی البیلی دُلھن ہے یا ہلالِ عید ہے
نیا سویرا
جہانِ نو کے خداؤ نئی کرن پھوٹی
پرانے دیپ بجھاؤ نئی کرن پھوٹی
ہوا میں رُک نہ سکیں گی روایتی شمعیں
اب آفتاب جلاؤ نئی کرن پھوٹی
وہ پَو پھٹی وہ اُجالے کے نرم تیر چلے
وہ شب میں پڑگئے گھاؤ نئی کرن پھوٹی
سیاہیوں کا کفن چاک ہو گیا دیکھو
طلوعِ صبح مناؤ نئی کرن پھوٹی
شفق کے کھیت میں وہ روشنی کے پھول کِھلے
خزاں کو آگ لگاؤ نئی کرن پھوٹی
افق پہ چھا گئے زرکار و سیم گوں ڈورے
دلوں کے چاک ملاؤ نئی کرن پھوٹی
شفق بدوش رو پہلی سحر کی خوش رنگی
نظر نظر میں رچاؤ نئی کرن پھوٹی
پگھل رہا ہے دھواں دھار سطوتوں کا غرور
دہک اٹھا ہے الاؤ نئی کرن پھوٹی
شکار ہو نہ سکے گی جنوں کی زرتابی
خرد کے جال بچھاؤ نئی کرن پھوٹی
وہی جو تیرگیِ شب میں ظلم ڈھاتے تھے
اب ان کو پیار سکھاؤ نئی کرن پھوٹی
مرا پسینا جبینِ سَحر کا جُھومر ہے
مرا لہو نہ بہاؤ نئی کرن پھوٹی
جہاں سے حرص و ہَوس کا غُبار چَھٹ جائے
وفا کی دھوم مچاؤ نئی کرن پھوٹی
عیُوب پوش سیاہی کے سُودخوروں میں
متاعِ علم لُٹاؤ نئی کرن پھوٹی
ہر ایک فرد ہر انساں کا احترام کرے
اک ایسی رِیت بناؤ نئی کرن پھوٹی
نئی حیات جنم دن منا رہی ہے آج
نئے اصول بناؤ نئی کرن پھوٹی