سخناب ماجد صدیقی اُس پر کیا لکھا جانا ہے دیکھ سارے شہر کا نقشہ بدل جانے لگا لاحق ہونے کو ہے کیا آزار مجھے پھر یاد گئے زمانے آئے رنج کا اور بھی سبب نکلا مظہر ہے چمن کی تشنگی کا مجرم ہمیں ہی ایک نہ ٹھہرانا چاہئے آنکھ میں اک نمی سی اُبھرنے لگی اُس ناری کے رنگ چُرائے ہم نے بھی جن کی پرسش میں بھی دل آزاری ہے گرد آئے جہاں غبار آئے جان لیجے کہ وہ جہاں سے گیا تھا مگر وہ سرگراں ایسا نہ تھا ہنسی ہنسی میں مری بات پھر وہ ٹال گیا اِک مدّت سے جسم ہمارا بوجھل ہے عہد اُس نے کیا نہ آنے کا لاتے ہیں ایک قبر کی چادر بھی سات ہم ہم پہ ممنوع پھر وہ گلی ہو گئی مگر ماجدؔ یہ سکّہ چام سا ہے گمرہی تھی عجب اُڑانوں میں پیڑ اُکھڑے تو آشیاں کیسا ہونٹ اچھے لگے ہمیں سِل کے سچ لٹکتا ہے ہمیشہ دار سے ہم سے بچھڑا تو پھر نہ آیا وُہ ہَوا اسیر ہے لیکن ابھی حباب میں ہے اُسی سے رشتہ مرا بھی کچھ دُور پار کا ہے کوئی موسم ہو مرا دل ہی دکھانے آئے جس کے رخ پر گرد کی چادر نہیں جو ناروا ہے تم اُس کو بھی اَب روا کہنا مگر وُہ بھید مجھ پر کھُل چکا ہے پیڑ کوئی لگا پھر ٹھکانے یہ کیسا ستم اب کے ہم دیکھتے ہیں اور بھید میں کائنات کا ہوں ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا منہ پر ترے یہ قصّۂ کرب و بلا ہے کیا اک کھال بھی ہرن کی وہیں پر سجی ملی دل میں یوں زہر سا خمار نہ تھا راکھ سی بن کے پھر اُڑے تھے ہم دل کے شیشے میں جتنے بال آئے آنچ سی اِک مسلسل ہواؤں میں ہے خوئے ستم بھی اُس کی ہی تسلیم ہوئی اُنہی لفظوں کی نگرانی بہت ہے ہے نشہ اُس کی یاد کا اور میں چرخ کرتا ہے اُس پہ گرد نثار بال سا اک شیشے میں آنے لگتا ہے جو گل بھی ہے چمن میں وہ پتّھر دکھائی دے کسی بھی شاخ پہ کونپل کوئی نہ آنے دے آنے لگا ہوں میں بھی نظر کچھ آدھا سا کیسا یہ مری روح کو آزار ملا ہے اُس نے بھی اب کے ہمیں رُسوا کہا چمن سے جھونکا جو ہو کے آیا لگا ہمیں سوگوار کیا کیا ہم نے دل کی نہ بحالی دیکھی رُوٹھا یار مناؤں خلق سے وہ بے زار ملے سسکنے لگے پھر شجر دیکھنا آسماں سی جس کی پہنائی لگے کیوں مرا ظرف آزماتے ہو صورتِ اشجار ہیں زردار ہم زد میں ہے کوہِ جاں وہ رائی کی شجر مشکل سے اب کوئی پھلے گا آگ اُٹھتی لگے لبوں سے مجھے منظر ہے پھر نگاہ میں پھٹتے حباب کا بڑا دشوار ہے حق بات کہنا رسم یہ منصوری ہے اِسے دُہراتے رہنا کون ہے جو دل مرا بہلا سکے بن کے ٹُوٹا وہی بلا ہم پر جتنے امکاں تھے راحت کے گھٹنے لگے کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے بول ہوں جیسے ہونٹوں پر بیواؤں کے ہمارا ذکر وہاں اب کے غائبانہ تھا اُس کا پیکر ہے مگر یاد آیا باکرہ ماں کی طرح پیٹ چھپائے رکھنا وہی سہم سا وہی خوف سا ہے خیال میں یہ سہم سا خواب خواب کیا ہے اُس کا اب تک ہے اعتراف ہمیں وہ شخص جِسے اب بھی مرا نام نہ آئے تیر پر اُس کے مرا جب تن لگا دل کو تسکین کہاں سے آئے ساری آوازیں لگیں بھرّائیاں سانس آنے کا اعتبار گیا تھے جو کل یار وہ اغیار بنے کہ باج بن کے خوشی زندگی سے کٹنے لگی شجر پھر ہے پتے لُٹانے لگا کس کا رہنے لگا خیال ہمیں جیسے افواہ کوئی گاؤں میں بڑا ہی دور سِر اَوج طور اُترا ہے مرا سرِیر زمانے میں جب دو لخت نہ تھا رکھنے لگے اغیار میں اپنا بھرم اچّھا جو کیا ہے صاحبو! اچّھا کیا اچّھا کیا نہیں لیکن لبِ اظہار رکھنا پھر بھی خاموش میرا خُدا ہے بے اماں ہیں مرے نگر کیا کیا اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے کتابِ عمر میں لو یہ بھی ایک باب آیا ہر ایک شہر ہے شیدا اب اُس کے ناؤں کا لیکن نہ زبانوں پر تم رنجِ سفر لانا تیر کھانے ہیں پھر جگر پہ ہمیں آنکھ کا آنگن ہمیشہ نم رہا دکھاتا ہے چلن صّیاد کیا کیا دھوپ جیسے کبھی چھاؤں سے ملے اشک سا خاک میں سماتا ہے دن تھے جو بُرے وہ کٹ رہے ہیں جو کچھ بھی طے کریں وہ مرے رُوبرو کریں دن مجھے بھی کوئی تو دے ایسا برق بھی ایک اِسی آب اِسی خاک میں ہے دہن صدف کا فلک کی جانب کھلا ہوا رہ گیا ہو جیسے اُبھر رہے ہیں شرارے سے کیوں نگاہوں میں کتبوں جیسے لوگ ہیں ہر سُو پتھر بنتا جاؤں مَیں یادوں میں کسی نے پھر کہرام مچانا ہے کب زمیں سے ہے آسمان ملا ثبوت ورنہ سزا کو نہ کچھ گناہ میں تھے بدن کو لگتا ہے زہر، سایہ ہر اک شجر کا دل اٹھا لائے سرِ بازار ہم پر کرشمہ اور ہی اُس کے مکر جانے میں تھا میرے قدموں میں یہ ہنر کب ہے بات دل کی نہ منہ پہ لائیں ہم پوچھئے گا نہ بات یہ ہم سے لمحہ لمحہ ہُوا ہے سال اپنا کب نصیبوں میں اپنے سحر دیکھنا خزاں کے دور میں ذکرِ بہار کیا کرنا فلک سے فیض کے طالب ہیں پھر شجر اپنے لکھنے لگے تو لفظ قلم سے چمٹ گیا عذاب کیا یہ مسلسل ہماری جان پہ ہے جیسے ہربات میں ہو تیرے بدن کی خوشبو اپنی صورت بھی ہے کیا سے کیا ہو گئی مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا بے برگ شجر دیکھوں بکھرے ہوئے پر دیکھوں ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا ریشم کے لچّھے بھی دیکھو سُوت ہوئے پھر بھی ہمیں کیوں جانے زعم خودی کا ہے زیست کا اِک اور دن کم ہو گیا پھر نہ آیا نظر میں منظر وُہ ہم دونوں میں رنجش تھی اور بچے گھر میں سہمے تھے درِ زنداں ہمیں پر ہی کھُلا ہے شہر میں اب اِس بیماری سے بچنا ہے دشوار بہت کسی نے آکر ہمیں ہے کب بے قرار دیکھا کہ میری جان مرے جسم میں جلا دی ہے وہ بیگانہ ہے میرا آشنا بھی سپنے سکُھ کی چھاؤں کے کیے لاحق عجب امراض ہم نے کیوں حق میں ہَوا اُس کے یہ جور روا جانے کبھی وُہ رُخ بھی سپردِ قلم کیا جائے ہاتھوں میں جس کے تیر، سرِ دوش جال تھا کہ بے قصور نہ بستی میں کوئی گھر دیکھا کہ جیسے عکس پڑے جھیل میں ستاروں کا بخت پہنچے نہ یاوری کرنے جس کو اُونچا سُنائی دیتا ہے آنے والے آ نہ سکے کیا ملے جان بھی جلانے سے جی سے جانا بھی ہے آسان کہاں چمن سے شور اُٹھا ’’الحذر‘‘ کا درس ہے یہ ہمیں ازبر رکھنا فکر پہنچے گا وہاں دو چار کا اِس قدر کب تھیں ملیں ہم کو سزائیں جتنی لیتے رہے امتحان اپنا منظر وہ ابھی تم نے مری جاں! نہیں دیکھا چہرہ ہے وہ کس کا جو سرِکاہکشاں ہے وُہ شوخ مرا دمساز نہیں اب کے جھونکے نئی زنجیر لیے پھرتے ہیں شجر کی ژالوں سے جس طرح رسم و راہ ٹھہرے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔