دستِ تہِ سنگ از فیض احمد فیض
- کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو
- دستِ تہِ سنگ آمدہ
- اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
- سفر نامہ
- جشن کا دن
- آگ سُلگاؤ آبگینوں میں
- کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے
- شام
- سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام بجھ گئے ہیں
- تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں!
- کوئی بھی حیلۂ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے
- تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے
- شورشِ زنجیر بسم اللہ
- آج بازار میں پابجولاں چلو
- ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم
- قیدِ تنہائی
- جو عُمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
- زندگی
- تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے
- سِل گئے ہونٹ ، کوئی زخم سِلے یا نہ سلے
- کِھلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے پُر
- سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہو گی
- دو مرثیے
- قاصدا ، قیمتِ گلگشتِ بہاراں کیا ہے
- جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آگئی، جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا
- کہاں جاؤ گے
- فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح
- شہرِ یاراں
- جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
- خوشا ضمانتِ غم
- جب تیری سمندر آنکھوں میں
- رنگ ہے دل کا مرے
- پاس رہو
- نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے
- دھوکے دئیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے
- غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
- منظر