فردا
مجید امجد
- فردا
- مسلَخ
- اس دن اس برفیلی تیز ہوا۔۔۔
- دنیا مرے لیے تھی۔۔۔
- اپنی آنکھ پہ۔۔۔
- ایکسیڈنٹ
- کوہِ بلند
- ڈر کاہے کا
- کمائی
- نیلے تالاب
- تب میرا دل…
- یہ سب دن۔۔۔
- اک دن ماں نے کہا
- آواز کا امرت
- ’’تینوں رب دیاں رکھاں‘‘
- پھر جب دوستیوں ۔۔۔
- فرد
- کبھی کبھی وہ لوگ۔۔۔
- موانست
- گوشت کی چادر
- بےربط
- بھائی کوسیجن، اتنی جلدی کیا تھی
- مریض کی دعا
- وہ بھی اک کیا نام ہے ۔۔۔
- دن تو جیسے بھی ہوں۔۔۔
- پھولوں کی پلٹن
- ایک نظمینہ
- لوگ یہ۔۔۔
- یہ بھی کوئی بات ہے۔۔۔
- بانگِ بقا
- ایک صبح۔۔۔ سٹیڈیم ہوٹل میں
- دُور، اُدھر۔۔۔
- جدھر جدھر بھی۔۔۔
- چھٹی کے دن
- اُن لوگوں کے اندر ۔۔۔
- اے ری چڑیا
- بہار کی چڑیا
- گہرے بھیدوں والے
- مرے ہوئے اس اک ڈھانچے۔۔۔
- اے رے من ۔۔۔
- میٹنگ
- حضرت سید منظور حسین شاہ
- زائر
- میری عمر اور میرے گھر۔۔۔
- بندے
- اپنے یہ ارمان۔۔۔
- وہ تلوار ابھی۔۔۔
- یہ دو پہیے۔۔۔
- رکھیا اکھیاں
- ورنہ تیرا وجود۔۔۔
- اک جیون ہار ڈر سا ہے ترے دل کے لیے
- گھور گھٹاؤں
- اپنی خوب سی اک خوبی۔۔۔
- دیوں کے جلنے سے۔۔۔
- ہم تارے، چاند ستارے ہیں
- اس برتاؤ میں ہے سب برتا دنیا کی
- ننھی بھولی۔۔۔
- گستاپو
- تم کیا جانو۔۔۔
- اور اب یہ اک سنبھلا سنبھلا۔۔۔
- مینا
- سب کو برابر کا حصہ۔۔۔
- کہاں سفینے ۔۔۔
- سبھوں نے مل مل لیں۔۔۔
- کل کچھ لڑکے…
- کوہستانی جانوروں۔۔۔
- اپنے لیکھ یہی تھے۔۔۔
- اپنے دل میں ڈر۔۔۔
- دنوں کے اس آشوب۔۔۔
- فصلِ گل
- بندے تو یہ کب مانے گا۔۔۔
- شایرتیرے کرم۔۔۔
- کون ایسا ہو گا۔۔۔
- آج تو جاتے جاتے۔۔۔
- پہلی سے پہلے
- مورتی
- اے وہ جس کے لبوں۔۔۔
- گدلے پانی۔۔۔
- ہر سال ان صبحوں۔۔۔
- دامنِ دل
- جلسہ
- دل کا چھالا
- عذاب
- موٹر ڈیلرز
- اپنے بس میں۔۔۔
- نئے لوگو!
- دروازے کے پھول
- گداگر
- اچھے آدمی۔۔۔
- حرص
- دکھ کی جھپٹ میں ۔۔۔
- کب کے مٹی۔۔۔
- جاگا ہوں تو۔۔۔
- جانے اصلی صورت۔۔۔
- ان سب لاکھوں کُروں۔۔۔
- کندن
- جب اطوار وطیرہ بن جاتے ہیں۔۔۔
- طغیان
- دنیا تیرے اندر۔۔۔
- پچھلے برس ۔۔۔
- تو وہ پیاسی توجہ۔۔۔
- اور وہ بھی اک کیسی۔۔۔
- میرے سفر میں۔۔۔
- ننھے کی نوبیں آنکھوں۔۔۔
- کہنے کو تو۔۔۔
- میں کس جگ مگ میں۔۔۔
- جب اک بے حق۔۔۔
- اپنی بابت۔۔۔
- آنکھیں ہیں جو۔۔۔
- اب تو دن تھے
- سب کچھ جھکی جھکی۔۔۔
- ان کے دلوں کے اندر۔۔۔
- بندے جب تو۔۔۔
- مصطفیٰ زیدی
- سائرن بھی، اذان بھی، ہم بھی
- اے قوم
- ہم تو سدا۔۔۔
- 21 دسمبر 1971
- ریڈیو پر اک قیدی …
- سب کچھ ریت۔۔۔
- چیونٹیوں کے ان قافلوں۔۔۔
- 8 جنوری 1972
- جنگی قیدی کے نام
- میلی میلی نگاہوں۔۔۔
- باہر اک دریا۔۔۔
- لمبی دھوپ کے۔۔۔
- اندر روحوں میں۔۔۔
- اس دنیا نے اَب تک۔۔۔
- دکھیاری ماؤں نے ۔۔۔
- کبھی کبھی تو۔۔۔
- ڈھلتے اندھیروں میں۔۔۔
- سدا زمانوں کے اندر۔۔۔
- اور وہ لوگ۔۔۔
- پختہ وصفوں کے بل پر۔۔۔
- ساتوں آسمانوں۔۔۔
- اپنے آپ کو ۔۔۔
- دلوں کی ان فولادی ۔۔۔
- زندگیوں کے نازک۔۔۔
- تیری نیندیں۔۔۔
- ان بے داغ ۔۔۔
- جس بھی روح کا۔۔۔
- باڑیوں میں مینہ۔۔۔
- اس کو علم ہے۔۔۔
- اب بھی آنکھیں۔۔۔
- اور ان خارزاروں میں۔۔۔
- بھولے ہوئے وہ لبھاوے۔۔۔
- تو تو سب کچھ
- مجھ کو ڈر نہیں۔۔۔
- تج دو کہ برت لو، دل تو یہی، چن لو کہ گنوا دو، دن تو یہی
- عرشوں تک۔۔۔
- کل۔۔۔ جب۔۔۔
- دل تو دھڑکتے۔۔۔
- اور یہ انساں۔۔۔
- اور پھر اک دن۔۔۔
- لیکن سچ تو یہ ہے۔۔۔
- ہم تو اسی تمہارے سچ۔۔۔
- کبھی کبھی تو زندگیاں۔۔۔
- سب سینوں میں۔۔۔
- برسوں عرصوں میں۔۔۔
- آنے والے ساحلوں پر۔۔۔
- خوردبینوں پہ جھکی۔۔۔
- صدیوں تک۔۔۔
- اپنے دکھوں کی مستی میں۔۔۔
- کالے بادل۔۔۔
- اندر سے اک دُموی لہر۔۔۔
- دوسروں کے بھی علم۔۔۔
- بستے رہے سب۔۔۔
- دو پہیوں کا جستی دستہ۔۔۔
- بات کرے بالک سے۔۔۔
- جب صرف اپنی بابت۔۔۔
- پھر مجھ پر بوجھ۔۔۔
- کیسے دن ہیں۔۔۔
- ان کو جینے کی مہلت۔۔۔
- جن لفظوں میں۔۔۔
- میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
- صبح ہوئی ہے۔۔۔
- میرے دل میں ۔۔۔
- مطلب تو ہے وہی ۔۔۔
- کچھ دن پہلے۔۔۔
- یہ ایک صبح تو ہے سیرِ بوستاں کے لیے
- ہر جانب ہیں۔۔۔
- کیا قیمت۔۔۔
- اے ری صبح۔۔۔
- اے دل اب تو۔۔۔
- اور ہمارے وجود۔۔۔
- اک یہ ملک، اور رزق اور گیت اور خوشیاں
- خود ہی لڑے بھنور سے! کیوں زحمت کی؟ ہم جو بیٹھے تھے
- خرید لوں میں یہ نقلی دوا، جو تو چاہے
- صحّت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے
- دور ایک بانسری پہ یہ دھن: ’پھر کب آؤ گے؟‘
- ہے میرے ساتھ تو اب ختم قرنِ آخر بھی
- یہ دن، یہ تیرے شگفتہ دنوں کا آخری دن
- سنا ہے میں نے
- اپنے طغیان کی سزا یہ خیال