قمر جلالوی کی غزلیں فرد فرد غیر مردّف نہ یہاں مرا ٹھکانہ نہ وہاں مرا ٹھکانہ مگر یہ عدو کی زبانی سنا ہے بڑی مشکلوں سے تمہیں نیند آئی مگر ذکر شامِ الم کا جب آیا چراغِ سحر بجھ گیا جلتے جلتے کہ قفس میں تنگ آ کر مرے اور ہیں ارادے صراحی جھک گئی اٹھے ادب سے پیمانے جو مجھ پہ ہنسا کرتے تھے وہ روتے ہیں سرہانے ا ذرا سے ابر میں گم آفتاب کیا ہوتا اگر خدائی بتوں کی ہوتی تو دیر ہوتا حرم نہ ہوتا تری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتا تو پھر انصاف ہو گا اے بتِ خود سر کہاں میرا میں خود ہی فلک کا ستایا ہوا ہوں مجھے تم ستانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ میدان محشر ہے نہ گھر ان کا نہ گھر اپنا زباں سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا آؤ مل لو عید یہ موقع نہیں تکرار کا گل کون تراشے ہے چراغِ سحری کا کیا کروں حشر میں ڈر ہے تری رسوائی کا پتہ پتہ ہاتھ ملتا رہ گیا گلزار کا خدا معلوم و کس کس سے محوِ گفتگو ہو گا یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا جو بیڑا ڈوب چکا ہو وہ پار کیا ہو گا خجل ہوئے پہ یہ توڑی قسم تو کیا ہو گا اندھیرے میں نظر نہ آیا میخانہ تو کیا ہو گا کوئی طوفاں ہو گا ناخدا ساحل تو کیا ہو گا وہ الجھے ہی رہیں گے زلف میں شانہ تو کیا ہو گا خیالاتِ بشر میں انقلاب آنے سے کیا ہو گا یہ خبر ہی نہ تھی طور جل جائے گا قمر خدا کی قسم وہ بھی کیا زمانہ تھا لیکن میں تشنہ لب کا وہی تشنہ لب رہا آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا جامِ حیات ایک ہی قطرے میں بھر گیا سوچتا ہوں کون کون آیا گیا تھا کماں تک تیر دل میں آ کے ارماں ہو گیا وہ نہانے کیا چلے آئے تماشا ہو گیا اے بتِ خاموش کیا سچ مچ کا پتھر ہو گیا اک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیا شمع روشن ہو گئی پھولوں کا ہار آ ہی گیا ب مدتیں گزریں نہیں آتے وہ چلمن کے قریب ت تم کہیں بھول نہ جاؤ مرے گھر کی صورت ح میرے آنے تک تھا سارا گلستاں اچھی طرح د جب تم یہ کہو ہم کو نہیں عہدِ وفا یاد خدا کرے کے سمجھ لے مری زباں صیاد ر پھر سوچ لو باقی تو نہیں کوئی ستم اور خس کم جہاں پاک غمِ آشیاں سے دور میں تو تہِ مزار ہوں تم تو ہو مزار پر کہ ایسی بھیڑ میں جاؤ گے پیشِ حق کہاں ہو کر حال تھا جو حضرتِ آدم کا جنت کے بغیر ز کہ جس طرح کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز ل اے سرو آ تجھے بھی دلا دوں ہزار پھول بند ہوتا نہیں کھل کر کبھی دروازۂ گل م شمع رو دے گی مگر نہ لے گی پروانے کا نام اپنی توبہ توڑ دیں یا توڑ دیں پیمانہ ہم ساقیا راس آ گئے ہیں تیرے میخانے کو ہم جاؤ بس اب مل چکے کشتی سے تم ساحل سے ہم راہبر تو لوٹ لے شکوہ کریں منزل سے ہم ن ظالم تری لگائی ہوئی کو بجھائے کون و تو اے بتِ کافر نہ خدا ہے نہ خدا ہو نغمہ ہو جاتا ہے بے کیف اگر ساز نہ ہو اے نا خدا کہیں یہ فریبِ نظر نہ ہو ک شہر تو شہر بدل جائیں گے ویرانے تک ں نہ جانے چھوڑ دے مجھ کو مری حیات کہاں خدا رکھے تجھے قاتل رہے دنیا میں تو برسوں حسن اتنا سوچ لے دو بیکسوں کی یاد ہوں وسعتیں ایک ایک ذرے کی بیاباں ہو گئیں اگر گریباں پہ ہاتھ جاتا تمھیں سناتے ہزار باتیں گرے بجلی چمن پر آگ لگ جائے نشیمن میں ہمسایہ سو رہا ہے بے فکر اپنے گھر میں اک تماشا بن کے آ بیٹھا ہوں کوئے یار میں سب پھول ہی نہیں کانٹے بھی تھے چمن میں رونقِ گل ہے وہیں تک کہ رہے خاروں میں آج گر صحرا میں ہوں کل خانۂ زنجیر میں ہوتے ہیں ابتدا ہی سے کانٹے گلاب میں بس اے ظہورِ جلوہ اب دم نہیں کسی میں اگر حضور نے کہہ دیا کل خدا ہوں میں یہ وہیں ہیں لوگ شاید جو فریب کھا گئے ہیں وہ شاخِ گل کی صورت ناز سے بل کھائے جاتے ہیں ایک گھر برق کو ہر سال دیا کرتے ہیں غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں نہ جب مشکل سمجھتے تھے نہ اب شکل سمجھتے ہیں کیوں مجھے جرأتِ گفتار دئیے دیتے ہیں عشق کو حسن ساز گار نہیں مگر حضور زمانے کا اعتبار نہیں تم خود ہی منانے آؤ گے سرکار وہ دن بھی دور نہیں وہ اگر آئے بھی تو میں دوپہر سمجھا نہیں ھ کافر لگے ہوئے ہیں مسلماں کے ساتھ ساتھ ہ عیاں سورج ہوا وقتِ سحر آہستہ آہستہ ی وہاں فریاد کرتا ہوں نہیں ہوتا جہاں کوئی توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی بگولوں سے ہماری قبر پہچانی نہیں جاتی گریباں پاؤں میں ہوتا گلے میں آستیں ہوتی تری بہار تو کیا ہے خزاں نہیں رہتی تو نے جسے ستایا تو نے جسے دغا دی جو ہم پی کر چلے آئے تو میخانے پہ کیا گزری ترے منہ پر کہی تیری مرے منہ پر کہی میری بات تھی آئی گئی ہو گئی دیوانوں کی وہ دو سانس کا دم اور یہ شب چار پہر کی داستاں کہنے کو بیٹھا ہوں دلِ نا شاد کی بلبلوں نے عمر بھر میری کہانی یاد کی دھواں تنکوں سے اٹھے گا چمن میں روشنی ہو گی کہ اے شمعِ فرقت نہ ہم ہونگے نہ تو ہو گی وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہو جائے گی ادھر اندھیرے میں چل پڑوں گا جدھر مجھے روشنی ملے گی قسم کھائی ہوئی توبہ بڑی مشکل سے ٹوٹے گی ہم نے مارا نہ آج تک دم بھی اسی گلشن اسی ڈالی پہ ہو گا آشیاں پھر بھی آتا ہوں ہے کے گھر سے تیری قسم ابھی اتنے کہاں ہوئے ہیں مرے بال و پر ابھی تجھ سے سائے کی طرح جو نہ ہوا دور کبھی کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی لٹ لٹ کے اب خزانے میں دولت نہیں رہی نہیں دن کو جو فرصت تمھیں تو رات سہی ے ہر اک شاخِ چمن پر پھول بن کر جام آ جائے بس تمھارا نام کافی زمانے کے لئے دل کو ہے درد ،درد کو ہے دل لیئے ہوئے یہاں دھوپ آ نہیں سکتی وہاں سائے نہیں جاتے وہ کیا ہیں ان کے فرشتے بھی گفتگو کرتے اسِیروں کے کسی قابل اگر صیاد پر ہوتے ساحل کی طرف کشتی نہ سہی کشتی کی طرف ساحل کر دے آئینے ٹوٹ جاتے ہیں آئینہ ساز سے کہیں ڈوبی ہوئی کشتی ملا کرتی ہے ساحل سے بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے یہ کب کے لے رہا ہے ہم سے اے چرخِ کہن بدلے کھائی ٹھوکر گر پڑے گر کر اٹھے اٹھ کر چلے جیسے غبارِ راہ پسِ کارواں چلے آپ تو بالکل مرے مرنے کا ساماں کر چلے لفافے میں نہ رکھ لی نامہ بر میری زباں تو نے کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تو نے میری قسمت پر نکل آئے ہیں آنسو جام کے خیر ان باتوں میں کیا رکھا ہے تم جھوٹے نہ تھے بیٹھو نہ ذبح کرنے کو منہ پھیر کر مجھے ذرے تک میں تو ہی تو ہے خاک زمانہ چھانے ہے اللہ خیر ہو کہ نئی واردات ہے میں نہ سمجھا تھا محبت اس قدر بدنام ہے تجھ سے میں شرماؤں یا تو مجھ سے شرمائے ہے نگاہِ شوق جب تصویر ان کی کھینچ لائی ہے یہ نشیمن تو ہے کیا طور بھی جل جاتا ہے عالمِ گردشِ ایام بدل جاتا ہے یہ ستم اور بھی بالائے ستم ہوتا ہے سرِ بزم پہلو میں بیٹھا ہے دشمن قیامت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے مایوس نظر ہے در کی طرف اور جان نکلی جاتی ہے کس کو وہ دیکھتے ہیں کس پہ نظر ہوتی ہے دعا کتنی حسیں تھی جس کی یہ تاثیر بگڑی ہے آپ کیا کہہ کہ ہمیں لائے تھے کچھ یاد بھی ہے رونق گلستاں میں نہ آئی کمی پھول آتے رہے پھول جاتے رہے سوئے در دیکھا تو پہروں سوئے در دیکھا کیے وہ میرے سامنے تھے مگر کچھ نہ پوچھیے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکپسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔