شکیب جلالی کی تمام نظمیں اَوہام کے بت توڑ رہے ہیں ٹھہرو اِندمال اِنفرادیت پرست اتنی بے لوث تو نہیں دنیا احساسِ غمِ سودوزیاں سے کیا کام اس طرح رات کے دھندلکے میں اس طرح رنج کے دُھندلکے میں اس قدر بُغض کیوں ہے آپس میں اس نے کہا اک دُھند ہے‘ اک کُہر ہے‘ اک بدلی ہے الجیریا کے نام ان کو خودبیں بنا دیا میں نے انتظارِ بہار انگ انگ میں بہتے ہوئے مہ پارے ہیں اہلِ غربت کی چاندنی راتیں اے سرزمینِ الجزائر ایک غیرت شعار مفلس پر آج کی بات دوست کل پہ نہ ٹال آدمی میں اگر خُلوص نہ ہو آس آغوش میں ظلمت کی سُلاتے ہو انھیں آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے آفتاب ہو تم آلام کا اظہار بھی منظور نہیں آنکھیں پُرنم بادل بنامِ اہلِ چمن بہ یادِ قائدِ اعظم بھر جائے گی پھولوں سے شفق کی جھولی پاداش پاکیزگی پتوں پہ ٹپکتی ہوئی شبنم کی چاپ پیامِ اقبال تقدیسِ شباب سے شرارے پھوٹے تقلید کے بت توڑ کے رکھ دیتے ہیں تنہا ستارہ توبہ نے لچک کر یہ کہا ہے ساقی تیرے حالات اور ہی کچھ ہیں تیرے دو دن کے پیار پر ہمدم جِذبہِ اقتدار ہی تیرا جاگتی آنکھیں جانے کیوں ان کے سبز آنچل پر جب بھی ان سے نگاہ ملتی ہے جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے جذبہِ خام تو نہیں ہم لوگ جشنِ عید جشن بہاراں جگر میں سوزِ نہاں ، لب پہ مسکراہٹ ہے جنھیں نصیب ہیں آسایشوں کے رنگ محل جہت کی تلاش جوالا مکھی چُوڑیاں بج رہی ہیں کانوں میں چاند تارے ترے تبسّم سے چاندنی رات اور یہ نظّارے چاندنی راتیں مجھے کرتی ہیں تلقینِ گناہ چاندی کے کٹوروں میں فوارے چھوٹے چرواہے کا گیت چونکتے سایوں کی آواز خاک بَسَر جاگے خانہ بدوش خداوندانِ جمہُور سے! خوابیدہ کراہوں کی صدا آتی ہے دعوتِ فکر دل میں بے شک ہیں خواہشوں کے ہجوم دلاسہ دلاسے دوستی کے لطیف پردے میں ذوقِ نظارہ خام نہیں ہے رُک رُک کے سفینہ بہ رہا ہو جیسے رات بھر کروٹیں بدلتا ہوں رات کے پچھلے پہر روشنیوں کے دشمن زاویے زنجیریں زندگانی کے ہاتھ سے ہمدم زندگی کے گھنے اندھیرے میں ساتھی ساحل پہ اور ریت بچھانے سے فائدہ سبزہ زاروں میں روشنی کی کرن سراب سفیر سلام شبِ تاریک بیت جائے گی شرمندہِ اغیار رہے ہیں برسوں شعلہِ دل شعورِ آزادی شہادتِ حق شہرِ گُل شہیدِ اعظم صبح طلوعِ سحر عشق کا احترام ہے لازم عظمتِ آدم عکس اور میں عہد و پیمان عشق و اُلفت کے عید عیدِ وطن عید کی بھیک غازی کا ترانہ غمِکوہکن فانوس کی لَو میں جِھلملاتا ہوں کبھی فریادی کِھل گئے پُھول دیکھ کر ان کو کالا پتّھر کھنڈر کیسے مُخلص انھیں سمجھ لوں میں کیسی پُرخار ہیں مری راہیں گُل رنگ یہ زر تار سی بھوری کرنیں گریزپا گفتار کہَرخشندہ ستاروں کا تبسّم گونجی ہے فضا میں کسی ذی روح کی چاپ گیت لرزتا دیپ لہو ترنگ مُجرم مبارک وہ ساعت مٹ گیا غم دیارِ غربت کا مسکراہٹ لَبوں پہ پھیکی سی ملاجو مژدہِ عیدِ سعید غربت میں منقبت منھ سے لگا کے چھوڑ دیا بادہِ نشاط موت سے کس لیے ڈراتے ہو موجِ خرامِ عید مے خانہ بدوش یہ گُلابی آنکھیں میرے ہمراہ وہ اگر چلتے میری نادان آرزوؤں نے نذرِ وطن نظروں میں نیا زمانہ ڈھلتا ہے حضور نگارِ عید جو آئی مرے خیالوں میں نیا سویرا نئی کرن ہر خوشی وقفِ اضطراب ہوئی ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتا ہوں میں ہر محبّت کی بات کو تم نے ہراساں ہیں تیز آندھیوں کے تھپیڑے ہلالِ عید ہم سے روشن ہیں محفلوں کے چراغ ہمارا دَور ہے ابھی تو خلوص دنیا میں وسوسے دل کے بڑھتے جاتے ہیں وہ دُور کہیں باغ میں بلبل بولی وہ رسمِ عنایات نہیں ہے پھر بھی یاد یاد آؤ نہ اتنی رات گئے یاسیت کی مُہیب راتوں میں یہ حقیقت ہے جس قدر اُلجھیں یہ حقیقت ہے چُھپ نہیں سکتی یہ مرے دوست یہ معصوم سے لوگ Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
yah bohat acha kam kiya app ny Shakeb jalali ki nazmoo ki kami thi پسند کریںLiked by 1 person جواب دیں
yah bohat acha kam kiya app ny Shakeb jalali ki nazmoo ki kami thi
پسند کریںLiked by 1 person