کلیاتِ شکیب جلالی ۔ غزلیں شکیب جلالی ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا جتنے اس پیڑ کے پھل تھے‘ پسِ دیوار گرے یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی مگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہ آتا تھا کبھی چراغ بھی جلتا ہے اس حویلی میں ؟ وہ رینگنے لگی کشتی‘ وہ بادبان کُھلا پستی سے ہم کنار ملے کوہ سار بھی گماں گزرتا ہے‘ یہ شخص دوسرا ہے کوئی دوستو‘ پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر مُرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اُڑان پر جو کناروں میں سمٹ جائے وہ دریا ہی نہیں میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت ہر شے گزشتنی ہے مہ و سال کی طرح مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو یہ سنّاٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے سُورج ہوں ‘ میرا رنگ مگر دن ڈھلے بھی دیکھ دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں اُونچی ہوں فصیلیں تو ہَوا تک نہیں آتی ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں کاش میں پیڑوں کا سایہ ہوتا اگر ہو اہلِ نگاہ یارو‘ چٹان کے آرپار دیکھو آگ جب دل میں سلگتی تھی‘ دھواں کیوں نہ ہوا کیا کیا نہ رنگ بھر دیے افسونِ شام نے ہم بھی سفرِ جاں کا ارادہ نہیں رکھتے مجھ پہ مائل بہ کرم ہے‘ تو دلِ دریا دے میں جو ڈوبا تو نہ ابھروں گا کبھی ساگر سے اب تو اپنے در و بام بھی‘ جانتے ہیں پرایا مجھے کسی کے ہاتھ نہ آئی مگر گلاب کی باس دامن بچا کے گزرو‘ یادوں کی رہ گزر سے لے اُڑی جانے کہاں صرصرِ حالات ہمیں میں بھی کس امتحان سے نکلا رہتا ہے اپنے نور میں سورج چُھپا ہُوا کچھ اس کا بھی سدِّباب یارو بقدرِ ظرف ہر اک آدمی سمندر ہے رات تو کٹ گئی‘ درد کی سیج پر کچھ نہیں ہے‘ مگر اس گھر کا مقدّر یادیں قریہ قریہ بھٹک رہا ہے جُنوں بدل رہا ہے جنوں زاویے اُڑانوں کے خیمہِ گُل کے پاس ہی‘ دجلہِ خوں بھی چاہیے اک کارگہِ شیشہ گراں ہیں تری آنکھیں دل کا کنول بجھا تو شہر‘ تیرہ و تار ہو گئے پتھر کے پیرہن سے سراپا نکالیے کسی کی یاد کے جُگنو دھواں اُگلتے ہیں مہکی ہوئی وہ چا درِ گُل بار کیا ہوئی! چاند ڈُوبا ہے تو سورج بھی اُبھر آئے گا میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا کلیوں کو نہال کر گئے ہم جلتے ہوئے چراغ تہِ آب دیکھتے زخم کِھلتے ہیں ترے گاؤں سے دُور دیوار و در پہ دیکھنا خونِ جگر کا رنگ نہیں ہے کوئی بھی اپنا مزاج داں لوگو مُرجھا گئے کھِل کے پُھول یارو جاری رہے گلشن میں بیاں موسمِ گُل کا میری آنکھوں میں سجا ہے لب و رُخسار کا شہر ہائے انسان کی انگڑائی کا خم پیروں میں زنجیریں ڈالیں ‘ ہاتھوں میں کشکول دیا پھانکتی ہے کہاں کی گرد ہَوا کیوں شام ہی سے بُجھ گئے محفل کے سب چراغ رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے میری منزل میں نہیں رات کے آثار اب تک ہم گلستاں میں کب سمائے ہیں لوگ گرویدہ ہوتے جاتے ہیں قربِ منزل کے لیے مر جانا اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔