جون ایلیا کی غزلیں غیر مردّف دہم شکنِ دلہا برہم زنِ محفلہا سر کوئے دراز مژگاناں سُن میاں ہوتی ہیں ان کی خواریاں تجھ کو تڑپانے کی ہیں تیاریاں کہ نا اُس شخص کو بھولیں نا اس کو یاد رکھیں گم افق میں ہوا وہ طیارہ وہ حالت سکوت جو اس کے سخن میں تھی ا ہوئے کتنے دن اس کوچے سے آئے، میں نہیں گِنتا فقط اک میرا نام تھا میرا اس سے رشتہ ہی کیا رہا میرا سب یہ ہنر ہے دید کا، نقش و نگار کیا بھلا ہیں بند سارے شہر کے، بازار کچھ سُنا اور میں پھر بھی نہ شرمندہ ہوا میں ہوں اپنے طور کا ہارا ہوا غنیمت کہ میں اپنے باہر چُھپا میں جو ٹوٹا ، میں جو بکھرا، میں تھا درپن ساجن کا یاد بھی طور ہے بُھلانے کا تھا تو اک شہر خاکساروں کا وہ نہیں تھا میری طبیعت کا قیس تو اپنے گھر گیا کب کا اپنے جھوٹے دکھ سے تم کوکب تک دکھ پہنچاؤں گا وقت پہلے گزر گیا ہو گا آس ہے تیری ہی دل دارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا شاید وہ میرا خوب تھا، شاید خیال تھا کون جانے، وہ کون تھا، کیا تھا وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا؟ آئینہ بے مثال کِس کا تھا میں حد سے گزر جاؤں محبت نے کہا تھا سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا یاد آنا کوئی ضروری تھا بُھولنے پر اس کو جب آیا تو پہچانا بھی تھا جو کچھ تھا وہ تھا ہی تھا بس ایک خیال چاہیے تھا اور پھر کم ہی دھیان میں رکھا خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا پاؤں نہیں تھے درمیاں ، آج بڑا سفر رہا سارا گھر احمریں نظر آیا صبح کا دکھ بڑھا دیا، شام کا دکھ بڑھا دیا تمہارے بعد بھی میں نے کئی کو چھوڑ دیا اور پھر بند ہی یہ باب کیا تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا آ رہا ہے مرے گمان میں کیا خود کو ہلاک کر لیا، خود کو فدا نہیں کیا میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا ب شام کو میری سر خوشی ہے شراب ت دل خون کروں تو پوچھیو مت دل کو تھا اس سے اتحاد بہت د یاد کے گھر نہیں رہے آباد ر آسماں کیوں لال ہے پوچھو خبر صحن ہوا دھواں دھواں ! شام بخیر شب بخیر ۔۔۔ کوئی اثر کیے بغیر کوئی اثر لیے بغیر ش اور چاروں طرف ہے گھر درپیش ع تُو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع م سارا نشہ اُتر گیا جانم بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم ہاں میاں داستانیاں تھے ہم ن سراپا آرزو ہوں آرزو بن مجھ سے ہو کر گزر گئے مرے دن شام سے ہے بہت اداس مشین و تُو کون ہے اور ہے بھی کیا تو کوئی قاتل برسرِ کارآئے تو گلہ کرو کے گلہ بھی نہیں رہا اب تو یاد تھے یادگار تھے ہم تو جان ہم کو وہاں بلا بھیجو باہر نکل کے سینہ فگاروں کا ساتھ دو ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو شوق کا وہ رنگ بدن آئے گا کب، ہم نفسو میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو ہوں بہت شاد کہ ناشاد کروں گا تجھ کو حالتِ حال یک صدا مانگو جو ملے خواب میں وہ دولت ہو میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو اک اور زخم میں کھا لوں اگر اجازت ہو جاناں کبھی، ان کارگزاراں پہ نظر ہو ہر لمحہ لا کے ساتھ ہوں تم کس کے ساتھ ہو کہ رُوٹھے ہو کبھی اور منانے لگتے ہو تو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو ک رہے آخر تری کمی کب تک یاد آئے گی اب تری کب تک ں بس لکھے جاؤں ، بس لکھے جاؤں زرد اداسی کی وحشت ہے اور فضائے شام خزاں ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں تھے تمہاری زلف کے خم رائگاں بیقراری قرار ہے اماں ہاں اک عبث یہ شمار ہے اماں ہاں اس کو ڈھونڈیں تو وہ ملے بھی کہاں راہ گریز پائی ہے صر صر ہے گم یہاں اب میں لبِ زخمِ بے گِلہ ہوں خوابوں ہی میں صرف ہو چکا ہوں پہلو کا عذاب پی رہا ہوں میں کام نہ کر کے تھک گیا ہوں تجھ زبانی تری خبر چاہوں عجب کچھ میں نے سوچا ہے لکھا نئیں تو میرے پاس سے اس وقت جا نئیں اس کو اپنے ساتھ لیں آرائش دنیا کریں خیرہ سرانہ شور مچائیں خیرہ سرانہ رقص کریں آج وہاں قوالی ہو گی جون چلو درگاہ چلیں نیند آنے لگی ہے فرقت میں اک بار اپنے آپ میں آؤں تو آؤں میں سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں تلخ ہے میری زندگی، تلخ زباں رہوں گا میں اپنا گماں ہوں میں یا میں اب کہیں اوج پر نہیں تیرا خیال شہر میں پہلے سنتے ہیں کہ رہتی تھی کوئی یاد اس میں جانِ جاں ، جانانِ جاں ، افسوس میں کیا کہوں میں بس میاں ، افسوس میں اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں دُور ہا دُور آ چُکا ہوں میں ہر ناز آفریں کو ستاتا رہا ہوں میں سب کے دل سے اتر گیا ہوں میں کون ہے بے قابو مجھ میں جانے یہ کون آ رہا مجھ میں آشوب وحدت برپا ہے اللہ ہو کے باڑے میں شکریہ مشورت کا چلتے ہیں جب حرف شوخ سے لب گفتار سرخ ہیں سو ہم اس کی برائی کرتے ہیں جانے ہم خود میں کہ ناخود میں رہا کرتے ہیں ترے رُخ پہ آثارِ غم دیکھتے ہیں ہم میاں جان مرتے رہتے ہیں تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں شہر میں آگ لگانے کے لیے نکلے ہیں لَبِ دریا سراب بیچے ہیں آج کے بعد ہم ہوا کے ہیں کہ اُن کے خط انہیں لوٹا رہے ہیں مگر نہ یوں ہو کہ ہم اپنے کام کے نہ رہیں تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں دل کی حالت بہت خراب نہیں نام کو بھی اب اِضطراب نہیں میری آنکھوں میں کوئی خواب نہیں دل میری جان تیرے بس کا نہیں ترا انتظار بہت کیا ترا انتظار بھی اب نہیں سودا بھی وہم ہے اور سر بھی کچھ نہیں اُس کو خیال بھی نہیں، اپنا خیال بھی نہیں فغاں کہ اب وہ ملالِ ملال ہے بھی نہیں یہ میرا طورِ زندگی ہی نہیں دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں کہ جیسے یہ شہرِ بَلا ہی نہیں بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں ہ شام کا وقت ہے میاں چپ رہ ی کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی سمجھو کہ خواب تھا کہ سحر اس میں گم ہوئی شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی اب گلہ کیا، بہت خوشی کر لی جان حیران ہو گئی ہو گی چاندنی میں ٹہل رہی ہو گی اور ہاں یکبارگی کی جائے گی داستاں کی داستاں ہے زندگی میں بھی برباد ہو گیا، تو بھی وہ کوئی شخص نہیں تھا، وہ ایک حالت تھی پھر بھی محبت صرف مسلسل ملنے کی آسانی تھی ایک عجیب سکوت تھا ایک عجب صدا بھی تھی ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی اسی گماں کو بچا لوں کہ درمیاں ہے یہی ے کہ دار پر گئے ہم اور پھر اُتر آئے تم ہمیں زہر پلا دو تو مزا آ جائے عقل حیراں ہے کیا کیا جائے لب سے کم ہی نباہ کی جائے بند آنکھوں نگاہ کی جائے وہ بچھڑا اور دھیان میں اس کے سو موسم ایجاد ہوئے یاد یاراں یار، یاراں کیا ہوئے جو اپنے گھر سے آئے تھے وہ اپنے گھر گئے ہم بھی اپنے سامنے سے ہٹ گئے زمزمہ خواں گزر گئے ، رقص کناں گزر گئے یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے میں تو نڈھال ہو گیا، ھم تو نڈھال ہو گئے تیری مثال دے کے ہم تیری مثال ہو گئے کیسے دنیا جہان چھوڑ گئے پھر گنوائے بھی گئے اور بھلائے بھی گئے پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے اب کوئی شکوا ہم نہیں کرتے آپ ملتے نہیں ہے کیا کیجے کون لمحوں کے رُوبرو ٹھہرے اک بَلا تو ٹلی مرے سر سے وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے جی نہیں لگ رہا کئی دن سے وہ سوراخوں سے کالے ناگ نکلے جانا تھا کس سمت کو جانے بس بے اٹکل چل نکلے یہ ہنر کِس کو دکھایا میں نے وہ کون تھا جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے غم تو جانے تھے رائیگاں اُن کے جانے کیسے لوگ ہوں گے جو اس کو بھاتے ہوں گے پہنچے گی جو نہ اس تک ہم اس خبر میں ہوں گے اپنے ہی آپ تک گئے ہوں گے زخم کھاتے چلے گئے ہوں گے صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے ہر طرف ہو رہی ہے یہی گفتگو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے وہ خون بھی تھوکے گا تو پرواہ نہ کریں گے اب ہم بھی کسی شخص کی پرواہ نہ کریں گے ہم میں کچھ دلدار تھے ہم کون تھے ہم کون تھے پاؤں پھسلا تو آسمان میں تھے بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے بس کوئی دم نہ بھرنے والے تھے کیاری میں پانی ٹھہرا ھے دیواروں پر کائی ہے میرا اک زخم شام کرتا ہے دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے یہ تو آشوب ناک صورت ہے تیرے ساتھ تری یاد آئی، تو کیا سچ مچ آئی ہے تیرے بدن کی جدائی بہت ستاتی ہے زندگی حالتِ جدائی ہے باقی کو کیا کرنا ہے ساری دنیا فقط کہانی ہے بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے کہ ہر نفس، نفسِ آخرِ بہاراں ہے وصل ہے اور فراق طاری ہے میرے دل سے غبار اٹھتا ہے وہ رنگِ رُخ ہے کہ خود غازہ مست رہتا ہے رہیو بہم خود میں یہاں، شہر بگولوں کا ہے سو پیہم گنگنایا جا رہا ہے کہ مجھ کو یاد فرمایا گیا ہے زندگی اک زیاں کا دفتر ہے ہے آگ جامہ زیب۔۔دھواں بے لباس ہے با صد ہزار رنگ، وہ بے غازہ ہے، سو ہے از زمیں تا بہ آسماں خوں ہے کس نے عذاب جاں سہا کون عذاب جاں میں ہے اُس کی خوشبو، نفس نفس میں ہے جو گئی پلک تلک تھا وہ خیال اب نہیں ہے دل کواب دل دہی سے خطرہ ہے خونیں جگروں ، سینہ فگاروں سے گلہ ہے ہے دستِ فتنہ اور گریبانِ فتنہ ہے یہ دنیا اب تمہاری ہو گئی ہے یہ اداسی کہاں سے آتی ہے میں نے خود سے نباہ کر لی ہے یعنی جاناں دل کا تقاضا آہ بھی ہے فریاد بھی ہے مجھے فرقت سکھائی جا رہی ہے پِیا جی کی سواری جا رہی ہے اک دم سے بُھولنا اسے پھر ابتدا سے ہے جو کچھ ہے یہاں آگ لگانے کے لیے ہے خزاں سے کچھ نہیں ہوتا ، بہار دل میں رہے ہجر میں کرنا ہے کیا یہ تو بتاتے جائیے شوقِ خیال تازہ ہے یعنی عذاب چاہیے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔
اب کیا فریب دیجئے اور کس کودیجئے اب کیا فریب کھائے اور کس سے کھایے ہے یاد پرمدارمیرے کاروبار کہ ہےعرض آپ سے کہ بہت یاد آئیے بس فائلوں کا بوجھ اٹھایا کریں جناب مصرع یہ جون کا ہے اسے مت اٹھایے جون ایلیا پسند کریںپسند کریں جواب دیں
اب کیا فریب دیجئے اور کس کودیجئے
اب کیا فریب کھائے اور کس سے کھایے
ہے یاد پرمدارمیرے کاروبار کہ
ہےعرض آپ سے کہ بہت یاد آئیے
بس فائلوں کا بوجھ اٹھایا کریں جناب
مصرع یہ جون کا ہے اسے مت اٹھایے
جون ایلیا
پسند کریںپسند کریں