امیر مینائی
*یہ کلام اردو محفل سائٹ سے لیا گیا ہے جو کہ فرخ منظور نے مرتب کیا
- تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا
- یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا
- کچھ اور بلا ہوتی ہے وہ دل نہیں ہوتا
- مٹ گئے ہم، تو مِلا ہم کو ٹھکانا تیرا
- حشر کہتے ہیں جسے شہر ہے عریانوں کا
- ذرا سی بات میں ہوتا ہے فیصلہ دل کا
- عمرِ رفتہ کو بھی بُلوائیے گا
- آئینہ ایک طرف، عکس بھی حیراں ہو گا
- تو ہنس کے بولے وہ منہ قابل نقاب نہ تھا
- ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا
- سب تڑپنے بلبلانے کا مزہ جاتا رہا
- سب تڑپنے تلملانے کا مزا جاتا رہا
- گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت
- دبی بات ہونٹوں میں منہ سے نکل کر
- جس طرح آشنا کسی ناآشنا کے پاس
- ملک الموت ہیں دربان درِ خانۂ عشق
- تب ہم نہ رہے وفا کے قابل
- یہ کلیجا کہاں سے لائیں ہم
- پیچھے نہ لگاؤ اس بلا کو
- دل میں ہزار درد اُٹھے آنکھ تر نہ ہو
- سخت کم ظرفی ہے اک دو بوند پانی پر گھمنڈ
- چھوٹے جو بوئے گل کی طرح سے چمن کو چھوڑ
- اِک جانِ ناتواں ہے کسے دوں کسے نہ دوں
- کس کے آگے جا کے سر پھوڑوں الٰہی کیا کروں؟
- ڈھونڈ نے اس کو چلا ہوں جسے پا ہی نہ سکوں
- تو سراپا ناز ہے میں ناز برداروں میں ہوں
- کہتا ہے حُسن میں نہ رہوں گا حجاب میں
- ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں
- ہر رہ گزر میں راہ تری دیکھتا ہوں میں
- اجل شرما گئی سمجھی کہ مجھ کو پیار کرتے ہیں
- یہ بادل جب برستے ہیں لبِ کوثر برستے ہیں
- اپنے سب کام بگڑ کر وہ بنا لیتے ہیں
- نگہ نیچی کیئے وہ سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں
- کیا ناز و نیاز ہو رہے ہیں
- غم سے بے اختیار سا ہے کچھ
- نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
- خوب نکالا آپ نے جوبن، ماشاء اللہ! ماشاء اللہ!
- رقصِ بسمل پہ قضا لوٹ گئی
- ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لئے
- درد بول اٹھا ۔ تڑپنا چاہئے
- کبھی اس گھر میں آ نکلے کبھی اُس گھر میں جا ٹھہرے
- کام اپنا، نام اُس کا کر چلے
- غش بھی آیا تو مِری روح کو رخصت کرنے
- کبھی جاتی ہے دل میں، کیا رسیلی نرم بولی ہے
- کہیں غربت برستی ہے کہیں حسرت برستی ہے
- قدم کوئی کہاں رکھے؟ جدھر دیکھو اُدھر دل ہے
- ہم مرے جاتے ہیں، تم کہتے ہو حال اچھا ہے
- آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
- میں روتا ہوں، اس کو ہنسی سوجھتی ہے