ٹیگ کے محفوظات: یہاں سے شہر کو دیکھو

یہاں سے شہر کو دیکھو

فضا میں گرد ہے اور آسماں پر زرد چادر ہے

صدا اندر صدا اِک خوف بستا ہے

تخیّل در تخیّل سہم سے سمٹی ہوئی سوچیں

حرارت کا حوالہ ڈھونڈنے کو ہر شکم کی آگ رقصاں ہے

سمندر سے اٹھے طوفان ساحل بستیوں کو کھا رہے ہیں

ہوا کے سنسنانے کی صدا کا ساز بھی نوحے سنانے لگ پڑا ہے

ہوس اور حرص کی بڑھتی نمی نے ہر نِجَس پیکر نفس کو

جو یہ زنگ آلود سا اِک رنگ بخشا ہے

وہ ہر چہرے سے ظاہر ہے!

مرے پنچھی!

تمھارے ان پروں پر یہ سفیدی دودھ جیسی ہے

اسے میلا نہ ہونے دو!

کہیں خوشبوؤں میں بستے گلابی گلستاں کی راہ کو جاؤ

خدا کے دہر کو دیکھو!

نہ تم اس شہر کو دیکھو!

یاور ماجد

یہاں سے شہر کو دیکھو

یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ

کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل

ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے

نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ ؐمخلصی کی سبیل

جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال

کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی

جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال

کوئی چھنک، کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی

یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں

نہ کوئی صاحبِ تمکیں، نہ کوئی والیِ ہوش

ہر ایک مردِ جواں مجرمِ رسن بہ گلو

ہر اِک حسینہء رعنا، کنیزِ حلقہ بگوش

جو سائے دُور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں

نہ جانے محفلِ غم ہے کہ بزمِ جام و سبُو

جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہے

یہاں سے کچھ نہیں کھُلتا یہ پھول ہیں کہ لہو

کراچی، مارچ 1965ء

فیض احمد فیض