ٹیگ کے محفوظات: یکبارگی

اور ہاں یکبارگی کی جائے گی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 150
تم سے جانم عاشقی کی جائے گی
اور ہاں یکبارگی کی جائے گی
کر گئے ہیں کوچ اس کوچے کے لوگ
اب تو بس آوارگی کی جائے گی
تم سراپا حُسن ہو، نیکی ہو تم
یعنی اب تم سے بدی کی جائے گی
یار اس دن کو کبھی آنا نہیں
پھول جس دن وہ کلی کی جائے گی
اس سے مِل کر بے طرح روؤں گا میں
ایک طرفہ تر خوشی کی جائے گی
ہے رسائی اس تلک دل کا زیاں
اب تو یاراں نارسی کی جائے گی
آج ہم کو اس سے ملنا ہی نہیں
آج کی بات آج ہی کی جائے گی
ہے مجھے احساس کم کرنا ہلاک
یعنی اب تو بے حسی کی جائے گی
جون ایلیا

کیجیے کیا میر صاحب بندگی بے چارگی

دیوان اول غزل 448
لاعلاجی سے جو رہتی ہے مجھے آوارگی
کیجیے کیا میر صاحب بندگی بے چارگی
کیسی کیسی صحبتیں آنکھوں کے آگے سے گئیں
دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گیا یکبارگی
روے گل پر روز و شب کس شوق سے رہتا ہے باز
رخنۂ دیوار ہے یا دیدئہ نظارگی
اشک خونیں آنکھ میں بھر لا کے پی جاتا ہوں میں
محتسب رکھتا ہے مجھ پر تہمت مے خوارگی
مت فریب سادگی کھا ان سیہ چشموں کا میر
ان کی آنکھوں سے ٹپکتی ہے بڑی عیارگی
میر تقی میر