ٹیگ کے محفوظات: یاد
یاد
آپ کیا کہہ کہ ہمیں لائے تھے کچھ یاد بھی ہے
بلبلوں نے عمر بھر میری کہانی یاد کی
داستاں کہنے کو بیٹھا ہوں دلِ نا شاد کی
حسن اتنا سوچ لے دو بیکسوں کی یاد ہوں
کہ مجھ کو یاد فرمایا گیا ہے
وہ بچھڑا اور دھیان میں اس کے سو موسم ایجاد ہوئے
پہلے سنتے ہیں کہ رہتی تھی کوئی یاد اس میں
ہوں بہت شاد کہ ناشاد کروں گا تجھ کو
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا
خون کسو کا کوئی کرے واں داد نہیں فریاد نہیں
مجنوں کہنے لگا کہ ہاں استاد
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
کوئی ایسا ستم دنیا میں اے صیاد کرتا ہے
فراموش آپ کو کرنا محبت میں ہے یاد اس سے
دیکھے سے طور اس کے خدا یاد آگیا
بھول تو ہم کو گئے ہو یہ تمھیں یاد رہے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کروگے
ٹک اک خاطر خواب صیاد کیجو
ہم فراموش ہوؤں کو بھی کبھو یاد کرو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو
ورنہ یہ کنج قفس بیضۂ فولاد نہیں
کس کے ہوں کس سے کہیں کس کنے فریاد کریں
رکھ کے تیشہ کہے ہے یا استاد
رام صیاد کا ہوتے ہی خدا یاد آیا
یہ دنیا جابروں کے قہر سے آزاد ہو جائے
اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا
یاد
دشتِ تنہائی میں، اے جانِ جہاں، لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے، ترے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں، دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں، ترے پہلو کے سمن اور گلاب
اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدہم مدہم
دورافق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
گر رہی ہے تری دلدار نظر کی شبنم
اس قدر پیار سے، اے جانِ جہاں، رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
یاد
ایک اجلا سا کانپتا دھبا
ذہن کی سطح پر لڑھکتا ہوا
نقش جس میں کبھی سمٹ آئی
لاکھ یادوں کی مست انگڑائی
داغ جس کی جبینِ غم پہ کبھی
ہو گیا آ کے لرزہ بر اندام
کسی بھولے ہوئے حبیب کا نام
زخم جس کی تپکتی تہہ سے کبھی
رس پڑے، دُکھتے گھونگھٹ الٹا کے
کسی چہرے کے سینکڑوں خاکے
عکس، ان دیکھا عکس تیرتا ہے
آنسوؤں کی روانیوں میں رواں
روح کی شورشوں میں سایہ کناں
ذہن کی سطح پر لڑھکتا ہوا
اور کچھ اس بے وفا کو یاد رکھنا چاہیے
اس میں تُو آباد رہے
گلی گلی ہیں دھماکے، فساد جاری ہے
جو ہمیں بھول گیا ہے اسے کیا یاد کریں
یہ خامشی کی غزل سُن، کسی کو یاد نہ کر
اس کو بھی اپنی طرح برباد کر
جان اسکی ترے طوطے میں ہے، یاد سے کہنا
یاد
ان بھول سمے دی مورت جیہی
سفنیاں دے ایس ویس چ رہندی اے
فکراں دی پوہڑی پوہڑی توں
چھکاراں پا پا لہندی اے
بیتے ہوئے سمے سہانے دی
تصویر اکھاں وچ پھر دی اے
بولاں دے اُجڑے شہر اندر
گل اوس کڑی دی چھڑ دی اے
جیہڑی… نظراں دیاں لہراں تے
پھل سدھراں دیاں راہواں تے
چانن بن دے تاریاں لاندی سی
گلاں جیہدیاں خوشبوئی سن
جیہدی چال سی چھم چھم وگدی وا
جیہدی اکھ چ مستی بدلاں دی
جیہدے سر تے زلفاں کالیاں شاہ
جیہدے پیار چ شوہ دیاں لہراں سن
جیہدے بول سجیلے پھل کلیاں
جیہدی سوچ سمے دی مستیائی
جیہدے میل بہاراں رانگلیاں
جیہدے سجر نے پھیرا پایا تے
گل پا گئی طوق دُہائیاں دے
اج بیٹھا گنت شمار کراں
کیہے دوش نیں اکھیاں لائیاں دے