ٹیگ کے محفوظات: ہچکیاں

دشت میں عشق کی ہچکیاں رہ گئیں

قیس کے نام کی تختیاں رہ گئیں
دشت میں عشق کی ہچکیاں رہ گئیں
سب دکانوں پہ وحشت کی تجویز پر
تِیر، چاقو، تبر، برچھیاں رہ گئیں
میں میاں بخشؒ سے مل کے رویا بہت
میرے سینے میں کچھ عرضیاں رہ گئیں
روزِ اوّل سے میں خُوبرو تھا، مجھے
مصر میں ڈھونڈتی لڑکیاں رہ گئیں
فن قلندر بناتا رہا، مُرشدی!
عِلم کے ہاتھ میں ڈِگریاں رہ گئیں
خود پرستی کے متروک ابواب میں
تیرے قصّے، مری مستیاں رہ گئیں
کوئی بھی وقت پر گھر نہیں جا سکا
سب دھری کی دھری تیزیاں رہ گئیں
منہ پہ چیچک کے دانوں کی بہتات تھی
گھر میں محفوظ یوں بیٹیاں رہ گئیں
افتخار فلک

اسی گلشن اسی ڈالی پہ ہو گا آشیاں پھر بھی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 104
اگر زندہ رہیں تو آئیں گے اے باغباں پھر بھی
اسی گلشن اسی ڈالی پہ ہو گا آشیاں پھر بھی
سمجھتا ہے کہ اب میں پا شکستہ اٹھ نہیں سکتا
مگر مڑ مڑ کہ تکتا جا رہا ہے کارواں پھر بھی
بہت کچھ یاد کرتا ہوں کہ یا رب ماجرا کیا ہے
وہ مجھ کو بھول بیٹھے آ رہے ہیں ہچکیاں پھر بھی
سمجھتا ہوں انھیں نیند آ گئی ہے اب نہ چونکیں گے
مگر میں ہوں سنائے جا رہا ہوں داستاں پھر بھی
قمر حالانکہ طعنے روز دیتا ہوں جفاؤں کے
جدا کرتا نہیں سینہ سے مجھ کو آسماں پھر بھی
قمر جلالوی

سن رہا ہوں شب کی تیرہ ساعتوں کی سسکیاں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 13
ہیں کسی تکلیف کی کیا خوبرو تبدیلیاں
سن رہا ہوں شب کی تیرہ ساعتوں کی سسکیاں
چھڑ گئے ہیں پھر مسائل ایک کالی رات کے
آرہی ہیں یاد پھر سے زندگی کی تلخیاں
میں نے مصرع کی کلائی کو نئے کنگن دئیے
شانِ دوشیزہ سخن میں ہو گئیں گستاخیاں
آخری تاریکیاں ہیں قریہء امکان میں
گن رہا ہوں ہچکیاں پچھلے پہر کی ہچکیاں
اک اشارہ چاہئے حرفِ کرم کا صبح کو
دیدۂ تقویم میں ہیں وقت کی بے تابیاں
امتِ مرحومہ کو پھر بخش دے روحِ حیات
سربکف تیرے لئے ہے ظالموں کے درمیاں
میں نے جو منصور لکھا اُس پہ شرمندہ نہیں
مجھ سے پائندہ ہوئی ہیں حرف کی رعنائیاں
منصور آفاق