ٹیگ کے محفوظات: ہوا

دل میں سناٹا تو باہر کی فضا بھی خاموش

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 100
ڈوبتی شام پرندوں کی نوا بھی خاموش
دل میں سناٹا تو باہر کی فضا بھی خاموش
دیکھتے دیکھتے دروازے نظر سے اوجھل
بولتے بولتے تقش کف پا بھی خاموش
رات کی رات وہی رنگ ترنگوں کی پُکار
صبح تک خون بھی خاموش، حنا بھی خاموش
شہر خوابیدہ میں فریاد نہ عکس فریاد
آخری سلسلۂ صوت و صدا بھی خاموش
فرض سے کوئی سبک دوش نہیں ہو پاتا
سر تسلیم بھی چپ، تیغ جفا بھی خاموش
کوئی ہے تیرگئ شام کا مجرم کہ یہاں
ہے چراغوں کی طرح موج ہوا بھی خاموش
آج تک اہل ستم ہی سے شکایت تھی مجھے
سو مرے باب میں ہیں اہل وفا بھی خاموش
اب دُعائیں نہ صحیفے سر دنیائے خراب
میں بھی خاموش ہوا میرا خدا بھی خاموش
MERGED دیکھتے دیکھتے دروازے نظر سے اوجھل
بولتے بولتے نقشِ کف پا بھی خاموش
رات کی رات وہی رنگ ترنگوں کی پکار
صبح تک خون بھی خاموش‘ حنا بھی خاموش
شہرِ خوابیدہ میں فریاد‘ نہ عکسِ فریاد
آخری سلسلۂ صوت و صدا بھی خاموش
فرض سے عہدہ بر آ کوئی نہ ہونے پایا
سرِ تسلیم بھی چپ‘ تیغ جفا بھی خاموش
کون ہے تیرگی شام کا مجرم کہ یہاں
ہے چراغوں کی طرح موجِ ہوا بھی خاموش
آج تک اہلِ ستم ہی سے شکایت تھی مجھے
اب مرے باب میں ہیں اہلِ وفا بھی خاموش
اب دُعائیں نہ صحیفے سرِ دُنیائے خراب
میں بھی خاموش ہوا‘ میرا خدا بھی خاموش
عرفان صدیقی

چراغ گھات میں ہیں اور ہوا نشانے پر

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 92
الٹ گیا ہے ہر اک سلسلہ نشانے پر
چراغ گھات میں ہیں اور ہوا نشانے پر
غزل میں اس کو ستم گر کہا تو روٹھ گیا
چلو‘ یہ حرفِ ملامت لگا نشانے پر
میں اپنے سینے سے شرمندہ ہونے والا تھا
کہ آگیا کوئی تیرِ جفا نشانے پر
خدا سے آخری رشتہ بھی کٹ نہ جائے کہیں
کہ اب کے ہے مرا دستِ دُعا نشانے پر
وہ شعلہ اپنی ہی تیزی میں جل بجھا ورنہ
رکھا تھا خیمۂ صبر و رضا نشانے پر
میں انتظار میں ہوں کون اسے شکار کرے
بہت دنوں سے ہے میری نوا نشانے پر
عرفان صدیقی

کیسا نالہ وہ فقیر بے نوا کرتا تھا رات

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 84
بام و در پر ایک سنّاٹا عزا کرتا تھا رات
کیسا نالہ وہ فقیر بے نوا کرتا تھا رات
شہر ہوُ میں ایک ویرانی کا لشکر صف بہ صف
ہر طرف تاراج بازار و سرا کرتا تھا رات
اس خرابی کے مکاں میں ایک سایہ ایک نقش
ہم کلامی مجھ سے بے صوت و صدا کرتا تھا رات
اک غبارِ ساعتِ رفتہ کسی محراب سے
میرے چہرے میرے آگے رونما کرتا تھا رات
طاقِ تنہائی سے اٹھتا تھا چراغوں کا دھواں
اور مرے ہونے سے مجھ کو آشنا کرتا تھا رات
وہم دکھلاتا تھا مجھ کو روشنی کی تیرگی
وہم ہی میرے اندھیرے پر جلا کرتا تھا رات
روشنی کے ایک ربطِ رائیگاں کے باوجود
اک خلا آنکھوں سے منظر کو جدا کرتا تھا رات
تھا مرے باطن میں کوئی قصہ گو‘ وہ کون تھا
مجھ سے اک طرفہ حکایت ماجرا کرتا تھا رات
ہو گیا تھا تاجِ سر میرے لیے سودائے سر
سایۂ شب سر بسر کارِ ہما کرتا تھا رات
زہر شب میں کوئی دارو کارگر ہوتی نہ تھی
ہاں مگر اک زہر شب جو فائدہ کرتا تھا رات
جسم میں میرا لہو درویشِ گرداں کی طرح
لحظہ لحظہ پائے کوبی جا بجا کرتا تھا رات
زرد پتوں کے بکھرنے کی خبر دیتا ہوا
رقص میرے صحن میں پیکِ ہوا کرتا تھا رات
میں کوئی گوشہ گزیں‘ ترکِ وفا کا نوحہ گر
دیر تک تحریر تعویذ وفا کرتا تھا رات
کیا بشارت غرفۂ حیرت سے کرتی تھی نزول
کیا کرامت میرا حرفِ نارسا کرتا تھا رات
بند میرے کھولتا تھا کوئی آکر خواب میں
جاگتے میں پھر مجھے بے دست و پا کرتا تھا رات
رنگ روشن تھا سوادِ جاں میں اک تصویر کا
ایک چہرہ میری آنکھیں آئینہ کرتا تھا رات
مجھ کو اپنا ہی گماں ہوتا تھا ہر تمثال پر
کوئی مجھ سے کاروبارِ سیمیا کرتا تھا رات
صبح سورج نے اسی حجرے میں پھر پایا مجھے
میں کہاں تھا کیا خبر عرفانؔ کیا کرتا تھا رات
عرفان صدیقی

وَرنہ ٹوٹے ہوئے رِشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 54
ایک ضد تھی مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
وَرنہ ٹوٹے ہوئے رِشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا
تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا
یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا
اَب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے وَرنہ
سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا
یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا
اِک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا
سب تری دین ہے، یہ رنگ، یہ خوشبو، یہ غبار
میرے دَامن میں تو اَے موجِ ہوا کچھ بھی نہ تھا
اور کیا مجھ کو مرے دیس کی دَھرتی دیتی
ماں کا سرمایہ بجز حرفِ دُعا کچھ بھی نہ تھا
لوگ خود جان گنوا دینے پہ آمادہ تھے
اِس میں تیرا ہنر اَے دستِ جفا کچھ بھی نہ تھا
سبز موسم میں ترا کیا تھا، ہوا نے پوچھا
اُڑ کے سوکھے ہوئے پتّے نے کہا کچھ بھی نہ تھا
عرفان صدیقی

جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 53
نوحہ گزار ہوٗ کی صدا کے سوا نہ تھا
جنگل میں زندہ کوئی ہوا کے سوا نہ تھا
پل بھر میں سیم تاب تو پل بھر میں لالہ رنگ
وہ دشت اِک طلسم سرا کے سوا نہ تھا
اُن کی ظفر پہ جیش حریفاں تھی حیرتی
اُن کی طرف تو کوئی خدا کے سوا نہ تھا
کارِ آفریں کے دست بریدہ کی دسترس
اک فرض تھا کہ عرض وفا کے سوا نہ تھا
کیا قافلہ گیا ہے ادھر سے کہ جس کے ساتھ
کچھ ساز و برگ شور درا کے سوا نہ تھا
زیر قدم تھی دور تلک خاک ناسپاس
سر پر کچھ آسماں کی ردا کے سوا نہ تھا
اک سیل خوں تھا اور خدا کی زمین پر
کوئی گواہ تیغ جفا کے سوا نہ تھا
یہ چشم کم نظر تہہ خنجر کہے جسے
کچھ بھی گلوئے صبر و رضا کے سوا نہ تھا
عرفان صدیقی

دُور تک لیکن سفر کا سلسلہ جیسے ہوا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 31
کوئی وحشی چیز سی زنجیرِ پا جیسے ہوا
دُور تک لیکن سفر کا سلسلہ جیسے ہوا
بند کمرے میں پراگندہ خیالوں کی گھٹن
اور دروازے پہ اِک آوازِ پا، جیسے ہوا
گرتی دیواروں کے نیچے سائے، جیسے آدمی
تنگ گلیوں میں فقط عکسِ ہوا، جیسے ہوا
آسماں تا آسماں سنسان سنّاٹے کی جھیل
دائرہ در دائرہ میری نوا، جیسے ہوا
دو لرزتے ہاتھ جیسے سایہ پھیلائے شجر
کانپتے ہونٹوں پہ اک حرفِ دُعا، جیسے ہوا
پانیوں میں ڈوبتی جیسے رُتوں کی کشتیاں
ساحلوں پر چیختی کوئی صدا، جیسے ہوا
کتنا خالی ہے یہ دامن، جس طرح دامانِ دشت
کچھ نہ کچھ تو دے اِسے میرے خدا، جیسے ہوا
عرفان صدیقی

اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 15
رُکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا
اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنارِ آپ ہے پہرا لگا ہوا کیسا
ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خوُنبار
اُفق اُفق ہے یہ منظر گریز پا کیسا
اذان ہے کہ علم کیا بلند ہوتا ہے
یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا
یہ لوگ دشت جفا میں کسے پُکارتے ہیں
یہ بازگشت سناتی ہے مرثیہ کیسا
گلوئے خشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر
خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا
وہ مہربان اجازت تو دے رہا ہے مگر
یہ جاں نثار ہیں مقتل سے لوٹنا کیسا
یہ ایک صف بھی نہیں ہے، وہ ایک لشکر ہے
یہاں تو معرکہ ہو گا، مقابلہ کیسا
سلگتی ریت میں جو شاخ شاخ دفن ہوا
رفاقتوں کا شجر تھا ہرا بھرا کیسا
یہ سرُخ بوُند سی کیا گھل رہی ہے پانی میں
یہ سبز عکس ہے آنکھوں میں پھیلتا کیسا
کھڑا ہے کون اکیلا حصارِ غربت میں
گھرا ہوا ہے اندھیروں میں آئنہ کیسا
یہ ریگِ زرد ردا ہے برہنہ سر کے لیے
اُجاڑ دشت میں چادر کا آسرا کیسا
سیاہ نیزوں پہ سورج اُبھرتے جاتے ہیں
سوادِ شام ہے منظر طلوع کا کیسا
تجھے بھی یاد ہے اے آسماں کہ پچھلے برس
مری زمین پہ گزرا ہے سانحہ کیسا
عرفان صدیقی

بدن صحرا ہوئے‘ آب و ہوا سے کچھ نہیں ہوتا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 11
دھنک سے پھول سے‘ برگِ حنا سے کچھ نہیں ہوتا
بدن صحرا ہوئے‘ آب و ہوا سے کچھ نہیں ہوتا
بہت کچھ دوستو‘ بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے
فقط اس خنجرِ دستِ جفا سے کچھ نہیں ہوتا
اگر وسعت نہ دیجے وحشتِ جاں کے علاقے کو
تو پھر آزادیِ زنجیر پا سے کچھ نہیں ہوتا
کوئی کونپل نہیں اس ریت کی تہ میں تو کیا نکلے
یہاں اے سادہ دل کالی گھٹا سے کچھ نہیں ہوتا
ازل سے کچھ خرابی ہے کمانوں کی سماعت میں
پرندو! شوخیِ صوت و صدا سے کچھ نہیں ہوتا
چلو‘ اب آسماں سے اور کوئی رابطہ سوچیں
بہت دن ہو گئے حرفِ دُعا سے کچھ نہیں ہوتا
عرفان صدیقی

پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دیے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 645
میں نے ذرا جو دھوپ سے پردے اٹھا دیے
پانی میں رنگ اس نے شفق کے ملا دیے
پوچھی پسند یار کی میں نے فراق سے
آہستگی سے رات نے مجھ کو کہا، دیے
کہہ دو شبِ سیاہ سے لے آئے کالکیں
ہاتھوں پہ رکھ کے نکلی ہے خلقِ خدا دیے
ہر دل چراغ خانہ ہے ہر آنکھ آفتاب
کتنے بجھا سکے گی زمیں پر، ہوا، دیے
بڑھنے لگی تھی دھوپ مراسم کی آنکھ میں
دریا کے میں نے دونوں کنارے ملا دیے
بالوں میں میرے پھیر کے کچھ دیر انگلیاں
کیا نقش دل کی ریت پہ اس نے بنا دیے
بھادوں کی رات روتی ہے جب زلفِ یار میں
ہوتے ہیں میری قبر پہ نوحہ سرا دیے
کافی پڑی ہے رات ابھی انتظار کی
میرا یقین چاند، مرا حوصلہ دیے
اتنا تو سوچتے کہ دیا تک نہیں ہے پاس
مٹی میں کیسے قیمتی موتی گنوا دیے
کچھ پل ستم شعار کی گلیوں میں گھوم لے
عرصہ گزر گیا ہے کسی کو دعا دیے
میں نے بھی اپنے عشق کا اعلان کر دیا
فوٹو گراف شیلف پہ اس کے سجا دیے
منصور سو گئے ہیں اجالے بکھیر کر
گلیوں میں گھومتے ہوئے سورج نما دیے
منصور آفاق

زندگی کا کہیں ہو گیا قتل ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 618
اک دیے کا ہوانے کیا قتل ہے
زندگی کا کہیں ہو گیا قتل ہے
تیرے کالر پہ جو سج گیا ہے گلاب
تیلیوں کیلئے پھول کا قتل ہے
دین نے ایک انسان کے قتل کو
ساری انسانیت کا کہا قتل ہے
دل نے چاہا اسی وقت اس کاقصاص
جب کسی بے گنہ کا ہوا قتل ہے
اپنے نزدیک انسانی اعمال میں
جرم کی آخری انتہا قتل ہے
بے گناہی کا جو شخص قاتل ہوا
صرف منصور اس کا روا قتل ہے
منصور آفاق

اک محمد خدا پہ اترا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 599
آسماں کے حرا پہ اترا ہے
اک محمد خدا پہ اترا ہے
بول ! زنجیر ریل گاڑی کی
کون کیسی جگہ پہ اترا ہے
سوچتا ہوں کہ رحم کا بادل
کب کسی کربلا پہ اترا ہے
کس کے جوتے کا کھردرا تلوا
سدرئہ المنتہیٰ پہ اترا ہے
خیر کی آرزو نہ راس آئی
قہر دستِ دعا پہ اترا ہے
جھونک دے گی ہر آنکھ میں منصور
راکھ کا دکھ ہوا پہ اترا ہے
منصور آفاق

سنگِ جہاں نزاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 589
ہوتے مرے بھی خال و خد، آئینہ دیکھتا مجھے
سنگِ جہاں نزاد ہوں ، کوئی تراشتا مجھے
کشفِ وصال و ہجر میں کیسا شعورِ ذات ہے
عشق کہے میں کون ہوں حسن کہے وفا مجھے
اس کے خرامِ ناز پر کوئی چراغ کیا جلا
شب کے نگار خانے میں بادِ صبا لگا مجھے
لکھی غزل ہے میر نے میرے چُرا چُرا کے خواب
غالبِ خستہ حال نے بارِ دگر کہا مجھے
قریہء ماہ تاب تک چھان کے آ گیا ہوں میں
منزلِ وصل کے لیے اتنا نہ اب پھرا مجھے
اس کو حیات بخش دی، مہر منیر ہو گیا
شاخِ صلیبِ شام پر جس نے کہا خدا مجھے
جانا جہاں تھا اس طرف اپنی ازل سے پیٹھ ہے
چلنا ابد تلک پڑا یوں ہی بے فائدہ مجھے
کتنے ہزار سال سے تجھ کو منا رہا ہوں میں
میرے قریب بیٹھ کر تُو بھی کبھی منا مجھے
مجھ سے ترا فروغ کن مجھ سے ہے گردشِ فلک
میرا مقام و مرتبہ، پستی نہیں ، اٹھا مجھے
میرے علاوہ اور بھی کچھ ہے ترے خیال میں
میرے مزاج آشنا! تجھ سے یہی گلہ مجھے
ٹوٹ کے شاخِ سبز سے دشت ستم خرام میں
لکھنا ہے گرم ریت پر پھولوں کا مرثیہ مجھے
میں نے کہا کہ آنکھ میں دھند بھری ہے رنگ کی
اس کے مہیں لباس پر کرنا تھا تبصرہ مجھے
خیمۂ کائنات کی ٹوٹی ہوئی طناب کو
حرف صدائے کن بتا، کیسے ہے تھامنا مجھے
اس کی طلب کے حکم پر رہنا جہاں پڑا مجھے
لوگ برے برے لگے شہر خراب سا مجھے
میرا طلسم جسم بس میرے محاصرے میں ہے
اپنے نواحِ ذات میں کھینچ دیا گیا مجھے
ایک کرن شعور کی، ایک بہار نور کی
اپنے چراغِ طور کی بخش کوئی چتا مجھے
مجھ سے بڑا کوئی نہیں ‘ رات کے اک چراغ نے
کھنچی ہوئی لکیر میں رہ کے یہی کہا مجھے
آمدِ یار کے لیے جمع چراغِ چشم ہیں
کھینچنا ہے گلی گلی نور کا حاشیہ مجھے
پاؤں میں ہے غبارِ رہ، آنکھ میں منظرِ سیہ
دل ہے مرا طلب کدہ کوئی دیا دکھا مجھے
اس کے وجودِ سنگ میں دل ہی نہیں رکھا گیا
پھر بھی گماں یہی کہ ہے دل پہ لکھا ہوا مجھے
کوئی نہیں بتا سکا کیسے جیوں ترے بغیر
دیتا تمام شہر ہے، جینے کا مشورہ مجھے
رستہ تھا روشنی بکف، گھر تھا چمن بنا ہوا
تیرے مگر فراق کے دکھ نے جگا دیا مجھے
میرا وہاں ہے آسماں تیری جہاں ہیں پستیاں
میرے بدن پہ پاؤں رکھ، قوس قزح بنا مجھے
کہتی ہے داستانِ نور، آ کے سیہ لباس میں
مرتے ہوئے دیار کی بجھتی ہوئی چتا مجھے
سنگ صفت دیار کی شام سیہ نصیب میں
چھوٹے سے اس مکان کا کتنا ہے آسرا مجھے
مستی سے بھر، ترنگ دے، دل کو کوئی امنگ دے
اپنے بدن کا رنگ دے، خود سے ذرا ملا مجھے
منصور آفاق

گمشدہ بستیوں کے خا کے کھینچ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 249
نقشے کچھ قریۂ سما کے کھینچ
گمشدہ بستیوں کے خا کے کھینچ
تیری آنکھوں میں کیا تناسب ہے
میرے فوٹو گراف آ کے کھینچ
تیری خوشبو چرا لے آئی ہے
کان اڑتی ہوئی ہوا کے کھینچ
روند دے پاؤں میں کفن کی رات
چیتھڑے دامنِ فنا کے کھینچ
اچھی کرلی ہے خاک کی تقسیم
اب فلک پر لکیریں جا کے کھینچ
دیکھ کھڑکی میں آ گیا ہے چاند
ہاتھ اپنا ذرا بڑھا کے کھینچ
دن کو پکڑا تو ہے کنارے سے
زور پورا مگر لگا کے کھینچ
بند کر دے یہ کیمرہ منصور
اس کا فوٹو اسے بتا کے کھینچ
منصور آفاق

سلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 236
تُو لائے یار کی خوشبو، سدا سلامتی ہو
سلام تجھ پہ ہو، باد صبا سلامتی ہو
میں دھڑکنوں کے تلاطم سے لطف لیتا ہوں
ہزار وحشتِ موجِ ہوا سلامتی ہو
مری حیاتِ گذشتہ سے لوٹ آتی ہوئی
صباحتِ لب و رخ کی صدا سلامتی ہو
ملالِ شامِ مسلسل کی حکمرانی ہے
الم نصیب، دلِ باوفا سلامتی ہو
تمام کون و مکاں کے لیے دعائے خیر
فقط یہاں ہی نہیں جا بجا سلامتی ہو
وہاں بچھانی ہے اک جانماز میں نے بھی
کنارِ چشمہء حمد و ثنا سلامتی ہو
میں چل رہا تھا کسی بد کلام بستی میں
کسی نے مجھ کو اچانک کہا سلامتی ہو
سیاہ دن سے گزرتی ہوئی سفید قبا
اٹھے ہوئے ہیں یہ دست دعا سلامتی ہو
پڑوس میں بھی ترے دم سے کچھ اجالا ہے
سلامتی مرے گھر کا دیا سلامتی ہو
میں خوشہ چین ہوں غالب ترے گلستاں کا
اے کائناتِ سخن کے خدا سلامتی ہو
شبِ فراق چمکتی ہے تیرے جلووں سے
اے مہتاب کی دھیمی ضیا سلامتی ہو
یہیں پہ خیر بھی رہتی ہے شر بھی ہے آباد
مری زمین پہ منصور کیا سلامتی ہو
منصور آفاق

جاعدالت میں اُس بے وفا کے خلاف

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 206
کیس ، ممکن ہے مکرو ریا کے خلاف
جاعدالت میں اُس بے وفا کے خلاف
یہ جنارہ بھی دراصل ہے اک جلوس
نیستی کے مقامِ فنا کے خلاف
تیری آواز بھی سلب ہوسکتی ہے
گفتگو کر نہ قحطِ نوا کے خلاف
پھر رہا ہے برہنہ کوئی شہر میں
پھر رعونت زدہ بادشہ کے خلاف
یہ کرشمہ مسلسل گھٹن سے ہوا
ہو گئے پھول تازہ ہوا کے خلاف
اک یہی زندگی کا سہارا ہے بس
میں نہیں ہوں وجودِ خدا کے خلاف
خوشبوئے یارسے یہ معطر نہیں
بات کر کوئی بادِ صبا کے خلاف
خاک پر مجھ کو منصور بھیجا گیا
میری مرضی کے میری رضاکے خلاف
منصور آفاق

منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 157
کس طرف جائے گی اب راہ فنا میرے بعد
منزلیں دیں گی کسے اپنا پتا میرے بعد
رات کا دشت تھا کیا میرے لہو کا پیاسا
آسماں کتنا سحر پوش ہوا میرے بعد
یہ تو ہر طرح مرے جیسا دکھائی دے گا
کوزہ گر چاک پہ کیا تو نے رکھا میرے بعد
"کون پھر ہو گا حریفِ مے مرد افگنِ عشق؟”
کون دنیا کے لیے قبلہ نما میرے بعد
لڑکھڑاتی ہوئی گلیوں میں پھرے گی تقویم
وقت کا خاکہ اڑائے گی ہوا میرے بعد
میں خدا تو نہیں اس حسن مجسم کا مگر
کم نہیں میرا کیا اس نے گلہ میرے بعد
میں وہ سورج ہوں کہ بجھ کر بھی نظر آتا ہوں
اب نظر بند کرو میری ضیا میرے بعد
دشت میں آنکھ سمندر کو اٹھا لائی ہے
اب نہیں ہو گا کوئی آبلہ پا میرے بعد
تیرے کوچہ میں بھٹکتی ہی رہے گی شاید
سالہا سال تلک شام سیہ میرے بعد
گر پڑیں گے کسی پاتال سیہ میں جا کر
ایسا لگتا ہے مجھے ارض و سما میرے بعد
بعد از میر تھا میں میرِ سخن اے تشبیب
’کون کھولے گا ترے بند قبا میرے بعد‘
رات ہوتی تھی تو مہتاب نکل آتا تھا
اس کے گھر جائے گا اب کون بھلا میرے بعد
رک نہ جائے یہ مرے کن کی کہانی مجھ پر
کون ہو سکتا ہے آفاق نما میرے بعد
بزم سجتی ہی نہیں اب کہیں اہلِ دل کی
صاحبِ حال ہوئے اہل جفا میرے بعد
پھر جہالت کے اندھیروں میں اتر جائے گی
سر پٹختی ہوئی یہ خلق خدا میرے بعد
پہلے تو ہوتا تھا میں اوس بھی برگِ گل بھی
ہونٹ رکھے گی کہاں باد صبا میرے بعد
مجھ سے پہلے تو کئی قیس کئی مجنوں تھے
خاک ہو جائے گا یہ دشتِ وفا میرے بعد
بس یہی درد لیے جاتا ہوں دل میں اپنے
وہ دکھائے گی کسے ناز و ادا میرے بعد
جانے والوں کو کوئی یاد کہاں رکھتا ہے
جا بھی سکتے ہیں کہیں پائے حنا میرے بعد
زندگی کرنے کا بس اتنا صلہ کافی ہے
جل اٹھے گا مری بستی میں دیا میرے بعد
اس کو صحرا سے نہیں میرے جنون سے کد تھی
دشت میں جا کے برستی ہے گھٹا میرے بعد
میرے ہوتے ہوئے یہ میری خوشامد ہو گی
شکریہ ! کرنا یہی بات ذرا میرے بعد
میں ہی موجود ہوا کرتا تھا اُس جانب بھی
وہ جو دروازہ کبھی وا نہ ہوا میرے بعد
میرا بھی سر تھا سرِ صحرا کسی نیزے پر
کیسا سجدہ تھا… ہوا پھر نہ ادا میرے بعد
کاٹنے والے کہاں ہو گی یہ تیری مسند
یہ مرا سرجو اگر بول پڑا میرے بعد
پہلے تو ہوتی تھی مجھ پر یہ مری بزم تمام
کون اب ہونے لگا نغمہ سرا میرے بعد
میں کوئی آخری آواز نہیں تھا لیکن
کتنا خاموش ہوا کوہ ندا میرے بعد
میں بھی کر لوں گا گریباں کو رفو دھاگے سے
زخم تیرا بھی نہیں ہو گا ہرا میرے بعد
تیری راتوں کے بدن ہائے گراں مایہ کو
کون پہنائے گا سونے کی قبا میرے بعد
شمع بجھتی ہے‘ تو کیا اب بھی دھواں اٹھتا ہے
کیسی ہے محفلِ آشفتہ سرا میرے بعد
میں ہی لایا تھا بڑے شوق میں برمنگھم سے
اس نے پہنا ہے جو ملبوس نیا میرے بعد
عشق رکھ آیا تھا کیا دار و رسن پر منصور
کوئی سجادہ نشیں ہی نہ ہوا میرے بعد
منصور آفاق

ابھی دیکھا تھا اپنی روشنی کے ساتھ تھا سورج

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 145
کسی نے کچھ کہا ہے کیا، کہاں یہ چل دیا سورج
ابھی دیکھا تھا اپنی روشنی کے ساتھ تھا سورج
اسے معلوم تھی شاید مری راتوں کی برفابی
مری آنکھوں کے بالکل سامنے دن بھر رہا سورج
چپک جاتا ہے خاموشی سے میرے ساتھ بستر میں
یہ نم دیدہ دسمبر کی اداسی سے بھرا سورج
برہنہ پانیوں پر شام کی کرنیں ٹپکتی تھیں
مگر پھر یوں ہوا نیلا سمندر ہو گیا سورج
مرے دریا کے پانی کو ہوا ہونے نہیں دیتا
کہیں برفیلے کہساروں کو پگھلاتا ہوا سورج
یہ کافی دیر سے کھڑکی کھلی ہے میرے کمرے کی
ابھی نکلا نہیں ہے اِس گلی میں صبح کا سورج
ابھی کچھ دیر رہنا چاہتا ہوں میں اجالوں میں
بلاتا ہے مجھے اپنی طرف پھر ڈوبتا سورج
مجھے دل کی گلی میں بھی تپش محسوس ہوتی ہے
خود اپنے ہجر میں اتنا زیادہ جل بجھا سورج
اُدھر پوری طرح اترا نہیں وہ روشنی کا تھال
نکلتا آ رہا ہے یہ کدھر سے دوسرا سورج
رکھا ہے ایک ہی چہرہ بدن کے بام پر میں نے
کوئی مہتاب کہتا ہے کسی کا تبصرہ سورج
نگاہوں کو شعاعوں کی ضرورت تھی بہت لیکن
کہاں تک میری گلیوں میں مسلسل جاگتا سورج
جہاں اس وقت روشن ہے تبسم تیرے چہرے کا
انہی راتوں میں برسوں تک یہ آوارہ پھرا سورج
اسے اچھے نہیں لگتے سلگتے رتجگے شاید
اکیلا چھوڑ جاتا ہے ہمیشہ بے وفا سورج
اجالے کا کفن بُننا کوئی آساں نہیں ہوتا
نظر آتا ہے شب کے پیرہن سے جا بجا سورج
ابھرنا ہی نہیں میں نے نکلنا ہی نہیں میں نے
اتر کر عرش کے نیچے یہی ہے سوچتا سورج
افق پر اک ذرا آندھی چلی تھی شام کی منصور
کہیں ٹوٹی ہوئی ٹہنی کی صورت گر پڑا سورج
منصور آفاق

رنگ بکھرا دیے پھر تازہ ہوا نے کیا کیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 123
مل گئے مجھ کو بھی جینے کے بہانے کیا کیا
رنگ بکھرا دیے پھر تازہ ہوا نے کیا کیا
کیسی خوشبوئے بدن آتی ہے کمرے سے مجھے
پھول وہ چھوڑ گئی میرے سرہانے کیا کیا
میں تجھے کیسے بتاؤں مری نازک اندام
مجھ پہ گزرے ہیں مصائب کے زمانے کیا کیا
میری خاموشی پہ الزام لگانے والی
کہتی پھرتی ہیں تری آنکھیں نجانے کیا کیا
کیا غزل چھیڑی گئی سانولے رخساروں کی
شام کے گیت کہے بادِ صبا نے کیا کیا
میرے پہلو میں نئے پھول کھلے ہیں کتنے
مجھ کو شاداب کیا دستِ دعا نے کیا کیا
یونہی بے وجہ تعلق ہے کسی سے لیکن
پھیلتے جاتے ہیں منصور فسانے کیا کیا
منصور آفاق

وہ میرے ساتھ کوئی دن رہا تو اس نے کہا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 107
میں زندگی ہوں وہ جانے لگا تو اس نے کہا
وہ میرے ساتھ کوئی دن رہا تو اس نے کہا
مجھے زمین سے رکھنے ہیں اب مراسم بس
جب آسماں نے فسردہ کیا تو اس نے کہا
میں تتلیوں کے تعاقب میں جانے والا ہوں
کسی نے ماتھے پہ بوسہ دیا تو اس نے کہا
اداس رہنے کی عادت ہے مجھ کو ویسے ہی
گلی میں اس کی کوئی مرگیا تو اس نے کہا
مجھے بھی شام کی تنہائی اچھی لگتی ہے
مری اداسی کا قصہ سنا تو اس نے کہا
خیال رکھنا تجھے دل کا عارضہ بھی ہے
جب اس کے سامنے میں رو پڑا تو اس نے کہا
مجھے تو رات کی نیت خراب لگتی ہے
چراغ ہاتھ سے میرے گرا تو اس نے کہا
کوئی فرشتوں کی مجھ سے تھی دشمنی منصور
پڑھا نصیب کا لکھا ہوا تو اس نے کہا
منصور آفاق

یعنی قربانی کرتا ہوا شیر تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 96
اک سیہ بھیڑ تھی اک سیہ شیر تھا
یعنی قربانی کرتا ہوا شیر تھا
بلی کوبادشہ کیسے مانے وہ شخص
جس کی آنکھوں میں شیرِ خدا شیر تھا
شہر میں ہو گیا ہے درندہ صفت
جنگلوں میں مہذب ذرا شیر تھا
نوکری پیشہ یعنی کہ سرکس زدہ
لومڑی کا کوئی دلربا شیر تھا
ایک گیڈر جو گلیوں سے گزرا مری
شور اٹھا شیر تھا شیر تھاشیر تھا
ڈھاڑتا تھاجو منصور کو دیکھ کر
آدمی تھا کوئی ناطقہ شیر تھا
منصور آفاق

خشک پتوں کو ہوا کا درد تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 94
مضمحل ہوتے قویٰ کا درد تھا
خشک پتوں کو ہوا کا درد تھا
جان لیوا بس وہی ثابت ہوا
جو مسیحا کی دوا کا درد تھا
رک گیا، آہیں سُروں پر دیکھ کر
ساز کو بھی ہم نوا کا درد تھا
کچھ برس پہلے مرے احساس میں
تھا، سلوکِ ناروا کا درد تھا
مجھ کو دکھ تھا کربلائے وقت کا
اس کو خاکِ نینوا کا درد تھا
منصور آفاق

راکھ کو یعنی ہوا کا درد تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 93
دل کو یارِ بے وفا کا درد تھا
راکھ کو یعنی ہوا کا درد تھا
موت کی ہچکی مسیحا بن گئی
رات کچھ اِس انتہا کا درد تھا
ننگے پاؤں تھی ہوا کی اونٹنی
ریت تھی اور نقشِ پا کا درد تھا
کائناتیں ٹوٹتی تھیں آنکھ میں
عرش تک ذہنِ رسا کا درد تھا
میں جسے سمجھا تھا وحشت ہجر کی
زخم پروردہ انا کا درد تھا
رات کی کالک افق پر تھوپ دی
مجھ کو سورج کی چتا کا درد تھا
منصور آفاق

عظمت عشق بڑھا دی ہم نے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 219
رسم سجدہ بھی اٹھا دی ہم نے
عظمت عشق بڑھا دی ہم نے
جب کوئی تازہ شگوفہ پھوٹا
کی گلستاں میں منادی ہم نے
آنچ صیاد کے گھر تک پہنچی
اتنی شعلوں کو ہوا دی ہم نے
جب چمن میں نہ کہیں چین ملا
در زنداں پہ صدا دی ہم نے
دل کو آنے لگا بسنے کا خیال
آگ جب گھر کو لگا دی ہم نے
اس قدر تلخ تھی روداد حیات
یاد آتے ہی بھلا دی ہم نے
حال جب پوچھا کسی نے باقیؔ
اک غزل اپنی سنا دی ہم نے
باقی صدیقی

متاع درد تو ہم راہ میں لٹا آئے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 184
جنوں کی راکھ سے منزل میں رنگ کیا آئے
متاع درد تو ہم راہ میں لٹا آئے
وہ گرد اڑائی کسی نے کہ سانس گھٹنے لگی
ہٹے یہ راہ سے دیوار تو ہوا آئے
کسی مقام تمنا سے جب بھی پلٹے ہیں
ہمارے سامنے اپنے ہی نقش پا آئے
نمو کے بوجھ سے شاخیں نہ ٹوٹ جائیں کہیں
تم آؤ تو کوئی غنچہ کھلے، صبا آئے
یہ دل کی پیاس یہ دنیا کے فاصلے باقیؔ
بہت قریب سے اب تو کوئی صدا آئے
باقی صدیقی

ایک پردہ اٹھا تھا پہلے بھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 174
آپ ہی آپ سامنے تھے ہم
ایک پردہ اٹھا تھا پہلے بھی
منزل دل کی جستجو معلوم
دور اک قافلہ تھا پہلے بھی
کس نے دیکھا ہے غم کا آئنہ
دل تماشا بنا تھا پہلے بھی
یہی رنگ چمن کی باتیں تھیں
یہی شور صبا تھا پہلے بھی
پھول مہکے تھے رند بہکے تھے
جشن برپا ہوا تھا پہلے بھی
زیست کے ان فسانہ خوانوں سے
اک فسانہ سنا تھا پہلے بھی
کسی در پر جھکے نہ ہم باقیؔ
اپنا رستہ جدا تھا پہلے بھی
باقی صدیقی

کس توقع پہ دے صدا کوئی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 152
ہم سخن ہے نہ ہم نوا کوئی
کس توقع پہ دے صدا کوئی
اب تصور بھی ساتھ دے نہ سکے
دور اتنا نکل گیا کوئی
منزلوں سے بھی بڑھ گئے آگے
دو قدم ساتھ جب چلا کوئی
زندگی راستہ ہے یا منزل
چل دیا سوچتا ہوا کوئی
کس توقع پہ آرزو کی تھی
کام آیا نہ آسرا کوئی
آس ٹوٹی کچھ اسطرح باقیؔ
جیسے پردہ سا اٹھ گیا کوئی
باقی صدیقی

ہم ہو گئے دنیا سے خفا اور زیادہ

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 150
دل تیری اداؤں سے کھچا اور زیادہ
ہم ہو گئے دنیا سے خفا اور زیادہ
دل خون ہوا جاتا ہے دنیا کی ادا سے
یہ رنگ جما جتنا اڑا اور زیادہ
کیا داغ جلے دل کے بہ انداز چراغاں
احساس اندھیرے کا ہوا اور زیادہ
اس طرح مرے منہ پہ کوئی ہاتھ نہ رکھے
اس طرح تو گونجے گی صدا اور زیادہ
اب صورت آوارہ صدا، دل سے گزرنا
اب ٹھہرے تو چیخے گا خلا اور زیادہ
جب پڑتا ہے پھولوں پہ ترے حسن کا پرتو
گلشن میں مچلتی ہے صبا اور زیادہ
اس طرح وہ بت آیا مری راہ میں باقیؔ
یاد آنے لگا مجھ کو خدا اور زیادہ
باقی صدیقی

درخت سے ہمیں سایہ جدا نظر آیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 66
تری نگاہ کا انداز کیا نظر آیا
درخت سے ہمیں سایہ جدا نظر آیا
بہت قریب سے آواز ایک آئی تھی
مگر چلے تو بڑا فاصلہ نظر آیا
یہ راستے کی لکیریں بھی گم نہ ہو جائیں
وہ جھاڑیوں کا نیا سلسلہ نظر آیا
یہ روشنی کی کرن ہے کہ آگ کا شعلہ
ہر ایک گھر مجھے جلتا ہوا نظر آیا
کلی کلی کی صدا گونجنے لگی دل میں
جہاں بھی کوئی چمن آشنا نظر آیا
بتاؤ کس لئے پتھر اٹھائے پھرتے ہو
کہو تو آئنہ خانے میں کیا نظر آیا
یہ دوپہر یہ پگھلتی ہوئی سڑک باقیؔ
ہر ایک شخص پھسلتا ہوا نظر آیا
باقی صدیقی

وہ رنگ گل تھا کہ شعلہ تری ادا کا تھا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 56
چمن میں شور بہت شوخی صبا کا تھا
وہ رنگ گل تھا کہ شعلہ تری ادا کا تھا
وفا کا زخم ہے گہرا تو کوئی بات نہیں
لگاؤ بھی تو ہمیں ان سے انتہا کا تھا
دیار عشق میں ہر دل تھا آئنہ اپنا
وہی تھا شاہ کا انداز جو گدا کا تھا
غم جہاں کی خبر اس طرح بھی ہم کو ملی
کہ رنگ اڑا ہوا اک درد آشنا کا تھا
کسی کلی کا چٹکنا بھی ناگوار ہوا
وہ انتظار ہمیں آپ کی صدا کا تھا
قدم کچھ اس طرح اکھڑے کہ سوچ بھی نہ سکے
کدھر سے آئے تھے ہم رُخ کدھر ہوا کا تھا
دیار غم سے گیا کون سرخرو باقیؔ
مگر وہ لوگ جنہیں آسرا خدا کا تھا
باقی صدیقی