ٹیگ کے محفوظات: ہنس

سنتا نہیں اس قافلے میں کوئی جرس بس

دیوان پنجم غزل 1631
صد پارہ گلا تیرا ہے کر ضبط نفس بس
سنتا نہیں اس قافلے میں کوئی جرس بس
دنیا طلبی نفس نہ کر شومی سے جوں سنگ
تھک کر کہیں ٹک بیٹھ رہ اے ہرزہ مرس بس
خنداں نہ مرے قتل میں رکھ تیغ کو پھر سان
جوں گل یہ ہنسی کیا ہے اسیروں پہ نہ ہنس بس
اس زار نے ہاتھ ان کا جو کھینچا لگے کہنے
غش کرنے نہ لگ جاؤں کہیں چھوڑیے بس بس
کیا میر اسیروں کو در باغ جو وا ہو
ہے رنگ ہوا دیکھنے کو چاک قفس بس
میر تقی میر

جاتی ہیں یوں ہی ناداں جانیں ترس ترس کر

دیوان دوم غزل 809
آ ہم نشیں کسو کے مت عشق کی ہوس کر
جاتی ہیں یوں ہی ناداں جانیں ترس ترس کر
فرصت سے اس چمن کی کل روکے میں جو پوچھا
چشمک کی ایک گل نے میری طرف کو ہنس کر
ہم موسے ناتواں تھے سو ہوچکے ہیں کب کے
نکلے ہو تم پیارے کس پر کمر کو کس کر
جی رک گیا کہیں تو پھر ہوئے گا اندھیرا
مت چھیڑ ابر مجھ کو یوں ہی برس برس کر
کیا ایک تنگ میں ہوں اس زلف پرشکن سے
اس دام میں موئے ہیں بہتیرے صید پھنس کر
اک جمع کے سر اوپر روز سیاہ لایا
پگڑی میں بال اپنے نکلا جو وہ گھڑس کر
اس قافلے میں کوئی دل آشنا نہیں ہے
ٹکڑے گلے کے اپنے ناحق نہ اے جرس کر
صیاد اگر اجازت گلگشت کی نہیں ٹک
دیوار باغ کو تو بارے درقفس کر
بے بس ہے میر تجھ بن رہتا نہیں دل اس کا
ٹک تو بھی اے ستم جو جور و ستم کو بس کر
میر تقی میر

اس ملک میں ہماری ہے یہ چشم تر ہی بس

دیوان اول غزل 236
اے ابر تر تو اور کسی سمت کو برس
اس ملک میں ہماری ہے یہ چشم تر ہی بس
حرماں تو دیکھ پھول بکھیرے تھی کل صبا
اک برگ گل گرا نہ جہاں تھا مرا قفس
مژگاں بھی بہ گئیں مرے رونے سے چشم کی
سیلاب موج مارے تو ٹھہرے ہے کوئی خس
مجنوں کا دل ہوں محمل لیلیٰ سے ہوں جدا
تنہا پھروں ہوں دشت میں جوں نالۂ جرس
اے گریہ اس کے دل میں اثر خوب ہی کیا
روتا ہوں جب میں سامنے اس کے تودے ہے ہنس
اس کی زباں کے عہدے سے کیونکر نکل سکوں
کہتا ہوں ایک میں تو سناتا ہے مجھ کو دس
حیراں ہوں میر نزع میں اب کیا کروں بھلا
احوال دل بہت ہے مجھے فرصت اک نفس
میر تقی میر