ٹیگ کے محفوظات: ہمنوائی

آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 93
اِس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی
ورنہ اب تلک یوں تھا خواہشوں کی بارش میں
یا تو ٹوٹ کر رویا یا غزل سرائی کی
تج دیا تھا کل جن کو ہم نے تیری چاہت میں
آج ان سے مجبوراً تازہ آشنائی کی
ہو چلا تھا جب مجھ کو اختلاف اپنے سے
تو نے کس گھڑی ظالم میری ہمنوائی کی
ترک کر چکے قاصد کوئے نا مراداں کو
کون اب خبر لاوے شہر آشنائی کی
طنز و طعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے
آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی
پھر قفس میں شور اٹھا قیدیوں کا اور صیاد
دیکھنا اڑا دیگا پھر خبر رہائی کی
دکھ ہوا جب اس در پر کل فراز کو دیکھا
لاکھ عیب تھے اس میں خو نہ تھی گدائی کی
احمد فراز

بات اپنی پرائی کرتے ہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 126
آپ سے آشنائی کرتے ہیں
بات اپنی پرائی کرتے ہیں
کر رہے ہیں کوئی خطا جیسے
اس طرح ہم بھلائی کرتے ہیں
جن پہ ہوتا ہے اعتبار وہی
وقت پر بے وفائی کرتے ہیں
راہ سے آشنا نہیں پھر بھی
حسرت رہنمائی کرتے ہیں
بھول جاتے ہیں خود کو بھی باقیؔ
لوگ جب ہمنوائی کرتے ہیں
باقی صدیقی