ٹیگ کے محفوظات: ہمراز

کسی کو پِھر نظر انداز کر دیا میں نے

زمانے بھر پَہ عیاں راز کر دیا میں نے
کسی کو پِھر نظر انداز کر دیا میں نے
صدائے درد کسی کو جہاں گراں گذری
شکستہ دل کو وَہیں ساز کر دیا میں نے
سماعتوں کو ہُوا ناگوار جو لہجہ
وہ لوحِ مَرقَدِ آواز کر دیا میں نے
دلوں کی بات کسی ایک کو تَو کہنی تھی
حضور! لیجیے! آغاز کر دیا میں نے
نظر پَہ حُسن کو دیکھا کہ اعتماد نہ تھا
سو دل کو حُسن کا ہَمراز کر دیا میں نے
خرد کو اہلِ خرد کُچھ نہ دے سکے ضامنؔ
جنوں کو باعثِ اعزاز کر دیا میں نے
ضامن جعفری

سیکھ بیٹھے ہم اڑانوں کے نئے انداز بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
جس کی خواہش تھی ملا ہے وہ پرِ پرواز بھی
سیکھ بیٹھے ہم اڑانوں کے نئے انداز بھی
چپ رہے جب تک تو کلیوں سا رہا مٹھی میں بھید
مسکرانا تھا کہ ٹھہرا درد کا غمّاز بھی
ہم سے کب بے سمت نکلے لوگ لوٹائے گئے
رہ گئے تھک ہار کر بھرّا گئی آواز بھی
اپنا عکسِ نطق ہی نکلا جو دیکھا غور سے
تھا اِنہی حرفوں میں پنہاں وہ سراپا ناز بھی
وہ نگاہیں جب کبھی مضراب سی اٹھیں اِدھر
بیشتر اِس جسم کو ٹھہرا گئی ہیں ساز بھی
خاک کے پردے سے نکلے لوگ دکھلائیں تو ہم
میرؔ سا لیکن ملے ماجدؔ کوئی ہمراز بھی
ماجد صدیقی

یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 6
یوں سجا چاند کہ جھلکا ترے انداز کا رنگ
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ
سایہء چشم میں‌حیراں رُخِ روشن کا جمال
سُرخیء لب میں‌ پریشاں تری آواز کا رنگ
بے پئے ہوں کہ اگر لطف کرو آخرِ شب
شیشہء مے میں‌ ڈھلے صبح کے آغاز کا رنگ
چنگ و نَے رنگ پہ تھے اپنے لہو کے دم سے
دل نے لےَ بدلی تو مدھم ہوا ہر ساز کا رنگ
اک سخن اور کہ پھر رنگِ تکلم تیرا
حرفِ سادہ کو عنایت کرے اعجاز کا رنگ
فیض احمد فیض