ٹیگ کے محفوظات: ہماریاں

جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں

دیوان اول غزل 297
مشہور ہیں دنوں کی مرے بے قراریاں
جاتی ہیں لامکاں کو دل شب کی زاریاں
چہرے پہ جیسے زخم ہے ناخن کا ہر خراش
اب دیدنی ہوئی ہیں مری دستکاریاں
سو بار ہم نے گل کے گئے پر چمن کے بیچ
بھر دی ہیں آب چشم سے راتوں کو کیاریاں
کشتے کی اس کے خاک بھرے جسم زار پر
خالی نہیں ہیں لطف سے لوہو کی دھاریاں
تربت سے عاشقوں کے نہ اٹھا کبھو غبار
جی سے گئے ولے نہ گئیں رازداریاں
اب کس کس اپنی خواہش مردہ کو رویئے
تھیں ہم کو اس سے سینکڑوں امیدواریاں
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
کیا جانتے تھے ایسے دن آجائیں گے شتاب
روتے گذرتیاں ہیں ہمیں راتیں ساریاں
گل نے ہزار رنگ سخن سر کیا ولے
دل سے گئیں نہ باتیں تری پیاری پیاریاں
جائوگے بھول عہد کو فرہاد و قیس کے
گر پہنچیں ہم شکستہ دلوں کی بھی باریاں
بچ جاتا ایک رات جو کٹ جاتی اور میر
کاٹیں تھیں کوہکن نے بہت راتیں بھاریاں
میر تقی میر

تم ان اندھیروں میں گلیاں ہماریاں دیکھو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 118
ہوائے شب سے چراغوں کی یاریاں دیکھو
تم ان اندھیروں میں گلیاں ہماریاں دیکھو
یہ بستیاں کبھی آکر ہماریاں دیکھو
خراب خاک کی خوش اعتباریاں دیکھو
لہو کی لہر کے پیچھے نکل چلو اُس پار
کھلی ہوئی ہیں ابھی راہداریاں دیکھو
یہاں تو چشم تماشا ہے کام میں مصروف
کبھی نہ آئیں گی ہاتھوں کی باریاں دیکھو
نزول شعر کی ساعت ہے، لفظ ہیں خاموش
اُتر رہی ہیں ہماری سواریاں دیکھو
تمام رات بدن کا طواف کرتا ہے
ہمارے خون کی تب زندہ داریاں دیکھو
ہمارے بعد پڑھو صاحبو ظفر کی غزل
حدود دیکھ چکے، بے کناریاں دیکھو
عرفان صدیقی